کلبھوشن یادیو کی پھانسی


گزشتہ برس ان ہی دنوں کی بات ہے کہ میں امریکہ میں موجود تھا اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور وہائٹ ہاؤس کے حکام سے ملاقات طے تھی امریکی دانشوروں سے جو ان کے ہاں فیصلہ سازی میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں سے گفتگو ہو رہی تھی جانا تو اس مہینے بھی تھا کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں ایک مبصر طور پر شریک ہونا تھا مگر کرونا آڑے آ گیا۔ بہرحال ان تمام ملاقاتوں مباحثوں میں ایک بات بالکل واضح طور پر محسوس ہو رہی تھی کہ امریکہ میں یہ تصور بہت مضبوطی سے موجود ہے کہ بھارت کشمیر میں ایسا کھیل کھیلنے جا رہا ہے کہ جس سے وہ اس بات کی دھاک دنیا میں بٹھا سکیں کہ وہ جنوبی ایشیا میں ایک ایسی مملکت کا مقام حاصل کر چکا ہے کہ وہ جو چاہے کر گزرے اور جنوبی ایشیا میں موجود اس کے مد مقابل ملک پاکستان کے لیے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ کشمیر جیسے حساس انسانی اہمیت کے معاملے پر بھی بھارت کو اس کے عزائم سے روک سکے۔

سوال یہ پیدا ہو رہا تھا کہ اب بھارت کے لئے کیوں کر ممکن ہو رہا ہے کہ وہ ایسے کسی اقدام کی جانب قدم بڑھا رہا ہے۔ اس سوال کے جواب دو ہی ہے۔ اول تو یہ کہ جب کسی ملک کا سیاسی نظام کمزوری کا شکار ہو جائے وہاں کے انتخابی عمل پر بڑے بڑے سوالیہ نشان لگ جائے جس کے نتیجے میں سیاسی انتشار بڑھتا چلا جائے تو اس مشق کی قیمت معیشت ادا کرتی ہے اور یہ قیمت معیشت سے ہوتی ہوئی خارجہ پالیسی تک چلی جاتی ہے۔ پاکستان کے لئے دوسرا معاملہ خوف کی پالیسی ہے خوف کی پالیسی سے مراد یہ ہے کہ کسی معاملے میں احتیاط برتنا تحمل اختیار کرنا حکمت عملی کہلاتا ہے مگر اس بات کا واویلا مچاتے پھرنا کہ بھارت ہمیں دنیا میں تنہا کر دے گا اور یہ ہم ہی ہے کہ جس کے سبب سے وہ ایسا نہیں کر پا رہا ہے۔

ایسا شور مچانے سے قوم کی اجتماعی نفسیات پر برا اثر پڑتا ہے۔ مفت میں خوفزدہ ہونے لگتی ہے حالاں کہ اگر ہم دنیا کے دیگر ممالک کا جائزہ لیں تو باآسانی معلوم کر سکتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی ملک کسی کو بھی اس وقت تک تنہا کر ہی نہیں سکتا جب تک وہ ملک صدام اور قذافی کی مانند خود کو حقیقی معنوں میں تنہا نہ کر دے۔ پاکستان تو دنیا کے بڑے ممالک میں سے ہے۔ قطر ہی کی مثال لے لیجیے قطر کو اپنے دیگر ہمسایہ ممالک سے بار بار مسائل کا سامنا ہو جاتا ہے وہ ممالک اپنے وسائل اور حجم حوالے سے دنیا میں زیادہ متحرک بھی محسوس ہوتے ہیں۔ مگر قطر اپنی جگہ پر موثر ہے اور اس کو تنہا کرنے کے اقدامات ناکام ثابت ہو گئے۔

حال ہی میں عالمی عدالت انصاف نے قطر کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ ہمسایوں نے قطر کی فضائی حدود سے اپنی فضائی حدود کو کاٹا ہوا ہے۔ مگر قطر کامیاب ہو گیا۔ عالمی اداروں میں کامیابی کی بنیادی شرط موثر ہونا ہی ہوتا ہے۔ فٹ بال ورلڈ کپ کی تیاریاں بھی زور و شور سے جاری ہے۔ فٹبال ورلڈ کپ کا شیڈول بھی جاری ہو گیا ہے مخالفین اس پر بہت تلملائے مگر قطر کو تنہا نہ کر سکے۔

قطر کے پاکستان میں سابقہ سفیر مبارک المنصوری نے مجھے ایک بار کہا تھا کہ قطر کو پاکستان سے دوستی پر بہت تقویت محسوس ہوتی ہے، جو سب کا مقابلہ کرے جا رہا ہے وہ تقویت محسوس کرتا ہے اور ہم یہ ہی بتائے جاتے ہیں کہ ہمیں تنہا نہیں کر سکے گے۔ امیر قطر نے حال ہی میں اپنے عزیز شیخ سعود بن عبدلرحمن آل ثانی کو پاکستان میں سفیر مقرر کیا ہے۔ مزید تقویت دونوں ممالک پا سکتے ہیں اگر معاملہ فہمی اور خواہش موجود ہوں۔ ایران کی مثال بھی سامنے موجود ہے۔

امریکہ کی مخالفت کی سبب سے جہاں بھارت جیسے ممالک تعلقات میں پیچھے ہٹ رہے چابہار کو خیرباد کہہ رہے ہے تاکہ امریکہ کی مزید گڈ بکس میں آ سکے۔ وہیں پر یورپی یونین ایران سے تعلقات کی از سر نو کشیدگی سے اپنے آپ کو دور رکھتے ہوئے محسوس ہو رہی ہے ایران کے لیے اگر امریکہ راستے بند کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو چین سے وہ قربتیں بڑھا رہا ہے معاہدوں پر پہنچ رہا ہے حالانکہ ابھی معاہدوں میں ابہام موجود ہیں۔ ان ابہامات کو بھی رفع کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

چین بھی اپنے تعلقات کو بس ایران کی حد تک محدود نہیں رکھ رہا ہے۔ اس نے انڈے صرف ایک ٹوکری میں نہیں رکھے ہوئے۔ سعودی عرب سے اس کی ایک مستقل کانفرنس ہوتی ہے ایران سے چینی معاہدے کے بعد سعودی عرب سے شیڈول کے مطابق چین کی کانفرنس ہوئی اور اس تصور کو چین نے رفع کروا دیا کہ ایران سے چین کے بڑھتے تعلقات کی وجہ سے سعودی عرب خفا ہو سکتا ہے۔ خفا ان سے ہوا جاتا ہے جو آپ پر تکیہ کرتے ہیں ورنہ صرف مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ کسی کو تنہا کرنا تو درکنار شدید اختلافات کی صورت میں بھی اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ یہ اختلافات، مفادات کو نقصان پہنچانے کا باعث نہ بن جائے جو مفادات حاصل کیے جا رہے ہیں۔

چین اور امریکہ تعلقات اس کی واضح مثال ہیں۔ امریکہ اور چین میں تجارت پر شدید اختلافات ہے۔ ان اختلافات کے نتیجے کے طور پر امریکہ نے ہانگ کانگ کے حوالے سے ایک موقف اختیار کر لیا ہے کہ چین وہاں پر یہ کرے اور یہ نہ کرے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ چین اپنی ہانگ کانگ پالیسی امریکی خواہشات پر ترتیب نہیں دے سکتا ہے یہ اس کے مفاد میں نہیں ہے دونوں ممالک اس حوالے سے ایک دوسرے پر شدید لفظی گولہ باری بھی کر رہیں ہیں۔

تعلقات میں تناؤ موجود ہے مگر اس سب کے باوجود چین امریکا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ اور وہ دونوں ممالک اس پارٹنرشپ سے زبردست فائدہ بھی حاصل کر رہی ہے اس سب کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بالکل واضح ہوجانا چاہیے کہ پاکستان کے حوالے سے یہ بات بھی کرنا کہ اس کو بھارت تنہا کر دے گا بالکل بے معنی سی بات ہے۔ یہ درست ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں بھارت نے پاکستانی عوام سے زبردست اعصابی جنگ لڑی ہے کشمیر میں وہ جو کچھ کر رہا ہے وہ درحقیقت پاکستانیوں کو اپنے مزید مسلز بھی دکھانے کے مترادف ہے۔ جواب بھی ممکن ہے جو بہت اہم ہوگا۔

عدالتی تصدیق شدہ دہشت گرد بھارتی فوجی افسر کلبھوشن یادیو کی پھانسی ایک ایسا جواب ہوگا کہ جس سے قومی مورال بھی بلند ہوگا اور نفسیاتی کیفیت بھی درست ہوگی۔ مگر یہاں تو یہ حال ہے کہ نئے آرڈیننس جاری کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ واپس جا سکے اگر ایسا ہوا تو صرف قوم کا ہی مورال نہیں گرے گا بلکہ موجودہ سیاسی بندوبست کے خالقوں کے ماتحت بھی دل گرفتہ ہوں گے کہ ہم صرف قومی سیاست دانوں کے خلاف ہی فیصلے وٹس ایپ پر لے سکتے ہیں وہ بھی ان سے جو خود بعد میں برطرف ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments