تہذیب و شائستگی کا استعارہ۔۔۔ ڈاکٹر شبیر احمد قادری


ڈاکٹر شبیر احمد قادری سے میرا اولین تعارف آج سے بیس برس قبل اس وقت ہوا جب میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد (جو اب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد ہے) کے شعبہ اردو سے بطور لیکچرار (پوسٹ گریجوایٹ کلاسز) وابستہ ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب شعبہ اردو کی لائبریری ’کمرہ جماعت اور اساتذہ کے دفاتر ”اقبال ہال“ میں تھے۔

ایک پروقار اور سنجیدہ شخصیت کے مالک ایسے استاد جن کی رہنمائی میں میں نے ”شیلٹر“ فیصل آباد کے ادبی صفحے کی ادارت اور اس ادارے کے زیراہتمام منعقد ہونے والے مشاعروں کی نظامت میں بھرپور حصہ لیا۔ میری نثموں کا پہلا مجموعہ ”شبنم سے مکالمہ“ شائع ہوا تو ریڈیو پاکستان فیصل آباد کے پروگرام ”دبستان“ کے لیے میرے اولین انٹرویو میں بھی ڈاکٹر شبیر احمد قادری ہی نے مجھ سے سوالات پوچھے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انٹرویو کے پہلے سوال میں شبیر احمد قادری نے اچھی خاصی تمہید کے بعد میری شاعری کے حوالے سے ایک سوال کیا اور میرا مختصر جواب سن کر پریشان ہوگئے مگر براہ راست نشر ہونے والے پروگرام میں الفاظ کے ذریعے اپنی حیرت کا اظہار نہ کرسکے۔

قادری صاحب کے چہرے کے تاثرات سے مجھے بخوبی اندازہ ہوگیا کہ جواب میں تفصیلات اور جزیات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ انٹرویو کے بعد ڈاکٹر صاحب خوب مسکرائے تھے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں نے تحقیق ’تنقید‘ اور ادارت کے حوالے سے ڈاکٹر شبیر احمد قادری سے بہت مفید باتیں سیکھیں۔ شبیر احمد قادری صاحب 2006ء میں کچھ عرصے کے لیے ہمارے شعبہ کے انچارج بھی رہے۔ اس دوران مں بھی ان کا برتاؤ بہت مشفقانہ اور رویہ مدبرانہ رہا۔

ڈاکٹر شبیر احمد قادری نے میرے ابتدائی شعری مجموعوں کے دیباچے بھی تحریر کیے جو بلامبالغہ میرے لیے اعزاز ہے۔ شعبہ اردو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں ان کی موجودگی ہمیشہ باعث برکت رہی ہے۔ 2007ء میں ایک حادثے کے سبب انھیں چند ماہ گھر رہنا پڑا اور ان کی عدم موجودگی میں شعبے کی تمام ذمہ داریاں صرف چار اساتذہ کے کاندھوں پر آن پڑیں جن میں ڈاکٹر محمد آصف اعوان ’ڈاکٹر محمد ارشد اویسی‘ ڈاکٹر سعید احمد اور میں شامل تھی۔ بلاشبہ یہ ایک کٹھن دور تھا۔

میں نے ہمیشہ ڈاکٹر شبیر احمد قادری کو اپنے شعبے اور شاگردوں کے ساتھ بہت مخلص دیکھا۔ وہ شاگردوں سے ایک مناسب فاصلے کا ہمیشہ اہتمام کرتے اور کبھی کسی شاگرد کو اس امر کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ اپنے تحفے تحائف کے ذریعے ان پر اثرانداز ہو سکے۔ ان تحائف کو عرف عام میں ہدیہ یا نذرانہ بھی کہا جاسکتا ہے۔

تہذیب و شائستگی کی علامت اس استاد نے ہر کٹھن وقت کا جواں مردی سے سامنا کیا۔ ڈاکٹر شبیر احمد قادری کم گو ہیں لیکن جب گفتگو پر آمادہ ہوں تو ان کے الفاظ بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دیتے ہیں۔ ڈاکٹر شبیر احمد قادری اردو کی اس معدوم ہوتی تہذیب کا استعارہ ہیں کہ جس سے وابستہ ایک ایک نشان کو نہایت احتیاط سے سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ وہ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہورہے ہیں لیکن میں امید کرتی ہوں کہ اب وہ اپنے نامکمل ادبی کاموں کی طرف بھرپور توجہ کریں گے۔ ان کی اچھی صحت ’طویل عمر‘ خوشی ’خوش حالی اور آسودگی کے لیے بہت دعا۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments