باز سے بازی تک


قائد اعظم کے چودہ نکات کے بعد زرتاج گل کے انیس نکات سے متاثرہ افراد کے علاوہ کرونا میں سب سے زیادہ جو مخلوق ”متاثر“ ہوئی وہ خاوند حضرات ہیں جو کرونا کے بعد بیوی کی اس ”پیار بھری“ عادت سے تنگ ہیں کہ جانو یہ کرونا، یہ کر لیا ہے تو اب وہ کرونا، آسان مفہوم میں جانو جھاڑو لگا لیا تو برتن دھو لو نا، کپڑے دھو لئے ہیں تو جھاڑو پونچھا بھی لگا لو نا۔ بہرحال کرونا کے حوالے سے مسلسل بری خبروں کے ہجوم میں ایک اچھی خبر بلکہ عظیم خوشخبری ہے کہ مارچ سے شروع ہونے والے کرونا کے طفیل لاک ڈاؤن کے ”صحت مندانہ نتائج“ نومبر، دسمبر میں آنا شروع ہو جائیں گے، انشاء اللہ۔

یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ کرونا کی آمد سے پہلے ہی ہمارے خطے میں پائے جانے والے نایاب و خاص باز تو عرب شہزادے لے اڑے۔ لیکن ہمارا ملک آج بھی انواع و اقسام کے دیگر نایاب و خاص بازوں سے پر ہے جیسے۔ کبوتر باز۔ بیٹر باز۔ شعبدہ باز۔ رنگ باز۔ نوسر باز۔ اور کچھ دیگر ممنوعہ باز۔ ۔ ۔ دن میں کئی بار کسی نہ کسی قسم کے باز سے واسطہ پڑتا رہتا ہے تو سوچا کہ کیوں ناں لفظ باز پر ہی کچھ تحریر ہو جائے۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ باز فارسی زبان کا لفظ ہے اور فارسی سے اردو میں ماخوذ ہے۔

عام طور پر مرکبات میں بطور سابقہ مستعمل ہے جیسے بازیافت، باز پرس وغیرہ۔ 1611 میں ”قلی قطب شاہ“ کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔ باز ایک شکاری پرندے کا نام بھی ہے جس کی پیٹھ سیاہ اور آنکھیں سرخ ہوتی ہیں اور صنفی لحاظ سے یہ مادہ ہے نر کو جرہ یا شاہین کہتے ہیں۔ بازکوپکڑنے کے بعد اسے سدھانے کے سلسلے میں بنیادی کام اسے انسانی آوازوں سے مانوس کرنا ہوتا ہے۔ چند دنوں تک باز پرور دائیں ہاتھ پر ہرن (غزال مشک) کی کھال کا دستانہ چڑھا کربازکو اس پر بٹھایا جاتا ہے۔ چند دنوں کے بعد جب باز انسانی آوازوں، شور و غل اور ہاتھ پربیٹھنے سے مانوس ہوجاتا ہے تو اس کی ٹانکی ہوئی آنکھوں کوکھول دیا جاتا ہے۔

روایات سے معلوم ہوا کہ علامہ اقبال نے بھی ڈیرہ اسماعیل خان کے محلہ لغاری میں پالتو باز دیکھ کر اپنی شاعری میں شاہین کا تصور پیش کرنا شروع کیا۔ لفظ باز سے متاثر ہوکر 1970 میں پاکستانی فلم ”بازی“ بنی جس میں ندیم، نشو، محمد علی اور رنگیلا نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے لیکن اس فلم بازی میں رنگیلا کی اداکاری سب سے بازی لے گئی۔ ویسے اردو کے بہترین ناولوں میں شکیل عادل زادہ کا طویل ترین ناول ”بازی گر“ بھی سب ناولوں پر بازی لے چکا ہے۔

لیکن آج کل باز کی جگہ نوسر بازوں نے لے لی ہے جو باز تو باز انسانوں کو بھی ٹوپیاں پہنا رہے ہیں۔ ویسے لفظ نو سربازدراصل تین الفاظ کا مرکب ہے جس کا لفظی ترجمہ نئے سر کو مارنے والا یا غلط العام میں اس کو نو 9 سروں کی بازی جیتنے والا اور 9 بندوں کو بیوقوف بنانے والے دھوکے باز شخص کو کہتے ہیں۔ ایسے نوسر باز اشخاص کو تاش کی بازی کی طرح الٹ دینا چاہیے اور پکڑ کر خربازیاں دینی چاہیں۔ مجھے ذاتی طور پر نوسر باز لفظ سے زیادہ لفظ کبوتر باز پسند ہے۔

کیونکہ ہمارے محلے میں کافی گھرانے ایسے ہیں جہاں باقاعدہ خاندانی ورثہ کی طور پر کبوتر اڑائے جاتے ہیں۔ ان سے اٹھ بیٹھ کی وجہ سے کبوتروں کے نام و اقسام مجھے بھی ازبر ہیں۔ جیسے سیاہ چپ، خال، شینڑا، چوٹی دار، لال چپ، سبز، مکھیا وغیرہ لڑاکا اور ٹکڑی والے کبوتر ہیں۔ پالتو اور اڑان والے کبوتروں کے علاوہ ایک بے چاری ”کٹی“ ہوتی ہے۔ کٹی ایسی مادہ کبوتر کو کہتے ہیں جس کی دم کے پر کاٹ دیے جاتے ہیں تاکہ اس کی پشت نوکدار رہے۔

کبوتروں کو جب پرواز سے واپس بلانا ہو تو کٹی کو پکڑ کے اس کے پر کھول کے پھڑ پھڑا کے لہرا کے محوپرواز کبوتروں کی جانب رخ کر کے آ آ آ آؤ آؤ پچ پچ کی آوازیں نکالتے ہوئے کبوتروں کو واپسی کا بلاوا دیا جاتا ہے۔ بقول شخصے کہ ”کبوتر باز کی نگاہ ہمیشہ آسمان پہ رہتی ہے“ یہ نگاہ بلند اسے ٹھوکر کھانے کا سبب بھی بنا دیتی ہے۔

بہرحال ہر قسم کی بازی سے زیادہ آج کل سوشل میڈیا پر کرونا کے علاج کی ٹوٹکہ بازی ایسے ابل رہی ہے جیسے بارش میں شہر کی گلیاں گندگی ابلتی ہیں۔ لہسن، پیاز بلکہ انواع و اقسام کے قہوؤں کی ٹوٹکہ بازی۔ یعنی ٹوٹکہ بازوں نے ارض و سما ایک کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اور تو اور ذہین عوام نے ٹوٹکہ بازوں کے اشارے پر جراثیم کش اسپرے ہی غٹک لئے۔ اور وبائی مرض کی بجائے ٹوٹکوں سے ہی زندگی سے مکتی پائی۔ ان نیم حکیم ٹوٹکہ بازوں نے عوام کو کورونا سے بچاؤ کی آگاہی کیا دینی تھی بلکہ ان کورونا بازوں کی وجہ سے اس خطے میں کورونا مذاق بن کر رہ گیا ہے۔

اور اب کورونا عوام سے مذاق کر رہا ہے۔ ان کورونا بازوں نے عوام کو بے تکی وٹامن پھانکنے۔ خود رو جڑی بوٹیوں کا قہوہ پینے۔ سخت گرمی میں گرما گرم پانی پینے اور اس کی بھاپ لینے پر لگا دیا۔ یہ بھی نہیں سوچا وٹامن ڈی اور سی کی جسم میں زیادتی کے کیا مضمر اثرات ہوتے ہیں۔ مشہور کالم نگار گلزار احمد خان کے بقول ”یہ نیم حکیم پندرہ دن کورونا وارڈ میں گزاریں اور اپنے ٹوٹکوں سے علاج کر کے کورونا کے مریضوں کو تندرست کر کے اپنے سینوں پہ مسیحا کا تمغہ سجائیں“ ۔ اتنی زیادہ بازیوں کے ہوتے ہوئے بھی آج کل سیاستدانوں کی بجٹ سے زیادہ بیان بازیاں جاری ہیں، دعا کریں کہ سیاستدان بس بیان بازی تک رہیں مکے بازی تک نہ جائیں۔

شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس نے میر کا یہ شعر سنا یاپڑھا نہ ہو جس میں انہوں نے بھی باز کو استعمال کیا ”میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں۔ ساری مستی شراب کی سی ہے“ اب بندہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ہم نے تو آج تک یہی سنا کہ نیم کی شاخوں کا استعمال بطورمسواک بہت فائدہ مند ہے کیونکہ نیم کے پتے جراثیم کش ہوتے ہیں، یہ نیم باز آنکھیں کون سی ہوتی ہیں؟ ہاں پروین شاکر نے بازی کو خوب استعمال کیا۔

اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی
جیتوں تو تجھے پاؤں، ہاروں تو پیا تیری۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments