انڈیا، چین سرحدی تنازعہ: انڈیا دریائے برہماپتر پر چین کے سرحد کے قریب سرنگ کیوں بنانا چاہتا ہے؟


دریائے برہمپتر پر پل

انڈیا میں دریائے برہمپتر پر پانچ پل ہیں

انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں دریائے برہماپتر میں آنے والے سیلاب نے شدید تباہی مچا‏ئی ہے اور ریاست کا ایک بہت بڑا حصہ اس سیلاب کی زد میں ہے۔

دوسری طرف یہ خبر آ رہی ہے انڈین حکومت نے دریائے برہماپتر کے نیچے تقریباً 15 کلومیٹر لمبی سرنگ کی تعمیر کی اصولی منظوری دے دی ہے تاکہ فوجی نقل حمل کو بلا روک ٹوک چین کی سرحد تک یقینی بنایا جا سکے گا۔

مرکز اور ریاست میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 16 جولائی کو اس سرنگ کے منصوبے کے بارے میں معلومات شائع کی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

چین کے ساتھ 1962 کی جنگ میں اگر امریکہ انڈیا کا ساتھ نہ دیتا تو۔۔۔

انڈیا اور چین میں کشیدگی پر بھوٹان خاموش

‘کیا انڈیا چین کے جال میں پھنس چکا ہے؟’

آسام میں بی جے پی صدر رنجیت کمار داس نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ برہماپتر دریا کے نیچے چار رویہ سرنگ کی تعمیر کے لیے مرکزی حکومت کی جانب سے اصولی منظوری ملنا آسام، شمال مشرق اور پورے انڈیا کی سلامتی اور نقل و حرکت کے لحاظ سے ایک اہم فیصلہ ہے۔

https://twitter.com/RanjeetkrDass/status/1283634532747341824

دوسری جانب برہماپتر اور اس کے معاون دریاؤں کے بڑے نیٹ ورک میں سیلاب کے پانی نے شدید تباہی مچا رکھی ہے۔ 20 جولائی کو آسام کے وزیر اعلیٰ سروانند سونووال نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو بتایا کہ پچھلے کچھ دنوں میں کم از کم 85 افراد اس سیلاب کے باعث ہلاک ہو گئے ہیں اور تقریباً 70 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔

اس سیلاب سے متاثرہ اور ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کوڈ 19 کی وبا سے کہیں زیادہ ہے۔ 21 جولائی کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں کووڈ 19 سے اب تک 25 ہزار 382 افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ 58 افراد کی موت ہوئی ہے۔

دریائے برہمپتر

سٹریٹیجک اہمیت

دریائے برہماپتر چین میں تبت سے نکلتا ہے۔ یہ انڈیا، بھوٹان اور بنگلہ دیش تک پانچ لاکھ 80 ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے میں پھیلا ہوا ہے۔ اس دریا کا شمار دنیا کے پانچ بڑے دریاؤں میں ہوتا ہے۔ اس دریا کے دہانے سے فی سیکنڈ 19 ہزار 830 مکعب میٹر پانی خارج ہونے سے اس دریا کا نمبر ایمیزون، کانگو اور یانگسی دریاؤں کے بعد آتا ہے۔

شمال مشرقی انڈیا میں اس کی بہت زیادہ سٹریٹیجک یعنی عسکری اہمیت ہے۔ سنہ 1228 سے 1826 تک اس خطے پر حکمرانی کرنے والی اہوم حکومت نے اس دریا میں اپنی بحریہ تعینات کر رکھی تھی جو کہ مغل سلطنت سمیت دیگر دشمنوں سے تحفظ کے لیے تھی۔

سنہ 1671 میں سرائے گھاٹ کی لڑائی میں اہوم بحریہ نے اورنگ زیب کے کمانڈر رام سنگھ کی سربراہی میں ایک بہت بڑی فوج کو شکست دی تھی اور اس طرح اس علاقے میں مغلوں کی توسیع کو روک دیا تھا۔

سیلاب زدہ آسام

دریا کے نیچے سرنگ؟

ایک زمانے میں اہوم حکومت کا محافظ برہماپتر دریا آج انڈین فوج کے منصوبہ سازوں کے لیے پریشانی کا سبب ہے کیونکہ اس دریا کی وجہ سے آسام کا شمالی حصہ اور اروناچل پردیش کا پورا شمال مشرقی حصہ چینی فوج کے خطرے کی زد میں ہے۔

چین نے سنہ 1962 کی جنگ کے بعد اس پورے خطے میں تیزی سے اپنے گرفت کو مضوبط کرتے ہوئے یہاں اپنا اثر رسوخ بڑھایا ہے۔ انڈیا کے دفاعی نظام کو یہ خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ چینی فوج کی جانب سے اگر برہماپتر دریا پر موجود پانچ پلوں پر حملہ کیا گیا تو اروناچل پردیش اور آسام کے کچھ حصے باقی انڈیا سے کٹ جائيں گے۔

اب اس دریا کے نیچے 14.85 کلومیٹر لمبی سرنگ تعمیر کرنے کی بات ہو رہی ہے جو جنوبی کنارے پر سومل گڑھ کو شمالی کنارے گوہ پور سے جوڑے گی۔ اس طرح یہ سول اور فوجی نقل و حرکت کا متبادل راستہ ہو گا۔

انگریزی روزنامہ ہندوستان ٹائمز نے حال ہی میں یہ خبر دی تھی کہ انڈین فوج نے حکومت سے دریائے برہماپتر کے نیچے سرنگوں کی تعمیر پر غور کرنے کو کہا تھا کیونکہ اس دریا پر پل دشمن کی فوج کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

اکنامک ٹائمز نے گذشتہ برس یہ خبر دی تھی کہ انڈین حکومت دریائے برہماپتر کے نیچے سرنگ بنانے پر غور کر رہی ہے۔ اخبار نے اپریل سنہ 2019 کی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ یہ سرنگ فوجی قافلوں کی نقل و حرکت کو مکمل تحفظ فراہم کرے گی۔

سرحد

لیکن اب کیوں؟

انڈیا اور چین کے مابین موجودہ سرحدی تنازع اور سرنگ کی منظوری کے مابین تعلق جوڑنا آسان ہے۔ تاہم وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں حکومت ہند چین کے مقابلے میں سرحد پر اپنے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے میں پہلے سے ہی جنگی سطح پر کوششیں کر رہی ہے۔ پانی کے نیچے سرنگ تعمیر کرنے کے منصوبہ کو اسی کڑی کے تحت دیکھا جاسکتا ہے۔

ہندوستان ٹائمز نے اپنی خبر میں لکھا ہے کہ سرنگ کی تعمیر کے فیصلے کو حکومت نے مارچ میں ہی منظور کر لیا تھا جو کہ چین سے متصل سرحد پر کشیدگی شروع ہونے سے پہلے کی بات ہے۔

انگریزی نیوز چینل ویان کی خبر کے مطابق انڈیا نے چین کی سرحد کے ساتھ سڑکوں کی تعمیر پر آنے والے اخراجات میں سنہ 2016 میں 61.5 کروڑ ڈالر سے بڑھا کر سنہ 2020 میں 1.6 ارب ڈالر کر دیا ہے۔

مودی اور شی جن پنگ

رد عمل کیا ہے؟

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انڈین حکومت اس خبر کو دبانے کی کوشش کررہی ہے۔ کسی بھی سرکاری افسر نے سرنگ کے معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ نیز اس معاملے پر چین کی طرف سے بھی کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ انڈیا کی قومی میڈیا میں اس مسئلے پر وقفے وقفے سے خبریں آتی رہی ہیں لیکن آسام میں اس کے متعلق کافی باتیں ہو رہی ہیں۔

آسامی زبان کے معروف روزنامے ‘اسومیا پرتی دن’ میں 17 جولائی کے ایک اداریہ میں اخبار نے الزام لگایا ہے کہ حکومت صرف پانی کے نیچے سرنگوں پر تبادلہ خیال کر کے ہی سرخیوں میں آنا چاہتی ہے، جبکہ بہت سارے انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے متعلق وعدہ کرنے کے باوجود انھیں زمین پر نہیں بنایا جا سکا ہے۔

سوشل میڈیا صارفین ہر سال آسام میں سیلاب سے متاثرہ لاکھوں افراد اور حکومت کی جانب سے اسے روکنے میں ناکامی کے لیے سرنگ کے منصوبے کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔ اس کے متعلق سوشل میڈیا پر بہت سے میمز شیئر کی جا رہی ہیں۔

ایک فیس بک صارف نے لکھا: ‘دریا کے نیچے سرنگ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے دریا کے کنارے مضبوط کریں تاکہ آسام کے عوام کو سیلاب سے بچایا جاسکے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp