روس رپورٹ: ’امریکہ سے دوستی کی وجہ سے برطانیہ روس کا اولین ہدف‘


President Putin

برطانیہ کے ممبران پارلیمنٹ کے ایک گروپ نے کہا ہے کہ برطانیہ کی حکومت نے بریگزٹ ریفرنڈم میں روس کی ممکنہ مداخلت کے بارے میں تحقیقات کرانے سے جان بوجھ کر گریز کیا۔

برطانیہ کی انٹیلیجنس اور سکیورٹی کمیٹی (آئی ایس سی) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے روس کا اولین ہدف ہے۔

آئی ایس سی رپورٹ میں جس کا لمبے عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا، حکومت اور انٹیلیجنس کے اداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ روسی مداخلت کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اقدامات کریں۔

روس کی وزارت خارجہ نے آئی ایس سی کی رپورٹ کو ‘روسوفوبیا’ کہہ کر مسترد کر دیا ہے۔

برطانیہ کی حکومت نے کمیٹی کی جانب سے بریگزٹ ریفرنڈم کے موقع پر روس کی ممکنہ مداخلت کی تحقیقات کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔ حکومت نے کہا کہ اس کے پاس کامیابی سے مداخلت کی کوئی شہادت موجود نہیں ہے۔

ڈاؤننگ سٹریٹ نے اس الزام کی تردید کی ہے کہ وہ روسی خطرے کو بھانپ نہیں سکے تھے۔

آئی ایس سی رپورٹ میں کئی موضوعات جن میں غلط معلومات کی تشہیر، سائبر ہتھکنڈے اور برطانیہ میں مقیم روسی باشندوں پر غور کے بعد کہا گیا ہے کہ برطانیہ روس کے اولین اہداف میں سے ایک ہے۔

رپورٹ کے زیادہ حساس حصوں کو جاری نہیں کیا گیا ہے کیونکہ روس ان معلومات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

روس نے انتخابات میں مداخلت کی تھی، یہ بات یقینی ہے: برطانوی وزیر خارجہ

’امریکی فوجیوں کی ہلاکت پر روسی انعام‘، کہانی ہے کیا؟

انڈیا، چین کشیدگی میں روس کس کے ساتھ کھڑا ہوگا؟

روس کا صدارتی ریفرنڈم: پوتن کا ’تاحیات صدر بننے کا منصوبہ‘

برطانیہ کی انٹیلیجنس اور سکیورٹی کمیٹی (آئی ایس سی)

برطانیہ کی انٹیلیجنس اور سکیورٹی کمیٹی (آئی ایس سی) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے روس کا اولین ہدف ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب سیاسی معاملات میں روس کی مداخلت کو روکنے کا وقت آتا ہے تو برطانوی ادارے مداخلت ہونے کے بعد اس سے نمٹنے کے لیے متحرک ہوتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانوی حکومت نے یورپی یونین سے علیحدگی کے بارے میں ہونے والے ریفرنڈم میں روسی مداخلت کے بارے میں جانچنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی بلکہ اس سے بچنے کی باقاعدہ کوشش کی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس رپورٹ کو شائع کرنے میں تعطل کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔

رپورٹ کے اجرا پر ہونے والی پریس کانفرنس میں آئی ایس سی کے ایک ممبر کیون جونز نے وزیر اعظم کو رپورٹ شائع کرنے کی اجازت نہ دینے پر ہدفِ تنقید بنایا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ انتخابات سے قریب برطانیہ میں غلط معلومات کو پھیلانے کا ایک واضح ہدف تھا لیکن کوئی حکومتی ادارہ اس سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں تھا۔

آئی ایس سی کے ممبر سٹیورٹ ہوزی نے کہا کہ حکومت میں کوئی بھی روس کی مداخلت کو روکنے کے لیے تیار نہیں ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ کیا روس نے 2016 کے ریفرنڈم میں مداخلت کی تھی یا نہیں ‘کیونکہ کوئی جاننا ہی نہیں چاہتا۔‘

برطانیہ کا یہ قدم امریکہ کے ردعمل کے بالکل برعکس ہے جو اس نے 2016 کے صدارتی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت کے بعد ظاہر کیا تھا۔

سٹیورٹ روزی نے کہا کہ یورپی یونین کو چھوڑنے کے حوالے سے ہونے والے ریفرنڈم میں روسی مداخلت کو جاننے کی کوشش کی جانی چاہیے تھی کیونکہ روس کی مداخلت یقیناً ہوئی ہوگی اور عوام کو اس بارے میں بتایا جانا چاہیے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے باوثوق تبصرے موجود ہیں کہ روس نے 2014 میں سکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی کے حوالے سے ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔

برطانوی امرا کا روسی تعلق

رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ برطانیہ کی تمام حکومتیں روسی امرا کی دولت کی وجہ سے انھیں برطانیہ میں خوش آمدید کہتی رہی ہیں۔

کمیٹی نے کہا کہ کسی حکومت نے ان روسی امرا جن کے صدر پوتن سے قریبی مراسم تھے، سے نہیں پوچھا کہ ان کے پاس دولت کیسے آئی ہے اور حکومتیں انھیں انویسٹمٹ ویزہ جاری کرتی رہی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر پوتن سے قریبی مراسم رکھنے والے کئی روسی امرا اپنی دولت کے بل بوتے پر برطانوی کاروبار اور سماجی ڈھانچے سے جڑ چکے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انھیں برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز اور روسی امرا کے رابطوں کے حوالے سے خدشات ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہاؤس آف لاڈز کے کئی ممبران کے روس میں کاروباری مفادات ہیں اور وہ ایسی کمپنیوں سے جڑے ہوئے ہیں جن کا روسی ریاست سے براہ راست تعلق ہے۔

کمیٹی نے کہا ‘ان تعلقات کو غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ روسی ریاست ان سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔‘

تجزیہ: گورڈن کوریرا، بی بی سی کے سکیورٹی امور کے نامہ نگار

رپورٹ میں وہ نہیں ہے جس کی توقع کی جا رہی تھی لیکن پھر بھی حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔

لوگوں کو توقع تھی کہ آئی ایس سی یہ جاننے کی کوشش کرے گی کہ کیا بریگزٹ جیسے سیاسی معاملات میں روس مداخلت ہوئی یا نہیں۔

رپورٹ کہتی ہے کہ اصل مسئلہ حکومت ہے اور خفیہ ایجنسیوں نے اس معاملے پر غور ہی نہیں کیا ہے۔

حالیہ برسوں میں برطانیہ کے انٹیلیجنس ادارے سیاسی معاملات میں ہاتھ ڈالنے سے گریز کرتے ہیں اور جمہوریت کے دفاع جیسے موضوعات کو اپنے لیے بہت دشوار سمجھتے ہیں۔

رپورٹ میں سارا الزام حکومت کی دہلیز پر رکھ دیا گیا ہے۔ لیکن برطانیہ میں روسی دولت اور اثر و رسوخ کا پھیلاؤ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے فوری قانون سازی کی ضرورت ہے۔

روس کا ردعمل

تجزیہ: سارہ رینسفورڈ، ماسکو میں بی بی سی نامہ نگار

آئی ایس سی کی رپورٹ پر روس کا مجموعی ردعمل نفی میں ہے۔ روس کے وزیر خارجہ نے اسے ’روسوفوبیا‘ کہہ کر مسترد کیا ہے۔

کریملن کے ایک ترجمان نے کہا کہ روس دوسرے ممالک کے انتخابات میں مداخلت نہیں کرتا ہے۔

اس رپورٹ میں روس کو ایک طاقتور حریف کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس سے روس ناخوش نہیں ہو گا۔

اپوزیشن کا ردعمل

لیبر پارٹی کی شیڈو فارن سیکرٹری لیزا نینڈی نے الزام لگایا کہ وزیر اعظم کی جانب سے رپورٹ کی اشاعت میں تاخیر کا فیصلہ سیاسی تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’حکومت روسی خطرے کو بھانپ نہیں سکی ہے اور یہ ضروری ہے کہ ہمیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32559 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp