سائنس پر مسلمانوں کے اثرات اور تراجم کی ضرورت


تہذیب ایک سلسلہ زنجیر ہے جس کے سرے باہم مربوط ہیں اور ماضی بعید سے لے کر آج تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر تہذیب نے پہلی تہذیبوں سے استفادہ کیا ہے۔ پرانی تہذیب سے اخذ کرنے کے بعد اس سلسلے سے اپنا تعلق قائم کیا۔ چینی، مصری، یونانی، رومی، اسلامی، مغربی سبھی تہذیبوں پر اس امر کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یونانیوں نے سائنس کی ابتداء کی اور مغرب نے اس کو کمال تک پہنچایا۔ لیکن ان دونوں کڑیوں کے درمیان رابطہ کا کام مسلمانوں نے سر انجام دیا۔ آج بھی مسلمانوں کو ترجمہ و تدوین کی اشد ضرورت ہے تاکہ سائنسی فکر کا احیاء ہو سکے۔

سائنس کسی خاص تمدن یا قوم کی میراث نہیں پھر بھی اہل یورپ کے مسلم سائنس دانوں نے سائنسی علوم و فنون میں جو قابل تحسین خدمات انجام دی ہیں اس کا اعتراف کھلے دل سے نہیں کیا گیا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہمیں علمی و سائنسی ترقی میں مسلمانوں کے کردار پر کھل کر بات کرنی چاہیے تاکہ ہمارے نوجوان اعتماد اور یقین کے ساتھ سائنسی علوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے اہل ہوں۔ میرا گمان ہے کہ سائنس و تحقیق کے شعبوں میں مسلمانوں کی شراکت کے بغیر مغرب آج کی کامرانیاں حاصل نہ کر پاتا۔

اہل یورپ ایک عرصہ تک مسلمانوں و عربوں کے اکتشافات کو اپنی جانب منسوب کر کے داد و تحسین حاصل کرتے رہے تاہم دور جدید کے یورپی محققین و سائنسدانوں نے ہی سائنسی ترقی کا پردہ چاک کیا اور مسلمانوں کے سائنسی علوم کے ارتقاء میں مثبت کردار کو سراہا ہے۔ سوویت یونین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی تاس کی اکتوبر 1976 کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سوویت سائنسدانوں کو الفارابی کی کتاب Additional Knowledge میں ایسی Equation ملی ہے جس کے ذریعے لگ بھگ ایک ہزار سال قبل اسی عظیم سائنسدان نے سورج کی بے قاعدہ حرکت کو ثابت کیا ہے۔

فارابی نے اس کتاب میں چاند کی حرکات اور سیاروں کی حرکات پر بھی روشنی ڈالی ہے اور یہ اس نے اس وقت دریافت کیا جب ابھی دور بین ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ جرمنی کی ممتاز سکالر ڈاکٹر سگرڈ ہنک نے اپنی کتاب ”دی سن آف اسلام“ میں مسلمانوں کی خدمات کا کھلا اعتراف کیا ہے۔ محمد طفیل ہاشمی نے اپنی کتاب ”مسلمانوں کے سائنسی کارنامے“ میں بھی ان حوالوں پر روشنی ڈالی ہے۔ الفونسو سادس کے 1085 ءمیں قبضے کے بعد طیطلہ اسلامی و عربی ثقافت کا مسیحی اسپین اور یورپ میں تعارف کا ذریعہ بن گیا۔

انگریز ریاضی دان ایڈلارڈ آف باتھ اور پطرس الفونسی دو ایسے عالم تھے جنہوں نے بارہویں صدی کے نصف اول میں ہیئت و ریاضی پر شائع شدہ عربی کتابوں کو لاطینی زبان میں منتقل کیا۔ طیطلہ کے اسقف رایموندو نے عربی سائنس کو یورپ میں متعارف کروانے کے لیے ایک ادارہ قائم کیا جو تیرہویں صدی تک قائم رہا۔ اس ادارہ میں یہودی علماءنے اسلامی ریاضیات، فلکیات، طب، کیمیا، طبعیات، فلسفہ و منطق پر لکھی گئی بہت سی کتابوں کے عبرانی، اسپانوی اور لاطینی زبانوں میں ترجمے کیے۔

بعد ازاں الفونسو العاشر نے مرسیہ میں ایک سائنسی ادارہ قائم کیا اور اس میں ابو بکر محمد بن احمد الرقوطی کو شعبہ ¿ ریاضی کا سربراہ بنایا گیا۔ بارہویں صدی کے بعد اسلامی جامعات کی طرز پر یورپ میں تعلیمی درسگاہیں کھولی گئیں۔ ان اداروں کا نصاب قدیم اسلامی مصنفین کی کتابوں پر مشتمل تھا۔ اس دور میں کئی ماہرین سرقہ نے مسلمانوں کی کتابوں کے تراجم کو اپنی کتاب کے طور پر شائع کیا۔

یورپ کو اسلامی طب سے آشنا کرنے والا پہلا طبیب قسطنطین افریقی ہے۔ اس نے سترہ سال تک عربی کتب کا لاطینی میں ترجمہ کیا۔ ان ترجموں کو اس کی طبع زاد کتابوں کے طور پر شائع کیا جاتا رہا۔ ممتاز محقق Meyerhof لکھتا ہے کہ ”قسطنطین ایک بے حیا سارق تھا۔ اس نے عربی سے لاطینی میں ایک سے زائد ترجمے کیے اور ان کا خود اپنی تصنیف ہونا بیان کیا۔“ پھیپھڑوں میں گردش خون کی دریافت ولیم ہارفی سے منسوب ہے۔ حالانکہ اس سے چار سو سال پہلے دمشق کا عظیم طبیب علی بن ابی الخرم ابن النفیس اس حوالے سے تحقیق پیش کر چکا تھا۔

Dr Sigrid Hunke کے مطابق قطب نما کی ایجاد Flavio Gioja کے نام ہے۔ حالانکہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ عرب گیارہویں صدی عیسویں میں اپنے بحری اسفار میں قطب نما استعمال کرتے تھے۔ مغرب میں بارود کی ایجاد راجر بیکن کی سمجھی جاتی ہے۔ درحقیقت اس کی ایجادکا مآخذ سلیبان اور بریفالٹ کے مطابق عربی کتاب ”النیران المحرقہ للاعدائ“ تھی۔ جس میں بارود سازی کا نسخہ تحریر تھا۔

مسلمانوں کی سائنسی خدمات نے یورپ پر بہت اثرات مرتب کیے تھے ابو بکر محمد بن زکریا کی کتاب ”الجدری والحصبہ“ کے تراجم نے بہت فوائد پہنچائے اس کتاب سے پہلے پہل چیچک اور خسرہ کے بارے میں واضح معلومات ملتی ہیں۔ مغربی طب پر رازی کی کتاب ”الحاوی“ کے قابل ذکر اثرات کا تذکرہ مغربی قلمکاروں نے بھی بہت کیا ہے۔ اسپین کے جراح ابو القاسم زھراوی کی کتاب ”التصریف لمن عجز عن التالیف فی قسم الجراحتہ“ یورپی دانشگاہوں میں مسلسل پڑھائی جاتی رہی۔

ماکس مایئروسوف نے عبدالملک بن زہر کی کتاب الیتسیر کے بارے میں لکھا ہے کہ ”یہ کتاب مسلمانوں میں اتنی مقبول نہیں ہوئی جتنی کہ یورپ میں مقبول ہوئی۔ ویانا اور فرینکفرٹ میں طبی نصاب ابن سینا کی ’القانون‘ اور امام رازی کی ’المنصوری‘ کی نویں کتاب پر مبنی تھا۔ ابن بیطار کی کتاب“ المفردات ”کے لاطینی زبان میں نسخے اٹھارہویں صدی تک شائع ہوتے رہے۔ مسلم ہیئت دان ماشاءاللہ کی کتاب سابع و عشرین ازمنہ وسطیٰ کی مقبول کتابوں میں تھی۔

مسلم ماہر فلکیات ابو اسحاق ابراہیم بن یحییٰ زرقالی کی تحقیقات سے یورپین ماہرین نے خوب استفادہ کیا۔ اسی طرح زمین کے مرکز کائنات ہونے کے بطلیموسی نظریہ کو رد کرنے کا کریڈٹ سہولویں صدی میں کوپر نیکس کو حاصل ہوا۔ اس رد کی بنیاد بھی مسلمان سائنسدانوں نے ہی فراہم کی تھی۔ ابن ماجہ کی تصنیف“ کتاب الحدائق ”میں بطلیموسی نظریہ پر سخت تنقید کی گئی ہے۔

سائنسی علوم میں علم ریاضی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مسلمان ریاضی دانوں نے ہندی ارقام کی روشنی میں اعداد کے دو سلسلے بنائے تھے۔ گیارہویں صدی تک اہل یورپ صفر کے استعمال سے آشنا نہیں تھے۔ بارہویں صدی میں محمد بن موسی الخوارزمی کی ”کتاب الحساب“ کا لاطینی میں ترجمہ ہوا تو اہل یورپ صفر سے آگاہ ہوئے۔ لیونارڈو فیبوچی نے خوارزمی کی کتاب الجبر و المقابلہ کا ترجمہ کر کے نظام اعشاریہ کو سارے یورپ میں قبولیت عام بخشی۔

اسی طرح جغرافیہ میں مسلمانوں کے کرویت ارض کے تصور کا بڑا چرچا رہا یہی وہ جغرافیائی نظریہ ہے جس کی بنیاد پر امریکہ کی دریافت ممکن ہو سکی۔ یورپ کو جغرافیہ کا علم شریف ادریسی کی کتاب ”نزھتہ المشتاق فی اختراق آلافاق“ کے لاطینی ترجمے سے ہوا۔ پروفیسر طفیل ہاشمی کے مطابق دلچسپ امر یہ ہے کہ اس تلخیص کا مرتب، مصنف کے نام سے بھی واقف نہ تھا۔

یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ سائنس کے میدانوں میں مسلمانوں کی ایسی سنہری خدمات ہیں تو پھر ہم نے کوئی نیوٹن، آئن سٹائن پیدا کیوں نہیں کیا۔ ؟ بلا شبہ یہ امر باعث تشویش ہے کہ مسلمانوں کی علمی و سائنسی روایت مستحکم کیوں نہ ہو سکی۔ مگر جہاں تک سائنس پر مسلمانوں کے اثرات کا تعلق ہے تو بریفالٹ نے بہت پہلے اس سوال کا جواب دے رکھا ہے اور اس حوالے سے بریفالٹ لکھتا ہے کہ ”عربوں کے علم ہیئت نے کوئی کوپر نیکس اور نیوٹن پیدا نہیں کیا۔

لیکن انہوں نے جو کچھ کیا، اس کے بغیر کوپرنیکس اور نیوٹن پیدا ہو ہی نہیں سکتے تھے“ ۔ بلا شبہ انسانی تہذیب کے ارتقاءمیں مسلمان سائنسدانوں نے بہت مثبت اور متحرک کردار ادا کیا ہے۔ یونانی تہذیب اناطولیہ کی تہذیب پر غالب آئی، یونانی تہذیب نے اس کو ترقی دی۔ بعد ازاں رومیوں نے یونانی تہذیب کو اپنایا۔ اسی طرح اسلامی تہذیب نے یونانی اور رومی تہذیبوں کو موت سے محفوظ رکھا اور انہیں نئی اور اعلیٰ تہذیب تک لائی ہے۔

اب تہذیبی و علمی ارتقاء میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ہمیں ایک علمی نشاة ثانیہ کی ضرورت ہے۔ تخلیق و تحقیق کے عمل کے کمزور ہو جانے کے باعث ہمیں بے اعتماد ہو کر نہیں رہ جانا بلکہ تراجم کے ذریعے حرارت نو حاصل کرنی ہے عصری علوم سے آگاہی، سائنس و ٹیکنالوجی کی اسلامی فکر اور مسلم تحقیق کے چراغ کو روشن کرنا ہے اور انسانیت کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ علم ترجمہ کی اہمیت ان قوموں کو زیادہ محسوس ہوتی ہے جو دنیا سے قدم ملا کر چلنا چاہتے ہیں۔

آج اس احیائے نو کی ابتدائی سطع پر ہمیں علم ترجمہ اور ترجمہ کاری کی روایت کو اس عصری چیلنج سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا ہوگی۔ خدا کرے یہ نوید فکر کہ سائنسی علوم کی تحقیق و دانش کو ترجمہ کے ذریعے سماج میں رواج دے کر اور بالخصوص سائنسی فکر کو فروغ دے کر ہی ہم سائنسی علوم میں مسلمانوں کے کردار کو احیائے نو کے قالب میں ڈھال سکتے ہیں۔ سائنس اور سائنسی فکر ہی ہمیں کائنات کا حقیقی تعارف کروا سکتی ہے اور اسی کے ذریعے ہی ہم فکر اسلامی کی تشکیل نو کے اہل ہو سکتے ہیں اور یہی نشاۃ ثانیہ ہمارے روشن مستقبل کی ضامن ہو گی۔ ہم سب کا فرض ہے کہ نئی نسلوں کو اپنی علمی و سائنسی میراث سے آگاہ کریں۔ اور سائنسی فکر و سوچ کے فروغ میں فعال کردار ادا کریں۔ سائنسی فکر کے بغیر نہ سائنس و تحقیق فروغ پا سکتی ہے اور نہ علم و تہذیب کا ارتقاء ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments