ایک غیرت مند بھائی کا اپنی بہن پر مضمون


اول تو میری کوئی بہن نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو کسی کو اس سلسلے میں سوچنے کی بھی جرات نہیں ہونی چاہیے، کوئی سوال یا مضمون تو بہت دور کی بات ہے۔

ہاں چلو اگر بہن ہے تو میں خفیہ طور پر یہ مضمون لکھ دیتا ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یونیورسٹی والے بہن پر مضمون نہ لکھنے کی وجہ سے مجھے فیل کر دیں۔ اگر میں فیل ہو گیا تو میری شادی لیٹ ہو جائے گی۔ میری شادی لیٹ ہونے کہ وجہ سے پروین کی شادی کہیں اور کر دی جائے گی۔ اگر ایسا ہو گیا تو میں ساری زندگی پچھتاتا رہوں گا کیونکہ پروین کی فزیک ہمارے محلے میں رہنے والی تمام لڑکیوں کی نسبت زیادہ خوبصورت ہے۔

اور ہاں میری بہن کی کوئی فزیک نہیں ہے۔ وہ تو بس ایسے ہی ہے کہ جیسے گاجر مولی پر کان اور ناک لگا دیے گئے ہوں۔ اس گاجر مولی کے لئے ہم نے ایک ٹکوزی بھی بنوا دی ہے۔ اگر کبھی گھر سے باہر نکلنا پڑ جائے تو اس ٹکوزی سے ڈھک کر لے جاتے ہیں۔ اس ٹکوزی کا مقصد صرف چھپانا یعنی پردہ ہے نہ کہ حرارت کو محفوظ کرنا ہے۔ یہ وضاحت اس لئے کر دی ہے کہ بے غیرت ٹولہ اس سے بھی کوئی غلط مطلب نہ نکالنا شروع کر دے۔

میری بہن گھر میں رہتی ہے اور گھر کے سارے کام کرتی ہے۔ صفائی کرنا، کھانا بنانا، برتن دھونا، کپڑے دھونا اور استری کرنا۔ ان کاموں سے فارغ ہوتی ہے تو تلاوت کرتی ہے۔ ٹی وی اور ڈرامے دیکھنے کی اس کو اجازت نہیں ہے۔ ایسی چیزوں سے لڑکیوں کا کردار خراب ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔ فلم کے نام سے وہ واقف نہیں ہے۔ گلی میں کھیلنا تو دور کی بات جھانکنے کا بھی اس نے کبھی سوچا نہیں۔ ابا جان نے اس کی شادی ہمارے چچا کے بیٹے کے ساتھ طے کر دی ہے۔ چچا جان تو ابھی بھی شادی کا کہہ رہے تھے مگر ابا نے کہا دو سال اور انتظار کر لو تاکہ وہ تیرہ سال کی ہو جائے۔ یہ اس لے بھی اہم ہے کہ دو سال بعد میری اس سے چھوٹی بہن دس سال کی ہو جائے گی اور گھر کا کام کاج سنبھال لے گی۔

میری بہن کی تعلیم پچھلے سال مکمل ہو گئی تھی۔ اس نے پانچویں کا امتحان دے دیا تھا۔ پاس یا فیل ہونا کوئی خاص معنی نہیں رکھتا اس لئے ہم رزلٹ کا پتا کرنے ہی نہیں گئے۔

میری بہن کی صحت ٹھیک ہے۔ میں نے آج تک اسے کبھی بیمار دیکھا نہ سنا۔ اسے گھر کے کام کاج کا بہت شوق ہے اس لئے کبھی چھٹی نہیں کرتی۔ اس طرح سے بیماری میں بھی کام کی چھٹی نہ ملنے کہ وجہ سے اسے بیمار رہنے کی لت نہیں پڑی۔ بیماری میں عورتوں کا سر باندھ کر پڑ جانا مردوں کو اچھا اور مناسب نہیں لگتا۔ اور ہمارے گھر کی عورتیں صرف وہ کرتی ہیں جو ہمیں اچھا اور مناسب لگے۔

جائیداد کا سوال کرنا نہایت نا مناسب ہے۔ جائیداد اچھی عوتوں کے کام یا دلچسپی کی چیز نہیں ہے۔ ان کا نان نفقہ مردوں کے ذمے محفوظ ہوتا ہے تو پھر جائیداد کے جھمیلے میں پڑے کی ضررت ہی کیا ہے۔ ایسے میں کوئی بھی اچھی عورت اپنے بھائیوں سے جائیداد چھین کر کسی اور کو دینے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ ہاں ہم خود کوشش کریں گے کہ اس کو جہیز ٹھیک ٹھاک دے دیں تاکہ اس کا شرعی حق ادا ہو جائے۔

ہماری بہن کو وہی پسند ہے جو ہم اس کے لئے پسند کرتے ہیں۔ ایک مولی گاجر کی کوئی پسند یا ناپسند نہیں ہوتی۔ ایک اچھی لڑکی کی طرح اس نے کبھی بھی ہم سے اپنی کسی پسند کا ذکر نہیں کیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی اس کے پسند کرتے ہیں اس میں اسے کوئی اعترض نہیں ہے۔ سب سکون ہے۔

یہ سارا سکون ہمارے گھر کے پرورش کے طریقہ کار کی وجہ سے ہے۔ پرورش کا یہ طریقہ میری بہن کے لئے بہت مفید ہے۔ اس کو تعلیم سے دور رکھنا، اس کا پسند نا پسند کے شیطانی چونچلوں میں نہ پڑنا، اس کو شدید پردے کی عادت ڈالنا اور تیرہ سال کی عمر میں اس کی شادی کر دینا اس کی جان اور ہمارے مال، آرام اور غیرت کی حفاظت کے لئے بہت ضروری ہے۔ اگر وہ ان چیزوں پر قائم رہی تو وہ اپنی طبعی زندگی جی سکے گی اور اس کے گھر کے مرد غیرت کے نام پر قتل کے نتیجے میں ہونے والی قید و بند کی مصیبتوں سے آزاد رہیں گے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments