بیس برس سے طویل دو برس


گزرے دو برس بیس برس سے زیادہ طویل ثابت ہوئے، ہر روز امید جگاتی آفتاب کی پہلی کرن نمودار ہوتی ہے اور پھر دن خلفشار، غیر سنجیدہ اقدامات اور نا اہلی کے نئے مناظر لیے اختتام پذیر ہوتا ہے۔ احساس قوی ہونے لگتا ہے کہ ملک پر چھانٹ کر حکمران گروہ مسلط کرنے والے ہاتھ ملک و قوم کے مفاد میں دلچسپی رکھنے کے بجائے صرف اپنے مفادات کی حفاظت اور ملکی وسائل پر گرفت مضبوط کرنے میں مصروف ہیں، انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ ملک معاشی اور قدرتی آفات میں گھر چکا ہے، بے روزگاری کا عفریت خوفناک حدوں کو چھو رہا ہے، تعلیم اور صحت کے مسائل گمبھیر ہوتے چلے جا رہے ہیں، دن دونی رات چوگنی ہوتی مہنگائی عوام کی کمر توڑے ڈال رہی ہے، اس کے باوجود سلیکٹرز کی تمام تر توجہ اپنے مفادات پر مرکوز ہے، موجودہ حکومت کی سلیکشن بھی ان مفادات کے تحفظ کا تسلسل ہے۔ گزرتا وقت وضاحت سے بتا رہا ہے کہ ملک اور عوام کے مفاد سے زیادہ ملکی وسائل پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا اور وسائل کا دھارا اپنی جانب رکھنا مقدم ہے، افسوس کہ یہ وہ ترجیح ہے جس کے نتیجے میں ملک دو لخت ہوا، بارود کی بے تحاشا قوت سے آواز حق کو مسل پھینکنے کا جو عمل 1956 میں کھل کر نظر آنے لگا تھا محض پندرہ برس بعد 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کی صورت ظاہر ہوچکا ہے۔

وسائل پر کل اختیار کے حصول کے لیے ہر طرح کے جبر کا عملی مظاہرہ دیکھ کر ہر ذی شعور ذہن آج تک خود سے یہ سوال ضرور کرتا ہے کہ انڈیا میں مسلم بنگال تو انگریز حاکمیت کے خلاف ہمیشہ سینہ سپر رہا تھا، آل انڈیا مسلم لیگ کے 1906 میں قیام سے کہیں پہلے معروف اسکالر مولوی کرامت علی کے صاحبزادے مولانا حافظ احمد اور مولوی کرامت کے بھتیجے عبدل اول انگریز راج کے خلاف بنگال کا مسلمان اپنی صف بندی شروع کر چکا تھا، کلکتہ کے بیرسٹر سید امیر علی بھی مولوی کرامت علی کے شاگرد خاص تھے، 1873 میں لندن بار سے خطاب کرنے والے پہلے مسلمان، کلکتہ ہائی کورٹ میں پریکٹس کا آغاز کرنے والے پہلے مسلمان اور پہلے مسلمان جج بھی سید امیر علی تھے، سید امیر علی سنہ 1877 میں نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھ چکے تھے، سلطنت عثمانیہ اور خلافت تحریک کا گہرا اثر لیے سید امیر علی قانون پر تین اور اسلام پر دو کتابوں کی تصنیف کا اہم کام سرانجام دے چکے تھے، ایسی تصانیف جنہیں آج بھی ریفرنس کے طور پر اور یونیورسٹیوں کے نصاب کا حصہ رکھا جاتا ہے، مسلم امہ کے لیے سرزمین بنگال سے ان کی خدمات کا ذکر ہمارے ہاں دیگر تاریخی حقائق کی طرح بہت کم ملتا ہے۔

syed ameer ali

سنہ 1831 میں میر نثار علی (تیتو میر) انگریز کے خلاف درمیانہ طبقے اور نچلے طبقے کے حقوق اور انگریز سے آزادی کے حصول کی جنگ میں لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر چکے تھے، نواب عبدالطیف خان سنہ 1863 میں کلکتہ میں محمڈن لٹریری سوسائٹی کی بنیاد رکھ کر انگریز کی غلامی سے آزادی کی مانگ شروع کر چکے تھے، بنگال خصوصاً مشرقی بنگال کی مسلمان قیادت تو مسلم لیگ کے قیام سے کہیں پہلے انگریز کے خلاف صف آراء ہو کر حرف حق بلند کر چکی تھی، بنگال کے مسلمان کا مسلمانان ہند کے لیے خدمات کا جتنا ذکر کیا جائے کم ہے، بنگال کے مسلمان کی ہندو مہاجن کے کاروباری استعمار کے خلاف باقاعدہ جدوجہد کی نظیر ملنا مشکل ہے، مسلم لیگ کے وجود میں آنے سے کہیں پہلے متعدد بار انگریز تسلط کو سڑکوں اور گلیوں کوچوں میں بنگال کے مسلمان نے للکارا تھا اور مسلم لیگ کے قیام کے بعد اپنا سب کچھ مسلم لیگ پر وار دیا تھا، اس کے باوجود کہ مسلم لیگ اور اس کی قیادت بنگال کے مسلمانوں کو اپنے رویئے سے دوری کا احساس دلاتی رہی بنگالی مسلمان آل انڈیا مسلم لیگ پر اپنی جان نچھاور کرنے کے لیے ہر وقت تیار نظر آیا۔

قیام پاکستان سے لے کر 1971 تک مغربی پاکستان کی ہر ممکن دھتکار اور نفرت انگیز رویئے کے باوجود مشرقی پاکستان کی بنگالی اکثریت پاکستان پر فریفتہ رہی، ان کی مرضی میں پاکستان سے علیحدگی کا معمولی سا خیال بھی ہوتا تو مشرقی پاکستان کی بھاری اکثریت انتخابات میں حصہ لینے کے بجائے علیحدگی کا مطالبہ کرتی، اسلامی مملکت کو یکجا رکھنے کی خاطر مشرقی پاکستان کی بھاری اکثریت آخر لمحے تک انتظار کرتے رہی جب تک ان کی صدیوں پر محیط جدوجہد کے نتیجے میں اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست نے اپنے مسلمان بھائیوں کی اکثریت کو ایمانداری سے اقتدار حوالے کرنے سے مکمل طور پر انکار نہ کر دیا، بات صرف اقتدار کی منتقلی سے انکار اور مشرقی بازو کو علیحدگی پر مجبور کردینے تک رہتا تو بھی صبر کیا جا سکتا تھا لیکن صد افسوس کہ اقتدار کی منتقلی کے بجائے بندوق کی گولی، توپوں کی گھن گرج اور لڑاکا طیاروں کی بمباری نے ساری محبت، سارے خلوص اور سارے مذہبی احترام کو مٹی میں ملادیا۔

مشرقی پاکستان کی ہر ممکن کوشش اور ہر جتن کے باوجود نہ صرف مشرقی پاکستان کو علیحدگی پر مجبور کیا بلکہ اس سے کہیں زیادہ المناک، دکھ اور رہتی دنیا تک رنج کا باعث یہ حقیقت رہے گی کہ مشرقی پاکستان اور اس کی اکثریت کو اپنی قوت اور مسلمان قوم سمجھنے کے بجائے مغربی پاکستان پر بوجھ سمجھ لیا گیا، بجائے ملک کے اس مشرقی بازو کو مہذب طرح سے اور خوش اسلوبی سے علیحدہ کر دینے کے، بندوق اور بارود کے استعمال ہی کو ضروری کیوں سمجھا گیا؟ کیوں لاکھوں انسانوں کا لہو بہایا گیا؟ کیوں کسی ایک شخص کی تلاش میں پورے پورے محلے توپوں کی گولہ باری سے زمین بوس کیے گئے؟ ان دوستوں، ساتھیوں اور بھائیوں کے گھروں میں گھس کر خواتین کی عصمتیں تار تار کیوں کی گئیں جنہوں نے ہمارے لیے پاکستان کے قیام میں ہر اول دستے کا فرض نبھایا تھا۔

لیکن افسوس کے طالع آزماؤں کا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے باوجود عوامی اقتدار پر شب خون جاری رکھنا، تذویراتی گہرائی کے نام پر لوگوں کو استعمال کرنا اور استعمال کر کے ایک طرف پھینک دینا آج تک جاری ہے، ملکی معاملات میں ایک طالع آزما کے دور میں مذہب کو بنیاد بنا کر شروع کی گئی ناکام منصوبہ بندی کے ہولناک نتائج سب دیکھ رہے ہیں لیکن افسوس نہ تو کسی کو غلط منصوبہ بندی کے خلاف آواز اٹھانے کی اجازت ہے نہ اس کی ناکامی پر پوچھ گچھ کی۔

صبح و شام اسلام کا قلعہ ہونے کے دعویدار عوام کے بجائے بندوق اور بارود کو طاقت کا سرچشمہ سمجھے بیٹھے ہیں، افغانستان میں تذویراتی گہرائی کے نام پر اسلام کو استعمال کرنے والے اگر اسلام کے حقیقی شیدائی ہوتے تو مشرقی پاکستان کی مسلمان اکثریت کو اقتدار منتقل کر کے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش نہ بننے دیتے، بنگالی مسلمان کے خون سے دامن نہ رنگتے، ان تمام حقائق کے سامنے ہوتے ہوئے بھی مخصوص مفادات کی حفاظت میں حاشیہ برداروں کی شمولیت حیران کن ہے۔

ملک میں جاری دوغلہ اور منافقانہ کھیل درحقیقت مخصوص مفاد رکھنے والی اس طاقتور اشرافیہ کا ہے جو بندوق اور بارود سے لیس ہے جس سے شہری خود کو محفوظ سمجھنے کے بجائے خوف محسوس کرتے ہیں۔ اپنے مخصوص مفادات کا نگہبان یہ گروہ ملکی وسائل پر مکمل کنٹرول جاری رکھنا چاہتا ہے، اسے 18 ویں آئینی ترمیم اور قومی مالیاتی کمیشن اپنے مفاد کی راہ کا پتھر نظر آتے ہیں، بظاہر خود کو انتہائی نظم و ضبط سے آراستہ ظاہر کرنے والا یہ گروہ ملک میں نظم و ضبط سمیت انصاف اور قانون کی بے توقیری کی سب سے بڑی وجہ بن چکا ہے، اپنے کل اختیار کی خاطر آئین اور قانون کو پاؤں کے نیچے مسل دینا روایت ہے، مخصوص مفادات اور اختیار کی خاطر ملک اور قوم کو ایک سے زائد بار شکست و ریخت سے دو چار کرتے رہنے والا یہ مخصوص مفاد پرست گروہ حق و انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، یہ گروہ جس مکمل کنٹرول کی خواہش رکھتا ہے اس کنٹرول کی خاطر کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے، چاہے ملک کی بڑھتی آبادی اور بیروزگاری میں اضافہ عام شہری کو فاقہ کشی پر مجبور کیوں نہ کردے۔

جب اذیت کی انتہا ہو جائے تو دو برس بھی بیس برس محسوس ہونے لگتے ہیں۔ لیکن وقت کو روکنا کسی کے بس میں نہیں، جو جب بھی وقت سے ٹکرایا پاش پاش ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments