عثمان بزدار: وزیرِاعلٰی پنجاب کو کون ہٹانا چاہتا ہے اور وہ ہر بار کیسے بچ جاتے ہیں؟


ایک مرتبہ پھر منظر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا تھا اور پھر وہی کہانی دہرائی گئی۔ گذشتہ چند روز سے مقامی ذرائع ابلاغ میں پنجاب کے وزیرِاعلٰی عثمان بزدار کے جانے کی خبریں گرم تھیں۔

پھر وزیرِاعظم عمران خان نے حال ہی میں لاہور کا دورہ کیا اور اب خبر یہ ہے کہ وزیرِاعلٰی عثمان بزدار کہیں نہیں جا رہے۔ وزیراعظم کے لاہور آنے اور جانے میں تاہم صوبے کے نظامِ حکومت میں دو تبدیلیاں آئیں جو بظاہر معمول کی کارروائی معلوم ہوتی ہے۔

پہلے ان کے دورہ لاہور کے ایک ہی روز بعد چند ہی دن قبل تعینات کیے گئے کمشنر لاہور کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ پھر جنگلی حیات اور ماہی گیری کے صوبائی وزیر اسد کھوکھر کا استعفٰی سامنے آیا جو ترنت منظور کر لیا گیا۔

مبصرین کا استدلال ہے کہ ان دونوں تبدیلیوں کے تانے بانے اسلام آباد سے ملتے ہیں اور وزیرِاعلٰی پنجاب کے مستقبل کےحوالے سے اہم پیش رفت ہے۔ مستعفی وزیر کو ان کا دستِ راست تصور کیا جا رہا تھا اور ہٹائے جانے والے کمشنر لاہور کو مستعفی وزیر کے قریب مانا جاتا تھا۔

میدانِ سیاست میں نسبتاً نووارد، نظامِ حکومت سے ناآشنا اور جنوبی پنجاب کے ایک انتہائی پسماندہ خطے سے تعلق رکھنے والے عثمان بزدار کو جب پنجاب جیسے بڑے اور اہم صوبے کے وزیرِاعلٰی کے منصب کے لیے چنا گیا، تب ہی سے ان کی کارکردگی کے حوالے سے ان پر دباؤ سامنے آتا رہا ہے۔

ہر بار ان پرجب بھی ‘دباؤ’ آتا ہے تو خود وزیرِاعظم عمران خان ان کی مدد کو آتے ہیں۔ ہمیشہ وہ بظاہر جاتے جاتے پھر بچ جاتے ہیں۔ یوں تقریباً دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ وہ یہ کیسے کر لیتے ہیں، اس قدر دباؤ کے باوجود وہ کیسے بچ جاتے ہیں؟

اس پر مختلف آرا ہیں تاہم زیادہ تر تجزیہ کار یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے نہ جانے میں ان سے زیادہ دوسروں کا ہاتھ ہے۔ ان کے خیال میں ‘حزبِ اختلاف، اتحادی جماعتیں اور خود وزیرِاعظم نے نہیں چاہا، اور نہیں چاہتے کہ عثمان بزدار جائیں۔’

لیکن اگر وزیرِاعلٰی پنجاب کارکردگی نہیں دکھا پائے تو یہ تمام قوتیں کیوں نہیں چاہیں گی کہ انہیں ہٹایا جائے؟ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی بھی انھیں ہٹانا نہیں چاہتا تو ہر بار ان پر یہ ‘دباؤ’ کیسے بنتا ہے، کہاں سے آتا ہے؟

پی ٹی آئی کے اندر سے کون دباؤ ڈالتا ہے؟

ماضی کی طرح اب بھی جزوی طور پر یہ دباؤ ان کی جماعت کے اندر ہی سے آ رہا ہے۔ رواں برس ہی پاکستان تحریکِ انصاف کے چند اراکین صوبائی اسمبلی نے کھلے عام ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے شکوہ کیا تھا کہ پنجاب حکومت ان کے متعلقہ حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈ فراہم نہیں کر رہی۔

کئی ارکان نے اس ضمن میں براہِ راست وزیرِ اعلٰی کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔ جنوبی پنجاب کے ضلع لیہ سے تعلق رکھنے والے سردار شہاب الدین ان میں ایک سرکردہ رکن تھے۔ انھوں نے دعوٰی کیا تھا کہ ان سمیت تقریباً 20 ممبران صوبائی اسمبلی نے جماعت کی قیادت سے اس وقت اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

‘انھیں شکوہ تھا کہ ان کے حلقوں کو نظر انداز کیا جا رہا تھا جہاں ترقیاتی کام نہیں کیے جا رہے تھے۔’ اب تقریباً چھ ماہ بعد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سردار شہاب الدین نے بتایا کہ اب بھی 15 ارکانِ اسمبلی ان کے ساتھ ہیں۔

تاہم اب ان کے تحفظات ختم ہو چکے ہیں۔ ‘اس کے بعد ہمارے حلقوں میں تقرقیاتی کاموں کے لیے فنڈز جاری کر دیے گئے تھے۔’ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بطور رکن پنجاب اسمبلی ان کی وزیرِاعلٰی تک رسائی بھی تھی۔

چوائس

Radio Pakistan
سردار شہاب الدین کے مطابق ‘ا، ب، ج، کوئی بھی ہو، ہم وہی مانیں گے جو پاکستان تحریکِ انصاف اور وزیرِاعظم عمران خان فیصلہ کریں گے‘

’ا، ب، ج، کوئی بھی ہو۔۔۔ جو عمران خان فیصلہ کریں گے‘

تاہم اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ عثمان بزدار کے بطور وزیرِ اعلٰی کارکردگی سے مطمئن تھے، سردار شہاب الدین کا کہنا تھا کہ وہ جماعت کے احکامات کی پاسداری کے پابند ہیں۔ ‘ا، ب، ج، کوئی بھی ہو، ہم وہی مانیں گے جو پاکستان تحریکِ انصاف اور وزیرِاعظم عمران خان فیصلہ کریں گے۔’

قذافی بٹ مقامی صحافی ہیں اور امورِ پارلیمان پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘اب بھی پاکستان تحریکِ انصاف کے 15 سے 20 ایسے ارکانِ اسمبلی ہیں جنھیں تحفظات ہیں کہ انھیں اپنے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز نہیں دیے جا رہے۔

‘ہر سیاستدان چاہتا ہے کہ وہ اپنے حلقے میں خود ترقیاتی کام کروائے تا کہ اس کا سیاسی اثر و رسوخ قائم رہے تاہم پنجاب کے کئی علاقوں میں ایسا نہیں ہو رہا اور خصوصاً جنوبی پنجاب میں ایسا نہیں ہو رہا۔ وہاں وزیرِ اعلٰی چاہتے ہیں کہ بس وہ خود ہر جگہ نظر آئیں۔’

’مقتدر حلقے بھی ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں‘

ایسے تحفظات ماضی میں بھی سامنے آتے رہے ہیں اور جماعت کی قیادت طرف سے ہدایات کے بعد وزیرِاعلٰی پنجاب ان کا تدارک بھی کرتے رہے ہیں۔ تاہم تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا استدلال ہے کہ ‘اس مرتبہ عثمان بزدار کو آخری موقع ملا ہے۔’

سہیل وڑائچ کے مطابق جماعت کی اندر سے بھی وزیرِاعلٰی پر دباؤ ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ ‘پاکستان میں جو مقتدر حلقے ہیں وہ بھی ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ وزیرِاعظم عمران خان وزیرِاعلٰی پنجاب کا کِلہ مضبوط کر کے نہیں گئے۔ وہ انھیں کمزور کر کے گئے ہیں۔

‘جو ان کا بالکل دستِ راست تھا یا جسے اردو میں نفسِ ناطقہ کہتے ہیں، اسے وہ وزارت سے ہٹا گئے ہیں۔’

سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ان کی نظر میں وزیرِ اعلٰی پنجاب پر خطرہ بدستور منڈلا رہا ہے بلکہ زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ‘یوں کہہ لیں کہ وزیرِاعظم انھیں آخری شاباش دے کر گئے ہیں۔’

‘نہیں، پھر عثمان بزدار ہی ٹھیک ہے’

تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کے مطابق عثمان بزدار کے نہ ہٹائے جانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کے متبادل پر اتفاق نہیں ہو پاتا۔ جب بھی کوئی نام سامنے آتا ہے تو جماعت میں اس پر اعتراضات اٹھ جاتے ہیں اور ایسی صورت میں کہا جاتا ہے کہ عثمان بزدار کو ہی چلنے دیا جائے۔

صحافی میاں اسلم ایک عرصے سے امورِ پارلیمان اور صوبے کی سیاست پر خبریں دیتے رہے ہیں۔ وہ سہیل وڑائچ کی اس دلیل سے اتفاق کرتے ہیں۔

‘جماعت کے اندر عثمان بزدار کے کسی بھی متبادل سے پوچھا جاتا ہے کہ وزیرِ اعلٰی کسے بنائیں، وہ کہتا ہے مجھے بنا دیں۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ آپ کے علاوہ کون، تو وہ کہتا ہے کہ نہیں، پھر عثمان بزدار ہی ٹھیک ہے۔’

میاں اسلم کے مطابق وزیرِاعلٰی عثمان بزدار نے اپنی کارکردگی بہتر کرنا بھی شروع کر رکھی ہے اور ان کا اخلاق اور لوگوں سے میل جول بہت اچھا ہے۔

‘لوگوں کو کیا بتائیں گے کیا کارکردگی ہے پنجاب میں’

میاں اسلم کے مطابق وزیرِاعظم عمران خان بھی نہیں چاہتے کہ اس وقت عثمان بزدار کو ہٹایا جائے۔

‘ایسی صورت میں ان کی جماعت کے اندر جہانگیر ترین کا گروپ بھی متحرک ہو سکتا ہے اور ان کے علاوہ ن لیگ متحرک ہو سکتی ہے۔ عثمان بزدار کے روابط ن لیگ کے کچھ لوگوں سے بھی ہیں۔’

وہ اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ اس مرتبہ عثمان بزدار بہت مشکل سے بچے ہیں، آئندہ انھیں بہت محتاط رہنا ہو گا۔

میاں اسلم کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے اندر ایک بہت مضبوط رائے یہ بن رہی ہے کہ ‘دو سال گزر چکے ہیں اور تین سال بعد دوبارہ الیکشن میں جانا ہے، لوگوں کو کیا بتائیں گے کہ کیا کارکردگی ہے پنجاب میں۔’ ان کا استدلال ہے کہ پی ٹی آئی نے اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا ہے۔

‘جب بھی ہٹائے جانے کی بات ہو۔۔۔ زیادہ پریشانی ن لیگ کو ہوتی ہے’

سلمان غنی سینیئر صحافی اور تجزیہ کار ہیں اور خصوصاً سیاسی جماعتوں پر نظر رکھتے ہیں۔

ان کے خیال میں ہر مرتبہ عثمان بزدار کے بطور وزیرِ اعلٰی ہٹائے نہ جانے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حزبِ اختلاف سمیت ہر ایک کے لیے وہ موزوں ہیں۔ اگر کوئی کارکردگی دکھانے والا وزیرِاعلٰی ہو گا تو ان کا نقصان ہو گا۔

‘جب بھی عثمان بزدار کو ہٹائے جانے کی بات ہوتی ہے تو سب سے زیادہ پریشانی پاکستان مسلم لیگ ن کو ہوتی ہے۔ انھوں نے کبھی پنجاب میں تبدیلی کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔’

سلمان غنی کا کہنا تھا کہ دوسری طرف تحریکِ انصاف کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق بھی وزیرِاعلٰی عثمان بزدار کی حمایتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مستقبل قریب میں وزیرِ اعلٰی عثمان بزدار کے ہٹائے جانے کے امکانات کم ہیں۔

تاہم رواں سال کے آخر میں ستمبر کے مہینے میں اگر پاکستان تحریکِ انصاف کو صوبہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کروانا ہوا تو ممکن ہے کہ انھیں ہٹا دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp