نیپال کا پہاڑ، رات میں ٹریفک جام اور روشنی کی شاہراہ


پہاڑ پر وہ سڑک دور تک چلی جارہی تھی۔ ڈھلتی شام میں تیزی سے پھیلتا اندھیرا اک انوکھے منظر میں ڈھل گیا تھا کہ طویل فاصلے تک پھیلی لہراتی اور بل کھاتی پہاڑی سڑک گاڑیوں کی روشنیوں سے گویا جگمگا رہی تھی جن سے وجود میں انے والی روشنی کی شاہراہ کا کیا عجب خوبصورت سا منظر تھا جس نے گویا دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیا تھا۔ حالانکہ صورتحال اور وقت تو مختلف سا اور کچھ پریشان کرنا والا سا تھا۔

کچھ منظر گویا مستقل سے ہوتے ہیں اور کچھ عارضی طور پر تخلیق ہو جاتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں رات کے اندھیرے میں روشنی کئی عجب سے مناظر ترتیب دیتی ہے، بارش کے بعد کئی دلکش مگر عارضی منظر وجود پاتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں شام بہت تیزی سے اترتی ہے، اندھیرا یکایک اپنی سلطنت قائم کرلیتا ہے اور اس کے بعد اک چھوٹی سی روشنی بھی بہت دور سے نظر اتی ہے۔

رات کا وقت، ہر اک سو اندھیرا اور نیپال کا دورافتادہ پہاڑی علاقہ جہاں سے قریب ترین قصبہ بھی کوئی ایک گھنٹے کے فاصلے پر واقع تھا۔ پہاڑی سلسلے میں دور تک لہراتی اور بل کھاتی پہاڑی سڑک پہ ٹریفک جام کی وجہ سے دور دور تک جمع گاڑیوں کی سامنے اور پیچھے کی روشنیوں سے گھپ اندھیرے میں گویا اک روشنی کی شاہراہ تخلیق ہوگئی تھی۔

رات کے آٹھ بج رہے تھے۔ ہم ایک دور تک پھیلے ہوئے ٹریفک جام میں پھنس چکے تھے اور فی الحال اس سے چھٹکارے کا کوئی راستہ نظر نہیں اتا تھا۔ آج ہی صبح سویرے بہت جلدی ہم کٹھمنڈو سے روانہ ہوئے تھے اور ہماری منزل کٹھمنڈو سے کئی گھنٹے کے فاصلے کے واقع اک چھوٹا سا پہاڑی گاؤں تھا۔

جہاں ہم یعنی والینٹئرمنسٹرز انٹرنیشنل کے دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے رضاکار، ڈاکٹرز اور امدادی ماہرین، براعظم جنوبی امریکہ کے ملک کولمبیا کی میڈیکل ریسکیو کے ادارے سیناٹ کی پیرا میڈیکل ٹیم اور نیپال اسکاؤٹس کے پرعزم نوجوان لڑکے لڑکیاں نیپال میں دوہزار پندرہ میں انے والے شدید نوعیت کے زلزلے سے متاثرہ آبادی کے ایک کیمپ میں طبی امداد، ٹراما کونسلنگ اور کچھ غذائی اشیا بانٹنے کی غرض سے روانہ ہوئے تھے۔

وہاں پہنچ کر ہم نے میڈیکل چیک اپ، کچھ غذائی اشیا کی تقسیم کے علاوہ زلزلہ متاثرین کو ڈائیانیٹکس کی آڈیٹنگ تکنیک پر مبنی ٹراما کونسلنگ کے سیشن دینے کے ساتھ ساتھ جسمانی چوٹوں اور تکالیف جیسے درد اور صدمے سے نکالنے کے لئے ایک خاص قسم کی تھراپی جسے اسسٹ کہتے ہیں، کے سیشن دیے۔ اس کے علاوہ کیمپ میں موجود زلزلہ متاثرین میں سے نوعمر اور نوجوان لڑکے لڑکیوں کو اسسٹ کی مختلف تکنیکس سکھا ئیں تاکہ ہمارے روانہ ہونے کے بعد اپنے اطراف میں بیمار اور پریشان لوگوں کا درد اور تکلیف کم اور ختم کرنے کے لیے ان تکنیکس کا بھرپور استعمال کرکے مسلسل مدد اور اعانت کا کام کرسکیں۔

اپنا آج کا امدادی مشن مکمل کرکے ہم کٹھمنڈو واپسی کے طویل فاصلے کے سفر کے لیے روانہ ہوئے تھے کہ سفر کا آدھا فاصلہ طے کرکے اب اس پہاڑی سڑک پر ایک طویل ٹریفک جام میں پھنس چکے تھے۔

پہاڑ پر سڑک بنانا اک مشکل کام ہے اور دشواریوں کی بنا پر عموماً پہاڑی سڑکیں مختلف پہاڑوں کے گرد گھومتی بلندیوں اور پستیوں سے گزرتی ایک الگ سا منظر تخلیق کرتی ہیں۔ یہ سڑکیں عموماً دو رویہ نہیں ہوتی ہیں تو ایک سڑک ہی انے جانے والی ٹریفک کے استعمال میں رہتی ہے تو جب بھی پہاڑ ی سڑک پر کوئی حادثہ، لینڈ سلائیڈ یا مسئلہ ہوتا ہے تو دونوں جانب کی ٹریفک کی قطاریں لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔

ٹریفک جام میں پھنسی ہماری کوسٹر (مائیکرو بس) میں وقت گزارنے کے لیے مختلف سرگرمیاں اور گپ شپ جاری تھی کہ ہم دو تین رضاکاروں نے سوچا کہ ٹریفک جام کی وجہ دریافت کی جائے اور اس ارادے سے ہم اپنی کوسٹر سے باہر نکلے تھے کہ اس لہراتی، بل کھاتی طویل پہاڑی سڑک پر ٹریفک جام کے نیتجے میں دونوں اطراف میں کئی کلومیٹرز تک پھیلی گاڑیوں کی ہیڈلائٹس اور دیگر روشنیوں کی بنا پر وجود میں انے والی اس روشنی کی شاہراہ کے خوبصورت منظر میں گم ہوگئے۔

خیر روشنی کی شاہراہ کے دلکش منظر کو دیکھتے دیکھتے اور چلتے چلتے آخرکار ہم پہاڑی سڑک کے اس مقام تک پہنچ گئے جہاں اک معمولی حادثہ کی وجہ سے ٹریفک جام کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ اک ٹرک اور سامنے سے اتی کار میں معمولی سا تصادم ہوا تھا جس میں کار کے ڈرائیور نے بچنے کے لیے کار کا اسٹئرنگ گھمایا اور کار سڑک کے عین درمیان میں آ گئی جس کے بعد ٹریفک کی روانی رک گئی۔

ہم نے اور دیگر لوگوں نے کار کے مالک سے بات کی کہ اگر کار کو دھکا دے کر اک سمت کردیں تاکہ جزوی طور پر ٹریفک گزرنا شروع ہو جائے۔ مگر اس نے کہا کہ جب تک پولیس نہیں ائے گی تو میں گاڑی ایک انچ بھی نہیں ہلاؤں گا۔ اس معاملے میں تھوڑی بہت بلند آوازیں تھیں مگر بڑا جھگڑا نہیں ہورہا تھا۔ اب ٹریفک پولیس کا انتظار تھا کہ ملکی یا شاید انشورنس کے قانون کے مطابق کسی بھی حادثے کے بعد کسی بھی گاڑی کی پوزیشن نہیں بدلی جاسکتی۔

ہم اب کھڑے یہ سوچ رہے تھے کہ نجانے ٹریفک پولیس کے انے میں کتنے گھنٹے لگتے ہیں کہ قریب ترین قصبہ بھی کم ازکم ایک گھنٹے کے فاصلے پر تھا۔ کہیں پوری رات اس پہاڑی سڑک پر نہ گزارنی پڑے۔ ہمارے خدشات اور اندیشے ہوا ہو گئے جب ڈیڑھ یا دو گھنٹے میں ٹریفک پولیس وہاں پہنچ گئی اور قانونی کارروائی کرکے ٹریفک کی روانی بحال کرا دی اور یوں ہماری کوسٹر بھی روانہ ہوئی۔ اپنے خطے کے نیپال جیسے ترقی یافتہ ملک میں دوردراز پہاڑی سڑک پر ٹریفک پولیس کی مستعد کارروائی دیکھ کر خوشی بھی ہوئی اور حیرانی بھی۔

اس کے علاوہ کافی دیر کے ٹریفک جام اور معمولی تصادم کے باوجود لوگوں کے باہمی رویے کو دیکھ کر خوشی ہوئی کہ تلخی کلام کے باوجود آوازیں بلند آہنگ نہ تھیں اور بات گفتگو سے اگے بھی نہ بڑھی۔

نیپال کی اس ڈھلتی شام سے رات تک پہاڑی سڑک پر بیتا ہوا وقت اور دور تک موجود گاڑیوں کی روشنیوں سے بننے والی روشنی کی شاہراہ ہمیشہ یادوں کو جگمگاتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments