’اگر مطیع اللہ کو کچھ ہوا تو وزیراعظم ذمہ دار ہوں گے’


پہلے منظر میں مختلف چارٹس پکڑے پریس کلب اسلام آباد کے باہر کچھ صحافی احتجاج کر رہے ہیں۔ دارالحکومت کے اسی سیکٹر میں ایک سکول کے باہر سے صحافی مطیع اللہ کو چند گھنٹے پہلے اغوا کیا گیا ہے۔

دوسرے منظر میں وزیر اطلاعات شبلی فراز کی پریس کانفرنس کا آغاز کرنے لگے تھے کہ کچھ صحافی کھڑے ہوئے اور انھوں نے کہا کہ پریس کانفرنس کا بائیکاٹ ہو گا تب تک جب تک صحافی مطیع اللہ کو بازیاب نہیں کروا لیا جاتا۔

تیسرا منظر صحافیوں کا اسمبلی اجلاس سے واک آؤٹ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم ایوان کا اجلاس کور کرنے کے لیے پریس گیلری میں نہیں آئیں گے ہمیں بتایا جائے کہ مطیع اللہ کو کیوں پکڑا گیا۔

اور پھر خاموشی پاکستان میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کی اس ٹویٹ سے ختم ہوتی ہے کہ انھوں نے آئی جی اسلام آباد سے رابطہ کیا ہے۔ یہ ایک تشویشناک بات ہے۔

پاکستان میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر سب سے زیادہ بات منگل کی صبح سے سینئر صحافی کے اغوا پر کی جا رہی ہے۔

https://twitter.com/Matiullahjan919/status/1285519178645024769

ان کے بیٹے نے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے یہ اطلاع دی کہ ’ مطیع اللہ جان، میرے ابو کو دارالحکومت اسلام آباد کے مرکز سے اغوا کر لیا گیا ہے۔ میں ان کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتا ہوں اور اس کے پیچھے موجود ایجنسیوں کو فوری طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ خدا ان کی حفاظت کرے۔‘

حکومت نے تصدیق کی ہے کہ صحافی کو اغوا کیا گیا ہے لیکن کس نے کیا، حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس کی تفصیل سے آگاہ نہیں۔

کسی صحافی کا اغوا یا قتل پاکستان کے مرکز میں ہو یا مواصلاتی رابطوں سے بھی دور کسی مقام سے کچھ نیا نہیں ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کو صحافیوں کے لیے ایک خطرناک ملک تصور کیا جاتا ہے۔

مطیع اللہ کو بزور طاقت نامعلوم افراد کی جانب سے گاڑی میں بٹھا کر لے جانے کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھیں تو لاپتہ افراد خاندانوں کی جانب سے سنائی جانے والی ان گنت کہانیاں پھر سے ذہن میں آتی ہیں جنھیں گھر سے اٹھایا جاتا ہے۔

اس وقت سماجی رابطوں کی ویٹ سائٹ ٹویٹر پر پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈز میں مطیع اللہ کا نام اور ان کی بازیابی کا مطالبہ دکھائی دے رہا ہے۔

https://twitter.com/nausheenyusuf/status/1285560375153491968

مطیع اللہ کو واپس لائیں

ٹوئٹر پر یہ ہیش ٹیگ ٹرینڈ #BringBackMatiullah کر رہا ہے۔

https://twitter.com/a_siab/status/1285523419170320392

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما افراسیاب خٹک نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں صحافی کے اغوا کی مذمت کی اور لکھا کہ ‘ اسلام آباد میں پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور میڈیا کی ناک تلے صحافی کا لاپتہ ہونا سنگین نوعیت کی توہین ہے۔ اگر پالیمنٹیرنز، جج اور صحافی کچھ اور نہیں کر سکتے تو شاہراہ دستور پر احتجاج تو کر سکتے ہیں۔

https://twitter.com/asmashirazi/status/1285534553130532864

صحافی اور اینکر پرسن عاصمہ شیرازی نے اپنے پیغام میں لکھا تین گاڑیاں، ایک ویگو اور ایک ایمبولینس جبکہ یونیفام میں ملبوس لوگ مطیع اللہ کو اٹھا رہے ہیں۔

https://twitter.com/mariarshd/status/1285528279013826567

ماریہ رشید نامی صارف نے سی سی ٹی وی فوٹیج کو ری ٹیویٹ کرتے ہوئے اغوا کاروں کے نام اپنے پیغام میں لکھا کہ جب آپ کسی کو اغوا کرتے ہیں تو آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ سچ کے لیے کھڑا ہے۔

جب آپ کسی کو اغوا کرتے ہیں تو آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ قانون سے بالاتر ہیں۔

آپ اسے دوسروں کو خوفزدہ کرنے کے لیے کرتے ہیں لیکن یہ بھی آشکار کرتے ہیں کہ آپ خود کتنے خوفزدہ ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر نے اپنے اکاؤنٹ سے منگل کو سینٹ کی فنکشنل کمیٹی نبرائے انسانی حقوق کے 22 جولائی یعنی کل صبح گیارہ بجے بلوائے گئے اجلاس کا نوٹس شیئر کیا۔ جس کے مطابق آئی جی اسلام آباد کو مطیع اللہ جان کے اغوا کے حوالے سے بریفنگ دینے کے لیے بلوایا گیا ہے۔

https://twitter.com/Mustafa_PPP/status/1285535304812769282

پی ٹی ایم کے رہنما منظور پشتین نے سینئر صحافی کے اغوا پر ملکی اداروں کی خاموشی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

https://twitter.com/ManzoorPashteen/status/1285526259209052160

مسلم لیگ کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہے کہ اگر مطیع اللہ کو کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری عمران خان پر ہو گی۔

اپنے ٹوئٹر پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ ’سینئر صحفی مطیع اللہ جان کی گمشدگی انتہائی قابل مذمت اور باعث تشویش ہے۔ حکومت کی جانب سے میڈیا اور تنقیدی آوازوں کو دبانے کی مہم شرمناک ہے۔ اگر مطیع اللہ کو کچھ ہوا تو وزیراعظم اس کے ذمہ دار ہوں گے۔‘

https://twitter.com/CMShehbaz/status/1285566704840572929?s=19

آخری اطلاعات یہ ملیں کہ مطیع اللہ جان کے اغوا کی ایف آئی آر کٹ گئی ہے۔ تھانہ آبپارہ میں رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ ابھی تفتیش ہو رہی ہے ٹیمیں روانہ ہو رہی ہیں۔

https://twitter.com/BBhuttoZardari/status/1285560327833358339

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو نے اپنے پیغام میں سینئر صحافی کے اغوا پر تشویش کا اظہار کیا اور حکومت سے ان کی بازیابی کا مطالبہ کیا ان کا کہنا تھا کہ یہ فقط میڈیا کی آزادی پر حملہ نہیں ہے ہم سب پر ہے آج وہ مطیع اللہ ہیں کل آپ یا میں ہو سکتا ہوں۔

https://twitter.com/MunizaeJahangir/status/1285527128541409280

صحافی و اینکر پرسن منیزے جہانگیر نے اپنے پیغام میں لکھا کہ ایک صحافی کی حیثیت سے اس ملک میں خوف کے بغیر کام کرنا ممکن نہیں رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ مطیع اللہ کے اسلام آباد سے اغوا پر ہم ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے۔

صحافی نجم سیٹھی نے مطیع اللہ کی بازیابی کے لیے ایک آن لائن پٹیشن شروع کی ہے جس پر اب تک تین ہزار سے زیادہ افراد سائن کر چکے ہیں۔

https://twitter.com/najamsethi/status/1285512791793836034

سینئر صحافی و اینکر پرسن نسیم زہرہ نے اپنے پروگرام میں مطیع اللہ جان کو لے جانے والوں کو پیغام میں کہا خدارا اس طریقہ کار کو چھوڑیں۔

https://twitter.com/NasimZehra/status/1285616635009736706

وہ کہتی ہیں ’ہم بہت سے امور پر مطیع اللہ سے متفق نہیں لیکن وہ نکتہ نہیں ہے۔ پاکستان کا جو آئین ہے وہ سر آنکھوں پر۔ ایک آزادی اظہار ہے اور وہ بھی آئین میں ہے پاکستان کے قوانین کا استعمال کریں خدارا یہ طریقہ کار غلط ہے اٹھانے کے لے جانے کا۔ مطیع اللہ جان کو گھر واپس پہنچنا چاہیے۔ آپ نے جو بھی کیس کرنا ہے۔۔۔‘

لیکن ایک ٹرینڈ اس سارے واقعے کو ڈرامہ قرار دے رہا ہے۔ اور صارفین کہتے ہیں کہ کورونا کی وجہ سے کوئی سکول نہیں کھلا ہوا اور چونکہ ان کی پیشی تھی کل اس لیے یہ کیا گیا۔

دوسری جانب صحافی حامد میر کے پروگرام کے اختتام کے بعد ان کی ٹویٹ کہ ’کچھ باثر لوگوں نے ان کے پروگرام کا آخری حصہ جو مطیع اللہ جان کے بارے میں تھا سینسر کر دیا ہے۔ اب میں پر یقین ہوں کہ انھیں پولیس نے اغوا نہیں کیا وہ بہت محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔

https://twitter.com/HamidMirPAK/status/1285608211752656898

انڈیپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں مطیع اللہ جان کے بیٹے اور اہلیہ کی نظر میں یہ اغوا نہیں ہے انٹیلیجنس والوں کی کارروائی ہو سکتی ہے یا جو نکات وہ عدالت میں بولنا چاہتے ہیں ان سے روکا جا رہا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر شیئر ہونے والی ویڈیو میں ان کے بیٹے عبدالرزاق کے الفاظ کچھ یوں تھے۔

’مضحکہ خیزی دیکھیں یہ جی سکس او تھری کا ایریا ہے۔ سامنے لال مسجد ہے۔ وہ کورڈن آف ہے۔ سکول ڈھونڈیں تو راستہ ملتا نہیں ہے۔ساتھ دو بلاک چھوڑ کر آئی ایس آئی کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ اسلام آباد کے حساس ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ گیارہ لوگ وہاں گاڑیوں اور یونیفارم میں موجود تھے۔۔۔ اس بات کی مضحکہ خیزی سنیں بغیر کسی تحقیق کے وہ کہتے ہیں کہ اغوا ہوئے ہیں۔ اگر اغوا ہوئے ہیں تو ہماری اعلیٰ درجے کی ایجنسیوں کی ناک تلے سے اغوا ہوئے ہیں۔۔۔۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32472 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp