بغداد میں شراب، شباب اور شیش کباب کے شاعر ابو نواس سے ملاقات


بغداد کی رات کے اس پہلے پہرجب میں دجلہ کے پانیوں میں ڈوبی روشنیوں کے عکس دیکھنے میں گم تھی۔ مجھے تو معلوم بھی نہ ہوا تھا کہ کب ایک وجہیہ عراقی بو ڑھا میرے پاس آکر بیٹھ گیا تھا۔ اس کا روایتی لباس، اس کی مخمور آنکھیں، اس کی سنہری رنگت، اس کا بانکپن سبھوں نے میری توجہ کھینچ لی تھی۔ میں نے استفہامیہ نگاہوں سے اسے دیکھا

یقیناً آنکھوں کی زبان اس نے پڑھ لی تھی۔ گھن گرج سی تھی لہجے میں جب بولا تھا۔
”میرے نام سے منسوب اس اہم شاہراہ ابونواس پرتم کس ٹھسے سے بیٹھی ہو۔ اور تم نے نہ مجھے یاد کیا، نہ خراج تحسین پیش کیا۔ حد ہو گئی ہے۔ ”
”اوہو“ میں سمجھ گئی تھی کہ میرا مخاطب کون ہے؟
”سچی ہے جب سے یہاں آکر بیٹھی ہوں آپ کے ہی خیال میں تو گم ہوں۔“
شاعر کا بڑھاپا جوانی کی طرح کم شاندار نہ تھا۔ شاہوں جیسا بانکپن تھا اس میں۔

”لو میں نے تو جب عراق آنے کا قصد کیا۔ عراق سے متعلق لٹریچر اور معلومات کے جھمیلوں میں الجھی۔ تم تو اسی دن سے میرے سامنے آگئے تھے اور میرے ساتھ رہنے لگے تھے۔ اور یہ بھی تھا کہ میں ابونواس روڈ پر دجلہ کے کنارے بیٹھ کر ہی تو تم سے لمبی چوڑی باتیں کرنا چاہتی تھی۔ پر شہرہ آفاق عوڈسٹ oudist احمد مختار نے میری توجہ کھینچ لی۔ سچی عراقی موسیقی، میسو پوٹیما اور عرب موسیقی کا دل کش امتزاج ہے جس پر ایرانی روایتی موسیقی نے بھی اپنا اثر ڈالا ہے۔

ہاں ایک بات کہ پاکستان میں جو کچھ تم پر پڑھا وہ ادب کے حوالوں سے تو بہت اہم تھا۔ مگر مجھ جیسی کچھ تنگ نظر، تھوڑی بہت روایات کی اسیر، کچھ ماڑے موٹے اخلاقیات کے بندھنوں میں جکڑی عورت کے لئے کچھ اتنا پسندیدہ نہ تھا۔ کہیں رسوائے زمانہ نظروں سے گزرا۔ کہیں مذہبی اقدار کا باغی اور کہیں شہوانیت کا مارا ہوا۔ پر اندر کی بات بتاؤں کہ میں نے بھی چسکے لے لے کر تمہیں پڑھا اور اپنی ادبی سہیلیوں کو بھی تمہارے شہ پارے سنائے۔ روشن خیال اور ترقی پسند عورتوں نے تمہیں جی بھر کر سراہا۔

خیر لونڈے تو تمہاری شاعری کا ایک مستقل حصہ ہیں۔ ایک ایسی نظم جس میں عقیدے اور مذہب کی بھی جھلک ہے وہاں یہ دیوانگی کفر کی حد تک چلی جاتی ہے۔ پھڑ پھڑ کرتی شاعری آنکھوں کے سامنے ناچنے لگی ہے۔

تمہاری ایک نظم پڑھتی ہوں۔ کہنا چاہتی ہوں۔ ابو نواس تمہاری اس نظم کو پڑھتے ہوئے میرے اندر کے شیطان نے اگر چسکہ لیا تھا تو خیر کے تربیت یافتہ پہلو نے فطرت کی خلاف ورزی پر احتجاج بھی کیا تھا۔

آمادگی پر مائل لڑکے سے مجھے پیار ہے ایک خوبصورت، پروقار، خطرناک، غزال
جس کی پیشانی نقاب میں چھپے چاند جیسی کوئلے جیسے سیاہ اور بادلوں جیسے گھنے بال
جو اپنے زیر جامے میں کاہلی سے پلسٹے مارتا ہے
نہ زیورات کا کوئی مطالبہ اور نہ ہی پر فیوم کے لئے کوئی تقاضا
نہ کبھی چیتھڑوں سے کپڑوں میں نظر آتا ہے
اور نہ ہی کبھی حاملہ ہوتا ہے
ایک شام جب میں تمہاری ایسی ہی نظمیں پڑھتے ہوئے جہاں تم نرم و نازک لطیف سے جذبات پر بہتے بہتے گندگی کی پاتال میں اترجاتے تھے۔ مجھے شرمندگی سی محسوس ہوئی تھی۔ اب تم جب کہتے ہو

لڑکو آؤ سیدھے میری طرف میں عیش وعشرت کی ایک کان ہوں
مجھے کھودو پرانی مد ہوش کرنے والی شراب
خانقاہوں میں راہب ہی تیار کرتے ہیں شیش کباب، بھنے ہوئے مرغ
کھاؤ، پیو اور موج میلہ کرو اور بعد ازاں
تم میرے ٹول کو شمپو کرنے کے لئے آسکتے ہو

”بہت ہوگیا۔ بہت ہوگیا علموں بی بی بس کر اب۔ تھوڑی دیر کے لئے اس موضوع سے ہٹ کر اس کی شاعری کی اورخوبصورت پرتیں دیکھ۔ لونڈے بازی پر ہی تیری سوئی اٹک گئی ہے۔

”ابونواس۔“ ”مجھے یقیناً اپنی خوش قسمتی پرر شک آ رہا ہے کہ آٹھویں صدی کے وسط اور آخری دہائی کاعربی کلاسیکل شاعری کے ایک بہت بڑے نام کاحامل شاعر ابونواس نے مجھے شرف ملاقات بخشا ہے اور میرے پاس آ کر بیٹھا ہے۔ ۔ ۔“

”ابو نواس“ میں کچھ جھجکی تھی۔
” کہو۔ جو کہنا چاہتی ہو۔ تم ایک دبنگ بندے کے سامنے بیٹھی ہو۔“

” ابو نواس میں گنہگار سی، کچی پکی مسلمان عورت جاہل سی، محدود سے ذہنی افق کی مالک تمہاری شراب اور شراب نوشی، لونڈے بازی، پھکڑبازی اور خدا سے مخول بازی کو اس طرح ہضم نہ کر سکی جیسے شاید باقی لوگ کرتے ہوں گے۔ اب میں بھی کیا کروں تم خمریات (Khamriyyat) (شراب نوشی) مدحقارات (Mudhakkarat) (لونڈے بازی) اورمجنیات (Mujuniyyat ) (کفر بکنے والا) کے چکروں سے ہی نہیں نکلتے تھے۔ شاعری کا سارا تانا بانا تو انہی موضوعات کے گرد بنتے رہے۔“

”بس تو اتنا سا علم لے کر بیٹھی ہو۔“ ابونواس نے اپنے انگوٹھے اور انگشت شہادت کو مضبوطی سے ایک دوسرے سے جوڑتے ہوئے درمیان میں معمولی سے خلا کا راستہ بھی بند کرتے ہوئے گہرے طنز سے کہا۔

”ایک میں کیا بغداد کے بیشتر شعرا اور لکھاری بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ عرب دنیا کی اکثریت کا یہی انداز تھا۔ چلو ابن رواندی کو چھوڑو تمہارا ایمان خطرے میں پڑ جائے گا۔ ولادہ بنت المستقفی کی شاعری کا تو جائزہ لینا تھا۔ تمہیں پتہ چلتا نویں صدی کی عورتوں کی روشن خیالی اور دانشوری کا۔ ابو العلاء المعریٰ کو پڑھنا تھا۔ اس کے ہاں شہوانیت نہیں مگر مذہب پر تنقید ہے۔ خدا پر ایسی نکتہ چینی ہے کہ تم جیسے چھوٹے ذہن کے لوگ پل نہ لگائیں اور مرتد اور کافر کے فتوے دائر کردیں۔ جنت اور جہنم کے پس منظر میں لکھی گئی اس کی مشہور نظم“ رسالت الغفران ”کہ جس سے دانتے نے متاثر ہو کر ڈیوائن کامیڈی لکھی۔

ہمارے عہد کے مفکر، دانشور، شاعر اور ادیب زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ تم لوگوں کی نسبت زیادہ روشن خیال تھے۔ وہ تمہارے محبوب فارسی کے شعرا عمرخیام اور حافظ جن کی شاعری پر تم جیسے لوگ سر دھنتے ہیں۔ میرے ہی تو جانشین ہیں۔ میری روایات کے امین ہیں وہ۔ یونانی اور رومی شاعروں کو پڑھو۔ دنیا کے فلاسفروں اور دانشوروں کا مطالعہ کرو۔ ان کے کام بھی میرے جیسے ہی تھے۔

سچی بات ہے اگر یہ طعنہ نہ بھی ملتا تب بھی مجھے اپنے سطحی سے علم کا بخوبی احساس تھا۔ میرے ہاں دعویٰ تو سرے سے ہی نہیں تھا۔ دعویٰ تو سرا سر جہالت ہے۔ میں نے اپنے ان جذبات کا اظہار بڑے نرم اور شائستگی و متانت میں ڈوبے لہجے اور انداز میں کیا۔ تھوڑا سا زور اس بات پر بھی دیا کہ شاعری کی بہت ساری اصناف میں شاعر کس میں زیادہ گہرائی کے ساتھ سامنے آیا ہے اسے پرکھنا تو یقینا نقادوں کا کام ہے۔ عام قاری تو لطف کے لئے پڑھتا ہے۔ تاہم تاریخ میں درج یہ سچائی اور حقیقت بہت کھل کر سامنے آئی ہے کہ تمہارے علم کی وسعت بے پایاں، تمہاراحافظہ قوی اور یادداشت غیر معمولی تھی۔ تمہارے عہد کے نقادوں کی رائے بشمول ابوحاتم المکی ”کہ ابونواس کے ہاں عمیق گہرائی اور سطحی پن دونوں ہیں۔ ابونواس اگر خود اس کا اظہار نہ کرے تو بسا اوقات سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔“

یوں تمہاری جی داری اور حوصلے کی بھی داد دینی پڑتی ہے۔ ابوالعتاہیہ جیسا صوفی خدا پرست شاعر مقابلے پر ہو اور مذہبی لوگوں کی جماعتیں بھی تمہارا تیا پانچہ کرنے پر تلی رہتی ہوں تب بھی تم کہتے تھے۔

سرور ملتا ہے مجھے ان کاموں کے کرنے سے
جنہیں روکتی ہے مقدس کتاب میں گریز پا ہوں ان سے
جن کی اجازت دیتی ہے الہامی کتاب

بغداد کے کوچہ و بازار میں اگر ابو العتاہیہ کا صوفیانہ کلام گونجتا تھا

کھا سوکھی روٹی کا ٹکڑا پی ٹھنڈے پانی کا پیالہ
تنہا بیٹھ اور غور کر مقصد حیات کو سامنے رکھ
یہ چند گھڑیاں بہتر ہیں بلند و بالا محلات میں شاہوں کے حضور بیٹھنے سے

وہیں تجھ سے محبت کرنے اور تیرے چاہنے والے تجھے یوں گنگناتے اور گاتے تھے۔

ابونواس، فائدہ اٹھا اپنی جوانی سے جان لے یہ باقی نہیں رہے گی
صبح و شام کی شرابیں ملا نشے کا لطف اٹھا
اور مخمور ہو

ایسا طنزیہ اور تمسخرانہ انداز تھا۔ نگاہیں جو چہرے پر جمی تھیں وہ ان احساسات سے لبالب بھری تھیں۔ بڑی خفت سی محسوس ہوئی تھی۔ ایک تو گرمی اوپر سے شرمندگی۔ مساموں سے پسینہ پھوٹ نکلا تھا۔

”اندھا تھا ابو العتاہیہ۔ ایسے لوگ کیا کہوں۔ میں نے زندگی اس کے حسن و رنگوں کے ساتھ بھرپور انداز میں گزاری ہے۔ کوئی بار بار ملنے والی چیز تھی یہ۔“

میں خاموش ہو گئی تھی۔ یقیناً میں اس وقت اسے وہ سب نہیں سنانا چاہتی تھی جو میرے قلب و ذہن میں شور مچائے جاتا تھا۔ چاند چہرے جیسے لڑکے، ان کے مرمریں بدن، زیر جاموں کی نرماہٹ اور اس کے جاندار بوسے۔ کچھ اپنے بارے میں بھی بتادیں۔ خود سے ملادیں۔

”ارے بھائی ہماری زندگی بس ایسی ہی اجڑی پجڑی سی تھی۔ میری ماں گلبان ایرانی اور پیشے کی جولاہی تھی۔ صورت کی اتنی حسین کہ ہواؤں میں اڑتے پرندے دیکھ لیں تو غش کھا کر سیدھے اس کے قدموں میں گریں۔ نام تو میرا ماں نے الحسن ابن حینی ال حاکمی رکھامگر گاؤں کے من چلوں نے“ ابونواس ”کہنا شروع کر دیا۔

ہاں پیدا کہاں ہوا؟ کچھ پتہ نہیں۔ کسی نے دمشق کہا۔ کسی نے بصرہ اور کچھ اہواز کہتے ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ مجھے تو خود معلوم نہیں۔ ماں نے مجھے یمن کے کسی تاجر کے پاس کیوں بیچ دیا؟ میں کبھی سمجھ نہیں سکا۔ چھوٹا سا تھا۔ یوسف اول جیسا تھا۔ ذہین بھی بہت اور حسین بھی بہت۔ اس نے مجھے دیکھا۔ ولیبہ ابن احباب نے یہ شاعر تھا۔ اس نے مجھے خریدا اور اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔ پڑھائی لکھائی، گرامر، صرف و نحو۔ کوئی دو سال بدوؤں میں بھی رکھا کہ زبان خالص ہو جائے۔ یہ ولیبہ ہی تھا جو مجھے بغداد لایا۔ یہیں میں نے شاعری شروع کی۔ مزاح سے بھرپور۔

صحرائی روایات کے برعکس، شہری زندگی کی عکاس جس میں نوخیز لڑکوں کی محبت اور شراب تھی۔ میں باغی تھا۔ روایات کا، اقدار کا، مذہب کا۔ سرور ملتا تھا جب ملا چیختے چلاتے تھے جب لعن طعن ہوتی تھی۔ قصیدہ گو تھا اپنے سرپرستوں کا۔ برا مکیوں کے لئے کیوں نہ لکھتا۔ وہ تو نگینے تھے جو عباسیوں کو مل گئے تھے۔ عربوں کا عروج، ان کی فتوحات کے پھیلاؤ، ان کی زبان کی وسعت، مذہبی رواداری، آئین و دستور کی بالادستی یہ سب حقائق مسلم۔ لیکن ایرانیوں کے تہذیب و تمدن کی شائستگی، نرمی اور لطافت نے اپنا رنگ ان کے رنگ میں شامل کیا اور اسے مزید نکھارا۔

یہ حقیقت ہے کہ امین کے مرنے پر جو نوحے میں نے تخلیق کیے وہ عربی شاعری کا سرمایہ ہیں۔ زبیدہ کے نالے اور بغداد کی گلیوں میں گونجتے نوحے میری شاعری کے صدقے تھے جنہوں نے مامون کو فتح یاب ہو کر بھی بغداد میں داخل ہونے سے مہینوں روکے رکھا۔ خائف تھا وہ۔

مامون میرا نام سننا نہیں چاہتا تھا۔ ”

”ایک روایت یہ بھی ہے کہ ابونواس تم آخری عمر میں تائب ہو گئے تھے۔ بڑے مذہبی اور خدا پرست بن گئے تھے۔“

”یہ ہوائی تو میرے کسی دشمن نے اڑائی ہوگی۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ جیل اور بڑھاپے نے پریشان کر دیا تھا۔ انعام کے لالچ میں مدح سرائی بھی کی۔ اور ہاں ایک بہت بڑی حماقت بھی سرزد ہوئی کہ مامون کے درباری مشیر نے چالاکی سے علی ابن طالب کے خلاف ہجو بھی لکھوا لی اور اسے بغداد کے کوچہ و بازار میں نشر بھی کر دیا۔ زہر ملا۔ یا جیل میں ہی طبعی موت مرا۔ بس دنیا سے جانے کا بہانہ ہی چاہیے تھا۔ وہ مل گیا اور چلا گیا۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments