امرناتھ یاترا: انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے رہنے والے اس بار خوفزدہ کیوں ہیں؟


امرناتھ یاترا

ہر سال تقریباً تین لاکھ ہندو یاتری امرناتھ گھپا میں شِو لِنگ کے درشن کرتے ہیں

کشمیر کے ہمالیائی سلسلہ میں واقع ہندوؤں کے بگھوان شِو سے منسوب بابا امرناتھ گُپھا یا غار کی یاترا گذشتہ 30 سالوں سے کڑے سکیورٹی حصار میں ہو رہی ہے۔ اس بار بھی فوج کا کہنا ہے کہ یاتریوں کو دہشت گردوں کے حملوں کا خطرہ ہے لہذا سکیورٹی میں اضافہ کیا گیا ہے۔

لیکن منگل سے شروع ہونے والی امرناتھ یاترا اس سال خوف کی علامت بن چکی ہے کیونکہ ماہرین کی طرف سے یاترا کو معطل کرنے کی رائے کے باوجود 21 جولائی سے پانچ اگست تک تقریباً آٹھ ہزار ہندو عقیدت مند زائرین امرناتھ گپھا میں بگھوان شوِ سے منسوب برف کے شِولنگ کا درشن کریں گے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ جون میں ہی کشمیر کے امرناتھ شرائن بورڈ نے ماہرین کی رائے لینے کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ امسال یاترا کو منسوخ کرنا ناگزیر ہے تاہم حکومت ہند نے اس سلسلے میں مداخلت کر کے فیصلہ مؤخر کیا اور بالآخر اس ماہ کے اوائل میں یاترا کی مدت اور یاتریوں کی تعداد کو محدود کر کے یاترا کو جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا۔

یہ سب ایسے وقت ہو رہا ہے جب کشمیر میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی روزانہ اوسط درجن سے زیادہ ہے اور ہر روز 500 سے زیادہ لوگ اس وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ پولیس، فوج اور نیم فوجی اہلکاروں کی بڑی تعداد ان افراد میں شامل ہیں جو اب تک کوِوڈ 19 میں مبتلا ہوچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

دنیا کی سب سے بڑی رتھ یاترا کی کہانی کیا ہے؟

لاک ڈاؤن کے باعث انڈیا کے ’امیر ترین‘ مندر بھی مالی مشکلات کا شکار

کشمیر: امرناتھ یاترا پر شدت پسند حملے میں سات ہلاک

جموں کشمیر کے چیف سیکریٹری بی وی آر سبرامنیم کہتے ہیں: ’کوِوڈ 19 کے خطرات کو دیکھتے ہوئے سخت ترین قواعد اور ضوابط کے تحت یاترا ہو گی۔ روزانہ صرف پانچ سو یاتریوں کو درشن کی اجازت ہو گی اور یاترا دو ماہ کی بجائے صرف پندرہ دن پر مشتمل ہو گی۔ کشمیر آنے والے ہر یاتری کا ٹیسٹ کیا جائے گا اور اُنھیں لازمی قرنطینہ کے مرحلے سے گزرنا ہو گا۔‘

واضح رہے کہ ہر سال تقریباً تین لاکھ ہندو یاتری امرناتھ گپھا میں شِو لِنگ کے درشن کرتے ہیں۔

گذشتہ برس پانچ اگست کو کشمیر کی نیم خودمختاری کے خاتمے کا اعلان کرنے سے دو روز قبل فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ شمالی کشمیر کے کیرن سیکٹر میں ہتھیار اور گولی بارود کی بڑی مقدار برآمد ہوئی ہے جس سے اندازہ ہے کہ یاتریوں پر دہشت گردانہ حملہ ہوسکتا ہے۔

یاترا ایک ہفتے سے جاری تھی لیکن فوجی انکشاف کے بعد یاترا کو معطل کیا گیا اور یاتریوں اور سیاحوں سے کہا گیا کہ وہ فوراً وادی چھوڑ کر چلے جائیں۔

اس بار بھی فوج کو شبہ ہے کہ مسلح عسکریت پسند یاترا کو ہدف بنائیں گے۔

جنوبی کشمیر کے کولگام ضلع میں میڈیا سے بات چیت کے دوران فوج کے برگیڈئیر وی ایس ٹھاکر نے دعویٰ کیا کہ جنوبی کشمیر میں فی الوقت 100 دہشتگرد سرگرم ہیں جن میں بیس سے زیادہ پاکستانی ہیں۔

’ہمیں خفیہ اطلاع ملی ہے کہ دہشت گرد جموں سے سرینگر آنے والی شاہراہ پر یاتریوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔‘

تاہم رواں سال فوج کے اس دعوے کے بعد حکومت نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا بلکہ پوری انتظامیہ کو متحرک کر کے پولیس، واٹر ورکس، فائر سروس، صحت و طبی خدمات اور تعمیرات عامہ سمیت 16 سرکاری محکمے یاترا کی تیاری میں لگا دیے گئے ہیں۔

بابا امرناتھ سے منسوب اس گپھا کا راستہ جنوبی کشمیر میں صحت افزا مقام پہلگام سے اور شمال مغرب میں سونہ مرگ سے ہو کر گرزتا ہے۔ جنوب میں چندن واڑی اور سونہ مرگ میں بال تل سے کئی کلومیٹر کا پہاڑی سفر یاتریوں کو پیدل طے کرنا ہوتا ہے۔ رواں سال بال تل سے دُمیل تک کے راستے کو جنگی بنیادوں پر پختہ کیا گیا اور خطرناک مقامات پر حفاظتی ریلنگ نصب کیے گئے۔

عوامی حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ یاترا کی وجہ سے کورونا وائرس کی صورتحال مزید ابتر ہو سکتی ہے۔

صحافی اور تجزیہ نگار ریاض ملک کہتے ہیں ’یہی ضد حکومت ہند نے جنوبی ہند میں تیروپتی مندر کی یاترا کے بارے میں کی۔ وہاں ایک درجن پروہِتوں سمیت مندر انتظامیہ کے 140 اہلکاروں کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔ پورے ملک سے یاتری یہاں آئیں گے، یہاں صرف کشمیری نہیں لاکھوں انڈین افوج ہیں، محکموں کے افسر یاترا انتظامیہ سے جُڑے ہیں، یہ تو بہت بڑا خطرہ ہے جسے حکومت نے غیر ضروری طور پر مول لیا ہے۔‘

مصنف اور کالم نگار پی جی رسول کا کہنا ہے کہ چاردھام کی یاترا پر سخت ترین پابندیاں ہیں لیکن کشمیر میں یاتریوں کو صرف ٹیسٹ کرانا ہوگا۔

’اُتراکھنڈ کی حکومت نے کہا ہے کہ ہندوؤں کے چار مقدس مقامات کیدار ناتھ، بدری ناتھ، گنگوتری اور یمنوتری کی یاترا کے لیے صرف اُن کو ای پاس ملے گا جو اُتراکھنڈ کے باشندے ہیں، اس پاس کی مدت صرف دو دن ہو گی اور یاترا کے دوران کسی دوسری جگہ جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔‘

پی جی رسول کہتے ہیں کہ یاتری یہاں پہنچتے ہی ڈل جھیل کی سیر کرتے ہیں، ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں، کشمیری مصنوعات کی شاپنگ کرتے ہیں۔ یہ سب عوامل حکومت کے پروٹوکال کا حصہ ہی نہیں ہیں۔ حکومت کشمیریوں کو ہی نہیں بلکہ یاتریوں کو بھی خطرے میں ڈال رہی ہے۔‘

جموں میں مقیم سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار تَرُون اُپادھیائے کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کی خوفناک صورتحال میں یاترا کی اجازت دے کر کشمیریوں کو ہی نہیں جموں کے باشندوں کو بھی خطرات سے دوچار کردیا گیا ہے۔

’بُنیادی بیس کیمپ تو جموں میں ہی ہے۔ پورے ملک سے یاتری آ کر یہیں جمع ہو جاتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ حکومت کے اس فیصلے پر ہنسا جائے یا رویا جائے۔ یہاں تالاب تلو کا یاتری بھون بیس کیمپ ہے اور کل ہی حکومت نے تالاب تلو علاقے کو ریڈ زون قرار دیا ہے۔ کیا حکومت یاتریوں کو پورے ملک سے لا کر ریڈزون میں جمع کررہی ہے؟‘

مسٹر اُپادھیائے کہتے ہیں کہ حساس نوعیت کے فیصلے بھی ضد اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔

’یاترا ایک مقدس عمل ہے اور مذہبی عقیدت اس کی بنیاد ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ حکومت دکھانا چاہتی ہے کہ دیکھو جی ہم نے ایسے حالات میں ہندودھرم کی علامت کا مظاہرہ کیا۔ یہ ایک احمقانہ حرکت ہے۔‘

واضح رہے حکومت نے سرکاری ٹیلی ویژن کو حکم دیا ہے کہ وہ گپھا میں ہونے والی افتتاحی پوجا یعنی بابا امرناتھ کی آرتی کو برارہ راست ملک بھر میں نشر کرے۔

امرناتھ یاترا

انڈیا میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 11 لاکھ سے بڑھ چکی ہے جبکہ روزانہ پانچ سے چھ سو افراد کی موت ہوتی ہے۔ کشمیر میں بھی صرف ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں پانچ ہزارسے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں اور سینکڑوں افراد کی موت ہو چکی ہے۔

مبصرین کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں جب حج اور عمرہ بھی معطل ہے حکومت نے امرناتھ یاترا کی اجازت دے کر دوہرے معیار کا مظاہرہ کیا ہے۔

تجزیہ نگار اعجاز ایوب کہتے ہیں: ’دلی کے تبلیغی مرکز پر طوفان برپا کیا گیا حالانکہ تبلیغی کارکن ایک ہی مرکز میں تھے، کوئی سفری عمل نہیں تھا، یہ تو پورے ملک سے یاتریوں کو یہاں لانے کا معاملہ ہے، اس میں حکومت کو زیادہ حساس ہونا چاہیے تھا۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp