ملک ابرار احمد: عزیز سب کو تھا


کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جس نے اٹھائیس بار ”چوڑیاں“ فلم دیکھی ہو، یقیناً جانتے ہوں گے مگر میں جس بندے کی بات کر رہا ہوں اس نے اٹھائیس دوستوں کو فردا ”فردا“ یہ تفریح اپنی جیب سے کرائی۔ اکیلے وہ کتنی بار سینما ہال میں بیٹہ کے سید نور کے گن گاتا رہا ہو گا یہ مجھے نہیں پتا۔

آپ کسی ایسے سخی کو جانتے ہیں جو ہر روز کسی ”مستحق“ دوست کو لاثانیہ ہوٹل کے اے سی والے ٹھنڈے ہال میں لے جاتا ہو اور گرما گرم مٹن کڑاہی ’چکن جنجر‘ سیخ والے لمبوترے کباب اپنے زور بازو سے کھلاتا ہو اور کھیر ختم ہونے سے پہلے پہلے آئس کریم۔ منگوا لیتا ہو۔ میں اس سخی کا ایک ایسا ہی ”مستحق“ دوست رہا۔

کیا آپ کے حلقہ احباب میں ایسا کوئی ”فیاض“ موجود ہے جو دسمبر کی پہلی رات کو آپ کو کمبل سے نکال کے راتوں رات لائلپور سے مری پہنچا دے اور جب آپ کی آنکھیں ”کوہ مری کے پہاڑوں کو ٹھیک سے دیکھنے کے قابل ہو رہی ہوں تو اگلی شام ڈھلنے سے پہلے آپ کو واپس اسی“ لائلپوری ”کمبل میں پہنچا دے۔ کمال اس کوہ قاف کے سفر میں یہ ہو کہ آپ کی جیب سے دھیلا بھی نہ نکلے اور آپ مری کی ٹیکسیاں جھول آئیں ’بھوربن کے چکن پکوڑے چٹیا لیں‘ پتریاٹہ کی“ وہیل چئیر ”کا مزا بھی لیں اور نتھیا گلی کے گھوڑوں پر سوار ہو کے سیلفی بھی۔ بنا لیں (جس کے نیچے لکھنا پڑے کہ یہ گھوڑا ہے اور وہ میں ہوں )

کیا آپ کسی ایسے مہربان سے واقف ہیں جو شام کے اندھیرے میں ٹفن اور ہاٹ پاٹ سمیت آپ کے فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھے، کچن سے میلے گلاس اور گندی پلیٹ کو دھو کے آپ کے بستر پر پہنچا دے۔ آپ بیڈ پر چوکڑی جما کے ٹفن اور ہاٹ پاٹ میں موجود تکہ بوٹی کی تکہ بوٹی، بروسٹ کا بھوسٹ کر رہے ہوں اور وہ مہربان آپ کے بے ترتیب کمرے کو ”بندے کا پتر“ بنا رہا ہو۔ آپ کے روغنی نان اور چپل کباب ڈکارنے سے پہلے اس نے آپ کے کچن کے ”سارے برتن“ (دو پلیٹیں دو چمچ دو گلاس) دھو کر شیشے کی طرح چمکا دیے ہوں۔ وہ جانے سے پہلے آپ کے کمرے کی ڈسٹنگ ’جھاڑو لگانے کے بعد کر دے اور آپ کی بدرنگی پتلون شرٹ کو سرف والے پانی میں بھگو نچوڑ کر سوکھنے کے لئے پھیلا بھی دے۔ آپ اپنے ہی گھر کو پہچان نہ سکیں۔ میرے ”چھڑے پن“ کے دنوں میں اس مہربان کے ہاتھوں یہ کرشمہ کئی بار میں نے دیکھا۔

آپ کی یادداشت میں کوئی ایسا حاتم طائی ہے جس کی اپنی جیب خالی ہو مگر آپ کی خالی جیب دیکہ کر اس کی نیند اڑ جائے۔ وہ کہیں سے بھی لائے، کسی سے بھی لائے مگر آپ کے کھیسے میں ڈالے بغیر اسے چین نہ آئے۔ ایک بار نہیں کئی بار میری ”پاکباز“ آنکھوں نے یہ منظر دیکھا ہے کسی نے کہ دیا ”بجلی کا بل آ گیا ہے اور پیسے نہیں“ بس یہ کہہ کے اس کی حاجت مند کا فرض پورا ہوا اب ہمارے اس مہربان کی اپنی جیب میں بجلی کے بلب کے پیسے بھی بے شک نا ہوں مگر اس ”سوالئے“ کا بل بجلی پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا ہو گا۔ کسی کی بیوی بیمار ہے، کسی کے بیٹے کی سکولل فیس نہیں ’کسی کی سایئکل چوری ہو گئی تو غم نہیں۔ ۔ ۔ ہمارا یہ حاتم طائی ”تھا“ ناں۔

اسے ”تھا“ لکھتے ہوئے میرا دل بہت دکھا ہے ’ایسے لوگ کم جیتے ہیں مگر ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

کئی سال پہلے میں اس کی شادی پر دوستوں کے ساتھ گیا تھا۔ لائلپور سے اس پہاڑی علاقے تک۔ پہنچنا ہی ایک جان لیوا سفر تھا ( جان لیوا سے یہاں مراد جاننے والا) مزا البتہ بہت آیا رستے میں ہم لوگوں نے خوب ہلا گلا کیا ’انگریزی گانے پنجابی میں گائے اور پنجابی ٹپے انگلش میں۔ ڈھول بھی بجا‘ اونٹ ڈانس طرز کا رقص بھی کیا مگر جب منزل کے قریب پہنچ کے ایک بزرگ نے سر آسمان کی طرف کرکے انگلی اٹھا کے جیسے چاند کی طرف اشارہ کرتے ہیں بڑی شگفتگی سے کہا ”بارات نے اوپر وہاں جانا ہے“ تو ہمارا اوپر کا سانس اوپر نیچے کا نیچے۔ کوہ ہمالہ جیسی پہاڑیوں کو دیکھنے کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ ہم چل پڑے اوپر ’پہاڑی رستے پر دولہا میاں کو پیچھے سے دھکا لگاتے ہوئے اور جہاں کہیں موقع ملتا اس کے نوٹوں والے ہار سے چوری چوری دس دس پانچ پانچ والے نوٹ الگ الگ کر کے اپنی الگ الگ جیبوں میں۔ ۔ ۔

کئی سال پہلے میں نے اس پیارے کی بارات میں جا کے پہاڑوں کا حسن دیکھا، پہاڑیوں کی میزبانی کا لطف لیا ’قدرتی چشمے کا ٹھنڈا پانی پیا اور گاؤں کا حلوہ کھایا کٹے کے گوشت کا سواد لیا۔ تب سوچا تھا میں اس سفر بارے لکھوں گا، نہ لکہ سکا۔

کچہ سال پہلے میں پھر دوستوں کے ساتھ اسی سفر پہ نکلا۔ وہی راستے تھے وہی منزل تھی۔ ڈھول باجے نہیں تھے ’بارات والی سجی سجائی کار بھی نہیں تھی۔ اب کی بار ہم پہاڑوں کے اوپر نہیں گئے‘ نیچے ہی۔ ۔ ۔ چھوٹا سا قبرستان تھا ’تازہ کھدی ہوئی ایک قبر تھی جس کے اندر ہم نے اپنے اس پیارے کو آرام سے لٹا کے مٹی میں سلا دیا‘ اسے آنسوؤں کی سلامی دی۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں اس کی میت اسی گھر میں رکھی گئی جہاں ہم کئی سال پہلے اس کی بارات لے کر گئے تھے یا کسی اور صحن میں۔

اتنا یاد ہے ایک خاتون غش کھاتی دھاڑیں مارتی آکے مجھ سے لپٹ گئی۔ وہ اس پیارے کی بہن تھی جو ہمارا دوست تھا، گاؤں میں بھائی کا دوست بھی بھائی ہوتا ہے یہ دیکھ کے دل خوش ہوا مگر بہنوں کے بین سن کے وہی دل خون کے آنسو بھی رویا۔ تب مجھے پہاڑ اچھے لگے نہ چشمے کا ٹھنڈا پانی۔ سارے منظر ہی پھیکے ہو گئے تھے، بد رنگ سے۔

میں نے سوچا تھا اس سفر کے بارے میں بھی کچہ لکھوں گا، نہیں لکہ سکتا۔ میں تو اس پیارے کا نام تک نہیں لکہ سکتا جس کی بارات میں پہاڑوں والے گاؤں گیا تھا اور پھر اسی کی ایمبولینس کے ساتھ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments