KEN WILBER اور انسانی شعور کے ارتقا کا نظریہ


کین ولبر 1949 میں امریکہ کے شہر اوکلاہوما میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ڈیوک اور نیبراسکا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی لیکن تعلیم مکمل کرنے سے پہلی ہی وہ یونیورسٹی چھوڑ کر ایک ادیب اور فلاسفر بننے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ 1973 میں انہوں نے اپنی پہلی کتاب THE SPECTRUM OF CONSCIOUSNESS لکھی۔ اس کتاب کو بیس پبلشرز نے رد کیا۔ آخر 1977 میں QUEST BOOKS نے اس کتاب کو چھاپا۔ کین ولبر کو ان کی جن کتابوں کی وجہ سے عالمی شہرت ملی ان میں 1996 کی کتاب A BRIEF HISTORY OF EVERYTHING اور 2000 کی کتاب A THEORY OF EVERYTHING شامل ہیں۔

ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پچھلی دو تین صدیوں میں مختلف مکاتب فکر کے سائنسدانوں اور فلسفیوں نے انسانی ارتقا کے جو نظریے پیش کیے ہیں ان میں

چارلز ڈارون کا حیاتیاتی ارتقا کا نظریہ
سگمنڈ فرائڈ کا نفسیاتی ارتقا کا نظریہ
کارل مارکس کا سماجی ارتقا کا نظریہ
فریڈرک ہیگل کا تاریخی ارتقا کا نظریہ اور
یووال ہراری کا ثقافتی ارتقا کا نظریہ شامل ہیں۔

اکیسویں صدی میں کین ولبر نے ایک ماہر نفسیات ’سماجیات اور روحانیات ہونے کے حوالے سے انسانی شعور کے ارتقا کا ایک نیا نظریہ پیش کیاہے۔ اس نظریے میں کین ولبر نے نہ صرف ارتقا کے مختلف نظریوں کو یکجا کیا ہے بلکہ ان میں ایک نامیاتی وحدت بھی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے انسانیت کی کثرت میں وحدت دکھائی دیتی ہے۔

کین ولبر کا مختلف سائنسدانوں اور فلسفیوں پر یہ اعراض ہے کہ وہ زندگی کے صرف ایک پہلو پر تحقیق کر کے نتائج پیش کرتے ہیں لیکن وہ اپنی تحقیق کے نتائج کو زندگی کے دوسرے پہلوؤں سے جوڑنے کی کوشش نہیں کرتے اس لیے ایسے تمام نظریے صحیح ہونے کے باوجود نامکمل رہ جاتے ہیں اور وہ پورے انسان کی کہانی نہیں سناتے اسی لیے قاری کو ان میں تشنگی کا احساس رہتا ہے۔

کین ولبر نے مختلف نظریوں کے موتیوں کو ایک دھاگے میں پرونے کی کوشش کی ہے۔ انہیں اس بات کا دعوہ نہیں کہ ان کا نظریہ حرف آخر ہے لیکن یہ دعویٰ ضرور ہے کہ اب تک انسانی شعور کے ارتقا کے جتنے نظریے پیش کیے گئے ہیں یہ ان سب سے زیادہ جامع ہے۔

اگرچہ کین ولبر کے لکھنے کا انداز ثقیل ’پیچیدہ اور گنجلک ہے لیکن میں ان کے نظریے کو عام فہم انداز سے پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔

کین ولبر کاکہنا ہے انسانی شعور کا ارتقا انفرادی اور اجتماعی طور پر تین مراحل سے گزرکر تین منازل تک پہنچتا ہے

پہلی منزل میں رہنے والے انسان صرف اپنی ذات کے نفع و نقصان کی فکر کرتے ہیں۔ اس منزل پر وہ کافی حد تک خود غرض ہوتے ہیں۔ کین ولبر اس منزل کو ME STAGE۔ ۔ ۔ EGOCENTRIC STAGEکا نام دیتے ہیں۔

دوسری منزل پر رہنے والے انسان اپنی ذات سے بالاتر ہو کر اپنے خاندان اور اپنی قوم کے بارے میں فکرمند ہوتے ہیں اور اپنے خاندان اور اپنی قوم کے لیے قربانیاں دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ کین ولبر اس دوسری منزل کو US STAGE۔ ۔ ۔ ETHNOCENTRIC STAGEکا نام دیتے ہیں۔

تیسری منزل پر رہنے والے انسان پوری انسانیت کے بارے میں غور و خوض کرتے ہیں اور سب انسانوں کی بھلائی کے بارے میں نہ صرف سوچتے ہیں بلکہ پہلے وہ عالمی امن کا خواب دیکھتے ہیں اور پھر اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس منزل پر وہ نہ صرف اپنے ذاتی اور خاندانی بلکہ اپنے قومی مفاد سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔ کین ولبر اس منزل کو ALL OF US STAGE۔ ۔ ۔ WORLD CENTRIC STAGE کا نام دیتے ہیں۔

کین ولبر کا کہنا ہے کہ انسان کے صدیوں کے اجتماعی شعور کے ارتقا کے باوجود ہر نئے انسان کو تیسرے منزل تک رسائی کے لیے پہلی دو منازل سے گزر کر جانا پڑتا ہے اور اگر اس شخص کے خاندانی اور سماجی حالات سازگار نہ ہوں تو اس کے لیے تیسری منزل تک پہچنا ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہو جاتا ہے۔

کین ولبر کا کہنا ہے کہ انسانی شعور کے ارتقا کے تیسری منزل تک پہنچنا ایک خوش آئند بات ہے لیکن اس کے لیے بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور اگر خاندان اور سماج تعاون نہ کریں تو بعض لوگوں کے لیے وہ قربانیاں دینا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

کین ولبر نے اپنے نظریے میں چار گروہوں کی تحقیق کو یکجا کیا ہے۔
پہلے گروہ کی تحقیق کا تعلق انسانی دماغ سے ہے
دوسرے گروہ کی تحقیق کا تعلق انسانی ذہن سے ہے
تیسرے گروہ کی تحقیق کا تعلق انسانی سماج سے ہے
اور چوتھے گروہ کی تحقیق کا تعلق انسانی کلچر سے ہے

کین ولبر نے ان محققین کی تحقیقی کے نتائج کو یکجا کر کے اور اپنے تجربے ’مشاہدے‘ مطالعے اور تجزیے کو شامل کر کے ایک نیا نظریہ تخلیق کیا ہے اور اپنی کتابوں میں پیش کیا ہے جسے وہ AN INTEGRAL VISIONکا نام دیتے ہیں۔ اس نظریے کا مقصد عوام وخواص میں اجتماعی شعور پیدا کرنا ہے۔

کین ولبر نے اپنے نظریے میں پچھلی دو صدیوں کے سائنس اور مذہب کے تضاد کا بھی حل پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تضاد سطحی ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ زندگی کی کچھ سچائیوں تک انسان سائنس کی دوربینوں اور خوردبینوں سے پہنچتے ہیں اور کچھ سچائیوں تک انسان اپنی ذات کی گہرائیوں میں اترنے اور کچھ روحانی تجربات سے پہنچتے ہیں (ان تجربات کا روایتی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تجربات غیر مذہبی اور دہریوں کو بھی ہو سکتے ہیں ) ۔ ان کا کہنا ہے کہ روایتی سائنسدان اور روایتی مذہبی رہنما یکجا نہیں ہو سکتے لیکن سچ کی تلاش میں نکلے ہوئے مخلص سائنسدان اور مخلص روحانی درویش یکجا ہو کر انسانیت کی خدمت کر سکتے ہیں۔

کین ولبر کا خیال ہے کہ ہر دور اور ہر قوم میں انسانی ارتقا کے سفر میں پہلی اور دوسری منزل پر رہنے والے اکثریت میں اور تیسری منزل پر رہنے والے اقلیت میں ہوتے ہیں۔ ان کا مشورہ یہ ہے کہ ہمیں عوام کے روز مرہ کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ وہ ارتقا کی اگلی منزل تک پہنچ سکیں۔

کین ولبر کا موقف ہے کہ جب مرد اور عورتیں انسانی شعور کے ارتقا کی تیسری منزل پر پہنچ جاتے ہیں وہ پوری کائنات اور پوری انسانیت کے ساتھ ایک نئے رشتے میں منسلک ہو جاتے ہیں۔ ایسے انسانوں کی سوچ ’ان کی گفتگو اور ان کے کام انسانی فلاح و بہبود کے لیے ہوتے ہیں۔ ایسے انسان خود بھی پرسکون زندگی گزارتے ہیں اور دوسرے انسانوں کے ساتھ مل کر ایک پرامن معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں اور پھر اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے انسان انفرادی اور اجتماعی طور پر انسانی شعور کے ارتقا کے سفر میں اگلی منزل تک پہنچنے کے لیے خضر راہ ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments