لاہور میں عورتوں کا خون پینے کے شوقین ڈریکولا کی کہانی


پچھلے سال فروری کی بات ہے لاہور سے ایک خون چوسنے والا خطرناک درندہ صفت نوجوان گرفتار کیا گیا جسے موجودہ دور کا ڈریکولا بھی کہا گی کچھ لوگوں نے اسے لاہوری ڈریکولا کا نام بھی دیا کیونکہ اس نے ایک ایسی واردات کی جو بالکل ہارر فلموں یا کہانیوں کا کردار ڈریکولا کرتا تھا. دراصل نوجوان نے اپنے استاد کی اہلیہ پر حملہ کرکے اسے بے ہوش کیا اورپھر اس کا خون چوس لیا۔ گرفتار ہونے کے بعد لاہوری ڈریکولا نے ایک نجی ٹی وی چینل کو واردات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہاکہ واقعہ کی رات میں اپنے استاد کے گھر اپنے پیسے لینے آیا تھا جب میں نے دیکھا کہ گھر میں استانی اکیلی ہے تو اس پر حملہ کیا۔

نوجوان نے بتایا کہ میں نے گھر میں داخل ہو کر پانی پینے کے بہانے کچن کا رخ کیا، کچن سے بیلنا پکڑا اور اس کے سر پر مارا جس پر وہ بے ہوش ہو گئی۔ استانی کے بے ہوش ہونے پر میں نے چھری پکڑ کر ان کے دونوں ہاتھوں کی کلائیوں پر کٹ لگائے۔ خون نکلنے پر میں نے ان کی کلائیوں کو منہ لگا کر کم از کم آدھے گھنٹے تک خون پیا۔ نوجوان نے بتایا کہ خون پینے کے بعد مجھے بالکل ہوش نہیں رہا، اس کے بعد میں نے مزید کتنے کٹ لگائے مجھے بالکل یاد نہیں ہے۔

نوجوان سے متعلق بعد میں مزید انکشاف ہوا کہ اس سے قبل بھی وہ جانوروں کا خون پیتا تھا لیکن یہ پہلی مرتبہ تھا کہ اس نے کسی انسان کا خون پیا۔ استاد کے گھر پہنچنے پر مجھے خون پینے کی طلب ہو رہی تھی۔ خون کی مٹھاس میرے منہ کو لگ گئی تھی، مجھے خون شہد کی طرح میٹھا لگتا تھا، مجھے پیسوں کی طلب نہیں تھی صرف خون کی طلب تھی، لہٰذا میں نے خون پیا اور میں وہاں سے نکل گیا۔ درندہ صفت نوجوان نے بتایا کہ خون پینے کے بعد میرے جسم کی تھکان اور سر کا درد سب کچھ بالکل ٹھیک ہو جاتا ہے اگر پینے کے لیے مجھے خون نہ ملے تو میرا سر چکراتا ہے اور میرا دل کرتا ہے کہ میں دیوار کو ٹکریں ماروں، میرے منہ کو اس دن ہی انسان کا خون لگ گیا تھا اگر مجھے گرفتار نہ کیا جاتا تو میں نے انسانوں کا خون ہی پینا شروع کر دینا تھا کیونکہ، مجھے انسان کا خون میٹھا اور ذائقہ دارلگا۔ جب مجھے خون مل جاتا ہے تو میں صرف اپنی طلب پوری کرتا ہوں اور خون پیتے وقت میرے ذہن میں کوئی خیال نہیں آتا۔

نوجوان نے بتایا کہ جب سے میں نے خون پینا شروع کیا تھامیں زیادہ سے زیادہ وقت قبرستان میں گزارتا تھا، میں میانی صاحب قبرستان میں ایک درخت کے پاس بیٹھتا تھا کیونکہ مجھے وہاں بیٹھ کر سکون ملتا تھا اور نیند بھی وہیں آتی تھی۔ اندھیری جگہ میں سکون کی وجہ سے میں نے وہاں کبھی کسی کا خون نہیں پیا۔ نوجوان نے بتایا کہ میرے والدین میں سے صرف والد کو مجھ پر شک ہوا اور وہ مجھے دو مرتبہ میانی صاحب قبرستان سے اٹھا کر گھر بھی لائے لیکن میں پھر آدھی رات کو دو یا تین بجے وہاں چلا جاتا تھا۔

میرے دوست بھی ہیں لیکن ان کو کچھ نہیں پتہ، جب بھی دوستوں کے ساتھ کہیں جانا ہوتا تھا تو میں خون پی کر جاتا تھا۔ نوجوان نے انکشاف کیا کہ تین سال قبل ایک بابا جی نے ہی سب سے پہلے مجھے پیالے میں خون پلایا تھا، جب میں نے ان کے پیالے سے خون پیا تو انہوں نے میری آنکھوں کے سامنے کوئی چیز چھنکائی تھی، اس کے بعد ہی مجھے خون کی طلب ہونے لگی تھی۔ جس کے بعد میں رات کو چھت پر بیٹھ کر دیسی مرغیوں کا خون نکال کر پیتا تھا۔

ایک ہفتے کے بعد مجھے قبرستان میں وہی بابا جی پھر ملے تھے جنہوں نے کہا تھا کہ اگر اپنی کمزوری ہٹانا چاہتے ہو تو خون تمہارے لیے بے حد ضروری ہے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ اگر تمہیں خون کی طلب ہوئی تو مرغیوں کا خون پی لینا لیکن اب تین سال ہو گئے وہ بابا جی مجھے دوبارہ نہیں ملے۔ پولیس نے نوجوان کو گرفتار کر لیا، جس کے بعد دوران تفتیش یہ بات سامنے آئی کہ لاہوری ڈریکولاحقیقت میں ڈریکولا نہیں تھا بلکہ ڈریکولا کی فلمیں دیکھ دیکھ کر ایک نفسیاتی مریض بن چکا تھا اور خود کو ڈریکولا تصور کرنے لگا تھا۔ لاہوری ڈریکولا اب کس جیل یا کس نفسیاتی ہسپتال میں ہے یہ کسی کو معلوم نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments