پاکستانی معاشرہ اور مسجد کا ”انسٹی ٹیوشن“


اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں علاقے اور آبادی کے تناسب سے دنیا میں سب سے زیادہ مساجد ہیں تو شاید غلط نہیں ہوگا تقریباً ہر گلی اور محلے کی اپنی مسجد ہے جو وہاں کے مخیر حضرات کی زکٰوۃ خیرات یا عطیات کی مرہون منت ہوتی ہے اکثر محلوں میں تو ایک سے زیادہ مساجد بھی موجود ہیں جس کی وجہ فرقہ وارانہ اور نظریاتی اختلافات ہیں اسی لیے شاعر کو کہنا پڑا!

”ایک پاسے میرے رہن وہابی اک پاسے دیوبندی
آگے پیچھے شیعہ سنی ڈھاڈی فرقہ بندی
وچ وچا لے ساڈا کوٹھا قسمت ساڈی مندی
اک محلہ اٹھ مسیتاں کہدی کراں پابندی ”

خیر اس وقت ہمارا موضوع یہ اختلاف نہیں اور نہ ہی یہ بحث ہے کہ اس مائنڈ سیٹ نے ہمارے معاشرے پر کیا خوفناک اثرات مرتب کیے ہیں۔ ہم تو صرف یہ دیکھنا چاہ رہے ہیں کہ جو لوگ مساجد کو کمیونٹی سنٹر کا درجہ دیتے ہیں ان کی یہ بات ہمارے معاشرے پہ کس حد تک درست ثابت ہوتی ہے۔ دراصل ہمارا معاشرہ گزشتہ تین چار دہائیوں میں بڑی تیزی سے رجعت پسندی کا شکار ہوا ہے جس کے نتیجے میں لوگوں نے اپنے تمام مسائل کا حل، رزق میں اضافہ، بچوں کی نوکریاں، بیٹیوں کی شادیاں، باہر کے ویزے اور جنت میں گھر اپنے اپنے فرقے کی مسجد کو چندہ دینے سے جوڑ دیا ہے نتیجہ کے طور پر مساجد کی تعداد مین بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔

اس میں ان کا قصور بھی نہیں کیوں کہ مسجد میں موجود امام صاحب دن رات ان کو یہی feed کرتے پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی دولت کو پاک کرنے کے لئے بھی مساجد کو عطیات دے کر اپنا Guilt کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یا پھر اگر کسی کو اپنے علاقے میں معتبر کہلانا ہو تو بھی یہ طریقہ کافی کارگر ثابت ہوتا ہے۔

لاہور کی ایک مسجد کے امام صاحب سے میری اچھی بنتی تھی ایک تو وہ میرے ہم عمر تھے دوسرا ان کا حس مزاح بھی خوب تھا ایک دن کہنے لگے اس ماہ مسجد کا بجلی کا بل بہت زیادہ آ گیا ہے اور پیسے کم ہیں، میں نے پوچھا کہ اب آپ کیا کریں گے؟ کہنے لگے کرنا کیا ہے speaker کھولوں گا اور کہوں گا اللہ والیو جنت میں گھر آپ کا منتظر ہے اور آپ لوگ گھروں میں بیٹھے ہیں نکلو اور مسجد کی خدمت کرو۔ ”چلے بھی آؤ کہ مسجد کا کاروبار چلے“ (انہوں نے اور بھی بہت کچھ کہا جس کا ذکر ضروری نہیں)

خیر مساجد کے انتظامی معاملات تو ہمارے ہاں اسی طرح انجام دیے جاتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ہر فرد کسی نہ کسی طریقے سے مسجد کے معاملات میں involve ہوتا ہے، کچھ کم اور کچھ زیادہ، اگر کوئی روز مسجد نہیں بھی جاتا تو جمعہ کی نماز میں کافی بڑی تعداد ہر مسجد میں موجود ہوتی ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسجد کا ہماری زندگیوں میں اس قدر اہم کردار ہونے کے باوجود یہ ادارہ فرد کی کردار سازی کیوں نہیں کر پا رہا، کیوں کہ جس طرح سے مساجد اور نمازیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اس طرح سے معاشرے کی اعلی اقدار اور civic values نہیں بڑھ پا رہیں۔

اس کی سب سے بڑی وجہ مسجد کے ادارے کا emphasis on rituals only ہے۔ مسجد کے امام صاحب آپ کو عبادات کا تو پورا زور لگا کر بتائیں گے لیکن رشوت نہ لینا، کسی کا حق نہ مارنا، غلط طریقوں سے دولت نہ کمانا قانون کی پابندی کرنا، بجلی چوری نہ کرنا، دوسرے نظریات کو برداشت کرنا وغیرہ کا ذکر ہی نہیں کریں گے یا پھر سطحی سا ذکر کرکے آگے چل پڑیں گے۔ اور اکثر ان تمام برائیوں کے بعد صرف عبادات کو فرد کی نجات کا ذریعہ بتاتے ہیں، یہ سب سے خوفناک سچوئیشن ہے، اگر ایک فرد کو یہ یقین ہو جائے کہ ایسے تمام گناہوں کے بعد صرف عبادت اس کا کفارہ بن جائے گی تو معاشرہ درست کیسے ہو سکتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ عبادات کے ساتھ مسجد کا زور معاشرتی برائیوں پر بھی اتنا ہی ہوناچاہیے بلکہ تھوڑا زیادہ ہونا چاہیے کہ ان برائیوں کے ساتھ عبادت صرف ایکسرسائز ہی رہتی ہے نجات نہیں بنتی۔

اگر ہماری حکومت یا وہ طاقتور ترین حلقے جو مذہبی بنیادوں پر دھرنے کروانا بھی جانتے ہیں اور اٹھانا بھی، معاشرے کی کردار سازی میں سنجیدہ ہیں تو مسجد کے ادارے کو کمیونٹی سنٹر کے طور پر مثبت طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے (جس سے شاید ”بغیر چندہ دیے“ ان کے اپنے گناہ بھی دھل جائیں۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments