پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا بھارتی ایجنڈا


مسئلہ محض پاکستان کے ساتھ ہی نہیں بلکہ بھارت کے خطہ کے تمام ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ پائے جاتے ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت ا س خطہ میں تمام ملکوں پر زور دیتا ہے کہ وہ اس کی سیاسی چوہدراہٹ کو قبول کرے۔ یہ ہی دباؤ پاکستان پر بھی ہے کہ وہ اس خطہ میں بھارت کی بالادستی کو قبول کرے۔ اگرچہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت بھارت سے بہتر تعلقات چاہتی ہے، لیکن وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ یہ دوستی یک طرفہ ہو یا ہمیں بھارت کی بالادستی کو قبول کرنا چاہیے۔ اس وقت خطہ کی سیاست کا بنیادی نوعیت کا نکتہ یقینی طور پر پاکستان بھارت تعلقات میں بہتری کا ہے۔ کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات اور بداعتمادی کی کیفیت کا خاتمہ محض ان دونوں ملکوں تک محدود نہیں بلکہ اس کا بڑا تعلق جنوبی ایشیا اور خطہ کی سیاست سے جڑا سوال ہے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت بھارت کی مجموعی سیاست یا اقتدار میں شامل قوتوں کا ایجنڈا پاکستان سے بہتر تعلقات قائم کرنا نہیں۔ تعلقات کی بہتری کی بجائے بھارت ہمیں سیاسی، سماجی، معاشی اور سیکورٹی کے تناظر میں کمزور کرنے کا ایجنڈا رکھتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت کی سیاسی، سفارتی یا ڈپلومیسی کی ساری عملی حکمت عملی پاکستان دشمنی اور عالمی دنیا میں پاکستان مخالف مہم کی صورت میں نظر آتی ہے۔ بھارت کا پاکستان مخالف بنیادی بیانیہ عالمی دنیا سمیت اپنے ملک میں یہ ہی ہے کہ پاکستان بطور ریاست دہشت گردی میں ملوث ہے۔ پاکستان کی فوج دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو اپنا اثاثہ سمجھتی ہے اور ان کی سرپرستی کرتی ہے۔ اسی طرح وہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی مہم کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھ کر دنیا کو ہمارا مخالف بنانا چاہتی ہے۔

کل بھوشن یادیو کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ اس کا اعترافی بیان موجود ہے کہ وہ پاکستان میں مختلف گروپوں سے رابطے میں تھا اور بھار تی حمایت سے وہ ان گروپوں کی سیاسی، انتظامی اور مالی مدد کرکے پاکستان میں دہشت گردی کو تقویت دیتا تھا۔ کراچی، بلوچستان اور خیبر پختوخوا ہ کے علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت اور کل بھوشن کا ہاتھ تھا۔ حالیہ کراچی سٹاک ایکسچینج میں ہونے والی دہشت گردی میں بھی ہم بھارت کے کردار کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔

بلوچ علیحدگی پسندگروہ نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کی ہے ا ور یقینی طور پروہ یہ کا م بھار ت کی مدد کے بغیر نہیں کر سکتے تھے۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، نواز شریف اور موجودہ سیاسی و عسکری قیادت تواتر کے ساتھ عالمی دنیا سمیت اقوام متحد ہ میں بھارت کی کراچی اور بلوچستان میں مداخلت کے شواہد پیش کرتا رہا ہے۔ اگرچہ کل بھوشن گرفتار ہیں لیکن اب بھی اس کا نیٹ ورک کسی نہ کسی شکل میں بھارت کی حمایت سے پاکستان میں سرگرم نظر آتا ہے۔

بھارت نے ایک کوشش یہ بھی کہ کسی طریقے سے پاکستان اور ایران کے درمیان دوری پیدا کی جائے۔ لیکن یہاں ہماری سیاسی و عسکری سطح پر موجود قیادت کو داددینی ہوگی کہ انہوں نے فوری خطرہ محسوس کرتے ہوئے ایران کا دورہ کیا اور ان کو باور کروایا کہ ہم اگرچہ سعودی عرب کے ساتھ ہیں لیکن ایران کو بھی اپنا حقیقی دوست سمجھتے ہیں۔ پاکستان باربار یہ باور کروارہا ہے کہ ہم اب خطہ سمیت کسی بھی ملک میں کسی کی بھی پراکسی وارلڑنے کے لیے تیار نہیں۔

ہم حقیقی معنوں میں ملکوں کے درمیان توازن کوپیدا کرنا چاہتے ہیں اور سب کو اپنے قومی مفاد کے پیش نظر اپنے قریب کرنا چاہتے ہیں۔ اب ایران نے چاہ بہا کے معاملے میں بھارت کو سفید جھنڈی دکھائی ہے اور اس کی وجہ چین کی بڑی بھاری سرمایہ کاری ایران میں کی جارہی ہے۔ اس سے یقینی طور پر چین ایران تعلقات مضبوط ہوں گے تو اس کا فائدہ ہمیں بھی ہوگا۔ اسی طرح سے بھارت نے اپنی خفیہ ایجنسی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی کی مدد سے افغانستان کے بحران کے حل میں رکاوٹیں پید ا کیں اور ہر وہ کام کیا جو ہمیں کمزور کر سکتا تھا۔

یہاں مجموعی طور پر مودی، انتہا پسند ہندو اور آر ایس ایس کی سرگرمیوں کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ ان کے پاس سوائے پاکستان مخالف ایجنڈے کے کچھ بھی نہیں ہے۔ بالخصوص مودی حکومت جس انداز سے اپنے میڈیا کو پاکستان مخالفت کی بنیاد پر استعمال کررہی ہے اس کی بھی بدترین شکلیں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ پاکستان کے میڈیا کے مقابلے میں بھارتی میڈیا زیادہ انتہا پسندی کا مرتکب ہوتا ہے اور وہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کی بجائے اس میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بھی بنتا ہے اور ماحول بھی بناتا ہے۔ پاکستان نے پچھلے چند برسوں میں جس انداز سے بھار ت کے ساتھ کسی بھی سطح پر تعلقا ت کو بحا ل کرنے کی کوشش کی، تو بھارت کا رویہ نہ صرف منفی رہا بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان دباؤ میں ہے اور اسی کمزوریٓ کی وجہ سے وہ ہم سے بہتر تعلقات چاہتا ہے۔

چین کی جانب سے جاری منصوبہ سی پیک پر بھی بھارت اپنے تحفظات پیش کرچکا ہے اور مودی حکومت اس منصوبہ کو اپنے لیے بڑاخطرہ سمجھتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کوشش کی جارہی ہے کہ اس منصوبے میں زیادہ سے زیادہ رکاوٹیں پیدا کی جائیں۔ بھار ت جس انداز سے بلوچستا ن میں علیحدگی پسندوں کی حمایت کرتا ہے اس سے ظاہر ہوتاہے کہ وہ ان ناراض قوتوں کو اپنا سیاسی ہتھیار بنا کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں بھی پی ٹی ایم کے ناراض لوگوں کو باہر سے ملنے والی حمایت ظاہر کرتا ہے کہ ان لوگوں کی ہر سطح پر سرپرستی کرکے دشمن ہمیں کمزور کرنا چاہتا ہے۔

پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے داخلی مسائل، ماضی میں سول فوجی بداعتمادی اور خاص طو رپر ملک میں موجود سیاسی تقسیم کے باعث بھارت کو اس اندازمیں سیاسی، سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر اس انداز سے جواب نہیں دے سکے جیسے ہمیں دینا چاہیے تھا۔ اس محاز آرائی کا سب سے بڑا فائدہ بھی بھار ت کو ہوا اور وہ ہماری داخلی کمزوریوں اور مختلف فریقین کی بیان بازی کو بنیاد بنا کر عالمی دنیا میں ہمارے خلاف استعمال کرتا رہا ہے۔

جو لوگ یہاں بیٹھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت ہمیں داخلی طور پر کمزور نہیں کرنا چاہتا ان کو دیانت داری سے بھار ت کے موجودہ کردار کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔ اگرو اقعی بھارت ہمیں غیر مستحکم نہیں کرنا چاہتا تو اس کی موجودہ پالیسیاں کیا ہیں اور کیوں وہ ہمارے تمام اقدامات کو منفی بنیادوں پر دیکھ کر ہمیں عالمی دنیا میں تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ کیوں بھارت ہماری دہشت گردی کی جاری مہم کو شک کی نگاہ سے دیکھ کر اسے متنازعہ بنارہا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اس کا ایران اور افغانستان میں جو کردار ہے وہ پاکستان کی حمایت کی بجائے ہماری مخالفت کے گرد گھومتاہے۔

بھارت جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں کر رہا ہے وہ خود بھی عالمی سیاست میں سوالیہ نشان ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت کے اقدامات کو بھارت میں بھی پذیرائی نہیں مل رہی اور بھارت سمیت عالمی دنیا او مقبوضہ کشمیر میں اسے سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومین رائٹس واچ، یورپی یونین سمیت تمام عالمی انسانی حقوق سے جڑے ادارے اور ممالک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ مودی حکومت پر جو جنونی ہندواتہ کی سیاست غالب ہے اس نے پورے جنوبی اییا سمیت پاکستان اور خطہ کی سیاست میں بہت زیادہ سنگین نوعیت کے خطرات پیدا کردیے ہیں۔ بھارت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر پاکستان کمزو رہوتا ہے تو اس کا نقصان محض پاکستان کو ہی نہیں بلکہ خود عملاً بھارت کو بھی ہوگا اور وہ بھی عدم استحکام کا شکار رہے گا۔

یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کو بطور ریاست، حکومت، سیاست اور فوج سمیت سب کو بھارت کے منفی عزائم یا جنگی جنون سے ہمیشہ خبردار رہنا چاہیے۔ اگرچہ ہماری بنیادی حکمت عملی یہ ہی ہونی چاہیے کہ ہم عالمی دنیا میں اسی بیانیہ کو آگے بڑھائیں کہ ہم بطور پاکستان ہر سطح پر بھارت سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ ہماری حکمت عملی امن، ترقی اور خوشحالی کے ایجنڈے سے جڑی ہوئی ہے اور ہم ماضی کی غلطیوں سے نکل کر مستقبل کی طرف پیش قدمی کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن یہ سب کام بھارت کے تعاون سمیت عالمی دنیا کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی طرح ہمیں ایک دوسرے کی ماضی کی غلطیوں کا ماتم پیٹنے کی بجائے مستقبل کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے۔ آج دونوں ممالک اگر ماضی کو فراموش کرکے مستقبل میں بہتر تعلقات کا راستہ اختیار کریں تو اس سے خطہ کی سیاست کو امن، ترقی اور خوشحالی کے بڑ ے ایجنڈے سے جوڑا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments