اپندر ناتھ اشک اور گرتی دیواریں


بیدی: میرا ہم دم میرا دوست اور منٹو میرا دشمن کے خالق اپندر ناتھ اشک اپنے عہد میں، اپنے ہمعصر لکھنے والوں سے بہت پیچھے رہ گئے۔ یہ دور حقیقت میں بڑے لکھنے والوں کا دور تھا۔ اشک بسیار نویس تھے۔ پھر اپنا پریس بھی بٹھایا اور اپنی کتابیں بھی خوب شایع کیں۔ ان کی اہلیہ کوشلیا اشک بھی افسانہ نگار تھیں۔ مجھے کوشلیا کے دو ایک افسانے پسند ہیں۔ اشک کا افسانہ ڈایے چی بھی اس زمانے میں بہت پسند کیا گیا۔ منٹو میرا دشمن پڑھتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔

اشک معترف تھے کہ منٹو لیجنڈ ہے۔ اور بیدی بھی کسی سے کم نہیں۔ مگر اشک خود کو کسی سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ جھگڑالو طبیعت کے بھی تھے۔ مگر مجھے آج بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ اشک کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔ یہ ان کی طبیعت کا بھی حصہ تھا کہ کبھی ہندی میں چلے گئے کبھی اردو میں واپس آ گئے۔ اس لئے ہندی والوں نے بھی اشک پر کچھ زیادہ دھیان نہیں دیا۔

کافی عرصہ پہلے علی گڑھ سے نکلنے والے رسالہ ’الفاظ‘ نے اپیندر ناتھ اشک پر ایک گوشہ شائع کیا تھا۔ ایک مضمون میں اشک کی جھکی طبیعت کی کچھ جھلکیاں پیش کی گئی تھیں۔ مثلاً اشک پہلے اردو میں لکھتے تھے۔ کسی دوست نے چیلنج کیا کہ آپ ہندی میں نہیں لکھ سکتے۔ اشک طیش میں آگئے اور ہندی میں لکھنا شروع کیا۔ پھر لکھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ اردو میں لکھنا بھول گئے۔ پھر کسی نے اعتراض کیا کہ آپ اردو میں نہیں لکھ سکتے۔ غرض کہ اشک ہر بار چیلنج پر چیلنج قبول کرتے گئے۔ یہاں تک کہ ایک بار کسی دوست نے کہا، اشک صاحب سب کچھ درست، مگر میرا دعویٰ ہے کہ آپ ضخیم ناول نہیں لکھ سکتے۔ اور اشک نے اس چیلنج کو بھی قبول کیا کہ وہ اردو ہندی زبان کا سب سے ضخیم ناول تحریر کریں گے۔ وہ گرتی دیواریں لکھنے میں مصروف ہوگئے۔

گرتی دیواریں اشک نے ستمبر 1939 میں شروع کیا اور 1944 میں مکمل کیا۔ یعنی آزادی ملنے سے قبل یہ معرض تحریر میں آ چکا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ کئی غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ ہونے کے کافی دیر بعد یہ اردو میں شائع ہوا۔

اس ضخیم ناول کے تین حصے ہیں۔ اور اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ اشک نے واقعی بڑی محبت اور محنت سے اس کا پلاٹ گڑھا ہے۔ طرز نگارش میں روسی مصنفین کی جھلک ہے۔ خاص کر نکولائی گوگول کی جھلک بہت زیادہ ہے۔ اشک کی ایک اہم خوبی ہے کہ وہ قصے کو چمکانے یا رواں دواں زبان میں لکھنے پر بہت زور دیتے ہیں۔ کہیں کہیں ان کی جزیات نگاری بہت معنی خیز اورحسین لگتی ہے تو کہی کہیں بوجھل اور بے رس بھی لگنے لگتی ہے۔ دراصل روسی مصنفین میں گوگول سے زیادہ تر قاری کی یہی شکایت رہی کہ گوگول کی کہانی کے فریم میں اگر کوئی کردار سیکنڈ بھر کے لیے بھی جلوہ گر ہوا تو گوگول اس کا پورا شجرہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ گرتی دیواریں کی طوالت اس سبب سے بھی ہے کہ اشک نے کچھ زیادہ ہی غیر ضروری واقعات اور کرداروں کا سہارا لیا ہے۔ جو آخر تک یا تو یاد نہیں رہتے یا پھر جن کی چنداں ضرورت نہیں تھی یا جو ہوتے نہیں تو کہانی زیادہ رواں دواں ہوجاتی۔

گرتی دیواریں کی کہانی جالندھر کے قریب کی بستی غزاں سے یہ کہانی شروع ہوتی ہے۔ ناول کا آغاز دلچسپ ہے۔
”آخر ایک دن تنگ آکر چیتن اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھنے کے لیے چپ چاپ بستی غزاں کی طرف چل پڑا۔“

بستی غزاں کے تعارف کے ساتھ ہی کہانی کے کردار کھلتے چلے جاتے ہیں، بہتر معلوم ہوتا ہے کہ کرداروں کے سہارے کہانی کی سمت و رفتار کا جائزہ لیاجائے۔ اس ضخیم ناول میں یوں تو بہتیرے کردار ہیں لیکن تین ایسے اہم کردار ہیں جن کے سہارے کہانی اپنے مقام کا تعین کرتی ہے۔ پہلا اہم کردار تو چیتن کا ہی ہے جو کہانی کا ہیرو ہے۔ دوسرا اس کی پتنی چنداں کا، تیسرا چندا کی چھوٹی بہن نیلا کا۔ نیلا جو چیتن کو عزیز ہے۔ دوسرے معنوں میں اس کی محبوبہ ہے۔

چیتن کہانی کا مرکزی کردار ہے۔ اس کردار کو اشک نے اتنے Dimension دیے ہیں کہ کئی مقام پر یہ کردار اس قدر الجھ جاتا ہے کہ اسے سمجھنا کار مشکل معلوم ہوتا ہے۔ بازار شیخاں چھتی گلی اور لال بازار کی بھیڑ سے بچتا چیتن اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھنے نکل پڑتا ہے۔ لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ راہ میں ایک خوشگوار حادثہ اس کا منتظر ہے۔ موٹی سی بھدے نین نقش والی چندا تو اسے متاثر نہیں کرپاتی، ہاں وہیں اسکول سے نکلتی، ناپ ناپ کر قدم رکھتی ایک خوبصورت سی کم سن لڑکی اس کے ہوش وحواس پر سوار ہوجاتی ہے۔ شومی قسمت دیکھئے کہ نہ چاہنے کے باوجود چیتن کی شادی چندا سے ہوجاتی ہے۔ اوروہ لڑکی نیلا چندا کی چھوٹی بہن نکل آتی ہے۔ چیتن وقت اورزمانے کے سخت وگرم کا شکار ہونے کے باوجود نیلا کے لیے وہی نرم رویہ رکھتا ہے تو نیلا بھی خاموش دبی زبان میں اس سے اظہار محبت کرتی رہتی ہے۔

چندا عام گھریلو عورت ہے۔ ایک سگھڑ ہندو عورت جو اپنے پتی کو پرمیشور کا درجہ دیتی ہے اور وہ جیسا کہتا ہے کرتی ہے۔ اس معاملے میں چندا کی تعریف کرنی ہوگی کہ یہی چندا جو ایک چھوٹے سے پنڈتائی، گھرانے سے اٹھ کر چیتن کی زندگی میں آ گئی اور اس کے سارے برے دنوں کی گواہ رہی مگر جب چیتن نے اسے انگریزی سکھانا چاہا، نئے طور طریقے سکھانے چاہے، تو چندا نے یہاں بھی وقت، تبدیلیوں اور چیتن کا ہی ساتھ دیا۔ یہاں تک کہ چنداکی موجودگی میں ہی چیتن نیلا سے بھی پریم کی لکا چھپی، کا کھیل کھیلتا رہا اور اگر چندا محسوس بھی کرتی تھی، تب بھی اس کی زبان پر کسی حرف شکایت نے جنم نہیں لیا۔

چیتن جب اپنے شاعرانہ مزاج اور سادہ زندگی کے سہارے وقت کے تھپیڑوں کی مار سہتا رہا تو چنداں ہر لمحہ اس کی محبت کی اسیر بنی رہی۔ اور جب چیتن روزگار کی کڑی دھوپ سہتا ہوا اس سے الگ رہنے پر مجبور ہوا تو چنداں کی میٹھی میٹھی چٹھیاں اس کو مضبوطی اورحوصلہ فراہم کرتی رہیں۔ جب کہ چیتن کے خط میں چنداں سے زیادہ نیلا کی باتیں ہوتیں مگر چنداں کو کبھی بھی اپنے پتی پر شک نہیں ہوا۔ وہ آنکھیں موندے اپنی پتی ورتا نبھانے میں ہی مصروف رہی۔

نیلا چنداں کی چھوٹی بہن ہے اورکسی شاعر کے تصور کی طرح حسین ہے۔ چیتن نیلا سے دل ہی دل میں پیار کرتا ہے اور پیار کے اظہار کے دبے چھپے مواقع بھی نکال لیتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ چیتن نیلا کا آدرش ہے۔ نیلا مجبور ہے کہ چیتن اس کا جیجا ہے۔ اس کی بڑی بہن کا پتی۔ ایک موقع ایسا بھی آتا ہے جب تاریکی کا فائدہ اٹھا کر چیتن اسے اپنی بانہوں میں بھر لیتا ہے۔ اس واقعے کا نیلا پر یہ اثر ہوتا ہے کہ وہ اس سے کٹی کٹی رہنے لگتی ہے۔

وہ سامنے آتا ہے تو وہ بھاگ جاتی ہے۔ کہانی کا آخری موڑ دلچسپ ہے۔ نیلا کی شادی ایک ادھیڑ عمر کے ملیٹری اکاؤنٹنٹ سے ہوجاتی ہے۔ ملٹری اکاؤنٹنٹ کے ساتھ اس کا بھتیجا ترلوک بھی ہے۔ جو نیلا کو چھیڑتا رہتا ہے۔ چیتن کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے اس بوڑھے سے حسد نہیں ہے جس کے ساتھ نیلا باندھ دی گئی ہے۔ بلکہ ترلوک بار بار اس کی نظر کے سامنے آکر اسے بے چین کرجاتا ہے۔

”ترلوک سے یہ جلن کیسی؟ اسے نیلا کے شوہر سے کیوں نہ حسد ہو جس نے نیلا کا سب کچھ ہتھیالیا۔ اس کے اس بھولے بھالے نوخیز بھتیجے سے کیوں ہوا؟“

دراصل نیلا کے تن اور من دونوں سے محروم ہوجانا چیتن کو منظور نہ تھا۔ نیلا کی رخصتی کا وقت ہوچلا تھا، مگر چیتن بیماری کا بہانہ بنا کر اس ساعت کے ٹلنے کا انتظار کر رہا تھا۔ تبھی نیلا سیڑھیوں پر چھم چھم کرتی اس کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ آنکھیں پر نم ہیں، گلہ رندھا ہوا ہے۔ نیلا چلی جاتی ہے۔ چیتن تماشائی سا دیکھتا رہ جاتا ہے۔

کہانی کو آگے بڑھانے میں کئی کردار سہارا دیتے ہیں۔ جیسے چیتن کا ایک بڑا بھائی ہے، جو اپنی ذات میں خود ایک دلچسپ کردار ہے۔ ایسے کئی اور بھی دلچسپ کردارہیں جو زندگی سے وابستہ مختلف پہلوؤں کو سامنے لاتے ہیں۔ مگر دیکھا جائے تو اصل کہانی انہی کرداروں کے سہارے چلتی ہے۔ شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی چیتن کا اپنی سالی میں دلچسپی لینا اور اس پر اپنی روح تک قربان کر دینا۔ اس طرح کی کہانیاں ہمارے سماج میں نئی نہیں ہیں۔ جب سے سماج ہے، تب سے یہ کہانیاں قائم ہیں۔ یہ دیواریں اسی سماج سے بلند ہوئی ہیں، یا اٹھی ہیں، یا اٹھائی گئی ہیں۔ عقل، مذہب، اخلاق، سماج، بیاہ۔ اشک کو یہ سب دیواریں معلوم ہوتی ہیں۔ اور وہ ان دیواروں کے ٹوٹنے یا گرنے کے منتظر ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ اس مقام پر آکر کہانی بہت محدود ہوجاتی ہے۔ عنوان سے کہانی کی جو عظمت ذہن میں قائم ہوئی تھی، اختتام پر آکر، قاری مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اشک گرتی دیواریں کے پلاٹ کو سنبھال نہیں پائے۔ یہ معمولی پریم گرنتھ سے آگے کی چیز نہیں ہے۔ یہ کہانی غلام ہندستان کی پیداوار ہے۔ جب اچانک مٹھی بھر فرنگی گھوڑوں کی ٹاپ کے نیچے آکر ہندستانی قدروں، تہذیب، اخلاق اور رشتوں کا جنازہ اٹھنے لگتا ہے۔ پڑھنے سے پہلے احساس ہوا تھا کہ اشک اس ناول کے ذریعہ اپنے عہد کے وہ ناقابل فراموش مناظر ہمارے سامنے رکھیں گے، جس میں غلام ہندستان اور ہندستان کے عوام کا دل دھڑکتا محسوس ہوگا۔ مگر اس ناول کا ایک المیہ یہ بھی کہا جائے گا کہ اگر اسے آزادی کے بعد لکھے گئے ناول کے طور پر پڑھا جائے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مطلب یہ کہ اشک اپنے عہد کو آئینہ نہ دکھا سکے جب کہ موضوع کا تعاقب کرتے ہوئے گرتی دیواروں کو اشک کم از کم تہذیبوں کے تصادم سے وابستہ تو کر ہی سکتے تھے۔

اشک نے دیواروں کو گرتے دیکھا بھی تو محبت کے تقاضوں میں۔ محبت بھی دیکھی تو ایک شادی شدہ مرد میں۔ ایک سالی کے لیے، چیتن تمام تر ہمت، حوصلے، شاعرانہ اور انقلابی مزاج کے باوجود آخر میں ایک ناکام اور نا مراد عاشق ہی ثابت ہوتا ہے۔ اشک کی آنکھیں اپنے ہی سماج میں بلند ہوتی ہوئی وہ بلند دیواریں نہیں دیکھ سکیں جو زمانہ، وقت اور اپنوں نے اٹھا رکھی تھیں۔

”عقل، مذہب، اخلاق، سماج، بیاہ، یہ سب دیواریں جو حقیقی زندگی میں اس محبت کو گھیرے ہوئے تھیں، تصور کی دنیا میں یکایک زمین دوز ہوگئی تھیں۔“

ناول کو ضخامت عطا کرنے کے چکر میں وہ قلم کو قابو میں رکھنا بھول گئے۔ اور کہانی ان کی گرفت سے نکل کر معمولی محبت کی شعبدہ بازی میں کھو گئی۔ اختتام پر آکر جب اشک کو اس بات کا احساس ہوا تو ناول کو آفاقی رنگ دینے کی خواہش میں وہ طرح طرح کی دیواریں گرتے چلے گئے۔

”نیلا اور ترلوک کے درمیان ہی نہیں، بلکہ اس غلام دیش کے بیشتر مرد عورتوں فرقوں اور قوموں کے درمیان۔ ان دیواروں کی کوئی انتہا نہیں۔ ان دیواروں کی بنیادیں کہاں ہیں۔ یہ دیواریں کب کریں گی۔“

The Scarlet and the Black میں استانداد نے ایک جگہ ان دیواروں کے گرنے کے عمل کو تہذیب کے ختم ہونے کا سانحہ قرار دیا تھا۔ استانداد کے لفظوں میں تہذیب ایک ایسا خوبصورت آرکٹکچر ہے جس کی بنیاد میں ہزاروں برسوں کا داغ لگا ہوتا ہے۔ تہذیب کا ختم ہونا ایسا ہے، جیسے ملک کی حفاظت کرنے والی دیوار ہی ڈھادی جائے۔

اشک گرتی دیواریں کے تصور کو عظیم رنگ دینے میں ناکام رہے۔ اس کے پیچھے وجہ جو بھی رہی ہو۔ ہاں، گرتی دیواریں میں اشک ایک اچھے آبزرور (Observer) کیمرہ مین اور فوٹو گرافر ضرور رہے ہیں، شاید اسی لیے روسی نقاد الیکسی بار انکوف کو اس ناول کے بارے میں کہنا پڑا۔

”جیسے مصنف کسی سکینڈل پوائنٹ پر بیٹھا سامنے سے گزرنے والی زندگی کے رنگا رنگ اور اور پرشور جلوس کا نظارہ کر رہا ہے۔ وہ کبھی دور بین سے اسے دیکھتا ہے، کبھی خوردبین سے، کبھی خود اس جلوس کا حصہ بن جاتا ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments