ہماری منیا کو دیکھے ہو؟


آج دہلی سے بڑے ابو کے بیٹے کا خط آیا۔ لکھا تھا بڑے ابو کا انتقال ہوگیا۔ ایک ہفتے پہلے جو خط آیا تھا اس میں ان کے شدید بیمار ہونے کا بتایا گیا تھا، مگر وہ خط بہت دیر سے ملا تھا، بھیجے جانے کے مہینہ بھر بعد۔ ابو نے فوراً انڈیا جانے کی ٹھان لی تھی، تیاری بھی شروع کردی تھی اور آج یہ خط آ گیا۔ میں نے پہلی بار ابو کو روتے دیکھا۔ خط ہاتھ میں پکڑے دیر تک روتے رہے۔ کہہ رہے تھے بھیا نے کتنی بار بلایا کہ آکر چہرہ دکھا جاؤ مگر میں نہ جاسکا۔ ابو سرکاری نوکری کی وجہ سے جا ہی نہیں سکتے تھے، اب ریٹائر ہوئے ہیں تو جا سکتے ہیں۔ آج سارا گھر دکھی تھا۔ محلے والے تعزیت کے لیے آتے رہے۔ ہم بہن بھائی بس ابو کی وجہ سے غم زدہ تھے۔ بڑے ابو کو تو ہم نے کبھی دیکھا تک نہیں۔

ارے ہاں، باجی کا رشتہ آیا تھا، شاہ ولی اللہ اسکول میں ماسٹر عزیز شیخ صاحب ہیں نا ان کے بیٹے شکیل کا۔ شکیل بھائی بینک میں کیشیئر ہیں۔ پہلے یہ لوگ ہمارے ہی محلے میں رہتے تھے روز کا آناجانا تھا۔ اب سیٹیلائٹ ٹاؤن چلے گئے ہیں۔ مجھے یاد ہے امی کو جب بھی ضرورت پڑتی مجھے ان کے ہاں پیسے لینے بھیج دیتیں۔ انھوں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ امی ہمیشہ کہتی ہیں بڑے اچھے بہت شریف لوگ ہیں۔

مجھے تو جیسے ہی پتا چلا باجی کو چھیڑنا شروع کر دیا کہ باجی چلو تمھارا بینک میں کھاتا کھل گیا۔ امی نے سنا تو ہنسنے لگیں پھر بولیں، چل میں اپنی بیٹی کی شادی جولاہوں میں تھوڑی کروں گی۔ ابو نے سنا تو ”ہنہ سالے جولاہے“ کہہ کر بات ختم کردی۔ کہنے لگے ”یہاں تو اشراف اور اجلاف کا فرق ہی ختم ہوگیا ہے۔ اب نیچ ذات کے لوگ شرفاء کی لڑکیوں کے رشتے بھیجیں گے، حد ہوگئی۔“ میں نے امی سے پوچھا آپ تو کہہ رہی تھیں شکیل بھائی کے گھر والے شریف لوگ ہیں، اور ابو کہتے ہیں وہ اشراف نہیں، شریف الگ ہوتا ہے اور اشراف الگ؟ امی بولیں، ”شریف ہونا اور بات ہے، اونچ ذات نیچ ذات الگ مسئلہ۔“ میں چپ ہوگئی لیکن سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ اتنا سمجھ میں ضرور آ گیا کہ اگر سعید نے اپنے گھر والوں کو بھیجا تب بھی یہی ہوگا؟ سعید کے ابا فرید قریشی آموں کے بیوپاری ہیں مگر ذات کے تو قصائی ہیں نا۔ خیر جو ہوگا دیکھا جائے گا۔

پیر کو میں زہرہ باجی کے گھر جارہی تھی تو راستے میں سعید مل گیا۔ شکر ہے اس وقت گلی میں کوئی نہیں تھا۔ جلدی سے پاس آکر کہنے لگا کہاں جارہی ہو؟ میں نے بتایا تو بولا واپسی میں خط لیتی جانا میں لکھ کر انتظار کروں گا۔

زہرہ باجی باہر ہی نظر آ گئیں۔ وہ کہیں سے واپس اپنے گھر آ رہی تھیں۔ میں نے دور سے پہچان لیا ان کی بڑی سی کالی چادر کی وجہ سے، کیوں کہ پورے محلے میں یہ کالی بڑی سی چادر بس وہی اوڑھتی ہیں۔ باقی لڑکیاں اور عورتیں برقع پہنتی ہیں یا سرے سے پردہ نہیں کرتیں۔ زہرہ باجی ان کی بہنیں اور کونے والی جعفری خالہ کی بیٹیاں پہلے ایسی نہیں تھیں۔ زہرہ باجی تو آدھی آستین کی قمیصیں پہنتی تھیں۔ پھر جب ایران میں انقلاب آیا تو ان کے ابا عباس زیدی صاحب نے چھوٹی سی داڑھی رکھ لی اور گھر کی ساری عورتوں نے چادر اوڑھنا شروع کردی۔

کمرے میں خمینی صاحب کی یہ بڑی تصویر لگی ہے۔ پچھلی بار میں زہرہ باجی کے گھر آئی تو یہ تصویر نہیں تھی، کچھ دنوں پہلے ہی لگائی ہے شاید۔ ان کے ہاں کونڈے بڑے مزے کے ہوتے ہیں۔ میں تو جب ملتی ہوں پوچھتی ہوں زہرہ باجی کونڈے کب ہوں گے؟ اس دن بھی پوچھا تو کہنے لگیں پاگل ابھی تو رجب بہت دور ہے۔ میں اور زہرہ باجی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ وہ چائے بنانے گئیں تو میں نے میز پر پڑا ہوا رسالہ اٹھا لیا۔ رسالے میں ایران عراق جنگ میں مارے جانے والے ایرانی فوجیوں کی تصویریں تھیں۔

زہرہ باجی چائے لے کر آئیں تو میرے ہاتھ میں رسالہ دیکھ کر کہنے لگیں دیکھا صدام کتنا ظلم کر رہا ہے۔ اس کے پیچھے امریکا ہے وہی سب کروارہا ہے۔ میں نے پوچھا کون صدام تو بولیں ارے وہی․․․ یزید․․․ عراق کا حکم راں۔ تب مجھے یاد آیا کہ یہ نام ٹی وی اور ریڈیو پر سنا ہے۔ صدام کا ذکر ہوتا بھی کم ہے، ہاں خمینی کا ہوتا ہے۔ اس دن یاد نہیں ہم تانگے پر کہاں جا رہے تھے تو تانگے والا بھی ابو سے باتیں کرتے ہوئے کہہ رہا تھا، ”ابھی ادھر تو کوئی خمینی آوے اور سب کا صفایا کردیوے، تبھی سب ٹھیک ہوئے گا۔“

زہرہ باجی کے ہاں سے نکلی تو دیر ہوگئی تھی، سوچ رہی تھی سعید چلا نہ گیا ہو۔ دیکھا تو گلی کے کونے پر کھڑا تھا برا سا منہ بنائے۔ مجھے دیکھ کر تیزی سے آگے بڑھا اور خط مجھے دیتا ہوا نکل گیا۔ خط میں بہت سی باتیں تھیں ․․․وہ نہیں لکھ رہی میں، آخر میں لکھا تھا ”تنظیمی مصروفیات کی وجہ سے اب جلدی جلدی خط نہیں لکھ پاتا نہ جواب دے پاتا ہوں، میری سری دیوی! تم برا نہیں ماننا۔“ یہ تنظیمی مصروفیات کیا ہیں، پتا نہیں۔

اس کے سری دیوی کہنے پر میں شرما جاتی ہوں۔ دو مہینے پہلے بھائی جان وی سی آر لائے تھے، فلموں کے ساتھ گیت مالا بھی تھا، اس میں سری دیوی کا ڈانس دیکھ کر مجھے بہت شرم آئی۔ مگر سری دیوی، کم ازکم زینت امان کی طرح نہیں ․․․زینت امان تو․․․توبہ، سب کہتے ہیں اس کی فلمیں گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھی جاسکتیں، اسی لیے بھائی جان اس کی کوئی فلم نہیں لاتے۔

بھائی جان اور ابو آج کل سیاست پر بہت بات کرتے ہیں، کبھی کبھی امی بھی۔ کچھ دن پہلے بھائی جان کہہ رہے تھے ”جی ایم سید سندھو دیش بنانے میں کام یاب ہوگیا تو ہمارا بھی وہی حال ہوگا جو مشرقی پاکستان میں بہاریوں کا ہوا۔ ’یہ‘ تو چھوڑچھاڑ کر چلے جائیں گے۔“ پتا نہیں ”یہ“ کون؟ میرے اسکول کے راستے میں کئی جگہ نعرے لکھے ہیں ”تنجھو دیش منجھو دیش، سندھودیش سندھو دیش، سندھو دیش مقدر آ، جی ایم سید رہبرآ۔“ اس دن بھائی جان جی ایم سید کو برا بھلا کہہ رہے تھے، تو امی نے منع کیا تھا کہ بزرگوں کو اس طرح نہیں کہتے، بھائی جان چپ ہوگئے تھے۔

مسجد کے سامنے والے گھر میں عزیز صاحب جو رہتے ہیں وہ بھی بہاری ہیں۔ امی مجھے اور باجی کو لے کر کبھی کبھی عزیزصاحب کے گھر جاتی ہیں۔ ہر ہفتے ہی یہ ہوتا ہے، کبھی ہم محلے میں کسی کے جاکر گھنٹوں بیٹھے ہیں، باتیں ہو رہی ہیں، کبھی محلے کے کسی اور گھر سے عورتیں لڑکیاں ہمارے گھر میں اسی طرح آئی بیٹھی ہیں۔ میں عزیزصاحب کی بیٹی کلثوم کے ساتھ باورچی خانے میں تھی کانوں میں امی اور ذرینہ کی اماں کی باتوں کی آوازیں آ رہی تھیں، وہ کچھ بتارہی تھیں کہ ”ہم کیمپ میں تھے تو او آکر کہنے لگے اوئے یہاں عورتیں ہیں“ امی نے پوچھا کون آکر کہنے لگے مکتی باہنی والے؟

انھوں نے جواب دیا ”ارے نہیں ․․․ یہی ہمرے اپنے ․․․“ اس سے آگے انھوں نے جو لفظ بولا تھا وہ بولتے ہوئے ان کی آواز اتنی دھیمی ہوگئی تھی کہ میں سن نہیں پائی کہ انھوں نے کیا کہا۔ وہی باتیں تو سننے کی ہوتی ہیں جو آہستہ سے کی جائیں۔ گھر آکر میں نے امی سے پوچھا کہ کیمپ والی بات کیا تھی، تو امی نے ارے کچھ نہیں ”تمھارے تو بڑوں کی باتوں میں کان لگے رہتے ہیں“ کہہ کر مجھے ڈانٹ دیا۔ عزیز صاحب کے بڑے بھائی بھی ان کے ساتھ رہتے ہیں۔

سب انھیں ببوا پگلے کہتے ہیں۔ ببوا پگلے میلے کچیلے کپڑے پہنے گھر کے باہر بیٹھے رہے ہیں، جو بھی گزرتا ہے اس سے پوچھتے ہیں ”ہماری منیا کو دیکھے ہو؟“ نہ جانے کون تھی ان کی منی کہاں گئی؟ بس اتنا کہہ کر چپ ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے منہ سے کبھی کسی نے کچھ نہیں سنا۔ سب ان لوگوں کو بنگالی کہتے ہیں۔ ان کے ہاں سے عید پر سویاں آئیں تو میں نے امی کو بتایا تھا کہ عزیز صاحب ہیں نا بنگالی ان کے گھر سے آئی ہیں۔

ابو سن کر کہنے لگے ”بتاؤ، بنگالیوں سے مار کر کھاکر آئے اور یہاں بنگالی کہلائے، بنگالی ہوہی جاتے تو یہ نوبت نہ آتی۔“ ابو کی بات سن کر بھائی جان عجیب سے لہجے میں بولے ”کتنا مزا آئے گا جب ہم بھی سندھو دیش میں لگے کیمپ سے نکل کر دنیا کے جانے کس شہر میں بیٹھے ہوں گے اور وہاں لوگ ہمیں سندھی کہہ رہے ہوں گے۔“ امی نے اللہ نہ کرے کہہ کر بھائی جان کے سر پر چپت لگائی تھی۔

اچھا اب بس، امی آواز لگارہی ہیں، گھڑونچی پر رنگ کرنا ہے۔ مجھے رنگ کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ میں تو گھڑونچی پر رکھے مٹکوں کو بھی رنگنا چاہتی ہوں مگر امی منع کردیتی ہیں۔ پچھلے سال ڈرائنگ روم کی کھڑکی میں نئے شیشے لگنا تھے تو میں نے ابو سے ضد کرکے اپنے ہاتھوں سے ان شیشوں کو رنگا تھا، آدھے لال، آدھے نیلے۔ پلنگ پر بیٹھ کر رنگ رہی تھی تو بان بھی لال نیلا ہوگیا تھا، امی سے بہت ڈانٹ پڑی تھی، کوئی آدھا گھنٹے تک غسل خانے میں ہاتھ دھوئے تو رنگ چھوٹا تھا۔

10مارچ 1986

اس سیریز کے دیگر حصےنوشابہ کی ڈائری: اب راج کرے گا مہاجرمس مارگریٹ نعت پڑھتیں تو لگتا پکی مسلمان ہیں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments