گلگت بلتستان، انتخابات اور سیاسی سرکس


گلگت بلتستان میں الیکشن کا وقت قریب ہے اور حالات سنسنی خیز ہوتے جا رہے ہیں۔ سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ زوروں پر ہے۔ جیسے کسی سٹیشن پہ آخری ریل یا بس کے ٹکٹ کے لئے لئے دھکا پیل ہوتی ہے۔ گلگت بلتستان جیسے پسماندہ علاقے کو وفاقی پارٹیوں سے وفاداری کی نہیں بلکہ اپنے حقوق لینے کی ضرورت ہے چاہیے وہ کسی بھی طرح سے لیے جائیں۔ پارٹیوں کا حال تو سب کو پتہ ہے کیسے چلتی ہیں۔ وفاق میں جو پارٹی جیت جاتی ہے تمام نمائندے اس پارٹی کی طرف دوڑ لگا دیتے ہیں۔ عہدوں کے چکر میں طرح طرح کے سیاسی کرتب دکھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ پارٹی کے ٹکٹ کے لئے ایسے جھپٹتے ہیں جیسے ہڈی دیکھ کے وفادار جانور جھپٹتے ہیں۔ اور ان سے پوچھا جائے تو اس حرکت کو سیاست میں لہو گرم کرنے کا بہانہ گردانتے ہیں۔

پارٹیاں ٹکٹ اسی کو دیتی ہیں جو پارٹی کے پرانے ساتھی ہیں اور مال دولت اور تعلقات کی بنیاد پہ پارٹی میں اپنی بنیاد مضبوط کی ہو، چاہے کسی کام کے ہوں یا نہ ہوں ٹکٹ انہیں کو ملے گا۔ بیشک اس پارٹی میں اور بھی قابل لوگ موجود ہوں جو ہر فورم پہ اپنے مفاد سے زیادہ قومی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ نئی نویلی اقتدار میں آئی پارٹیاں الیکٹیبلز دیکھتی ہیں جن سے جیتنے کی امید زیادہ ہو۔ اس چکر میں پھر کسی لوٹے کو ٹکٹ مل جاتا ہے اور پرانے کارکن جنڈے اٹھائے پانچ سال تک اپنی امیدوں کو صبر کی لوریاں سنا کر سلا دیتے ہیں۔ پارٹیوں کے نظریات سے متاثر کارکن اپنی تمام تر توانائیاں پارٹی سے وفاداری نبھانے میں صرف کر دیتے ہیں اور بلآخر بدظن ہو کر پارٹی ہی بدل لیتے ہیں۔

پارٹیوں کے منشور اگر کہیں چلتے ہیں تو خدا جانے مگر گلگت بلتستان میں صرف مفاد لینا، نوکریوں کی بندربانٹ اور ٹھیکوں اور سکیموں میں اقربا پروری کے سوا کوئی منشور نہیں ہے۔ ان پارٹیوں کے نظریات بھی مفادات لینے کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ اس بات سے جن کو انکار ہے وہ مقامی نمائندوں کے اپنے گاؤں اور خاندان کی ترقی کا اپنے گاؤں اور اپنے حالات کے ساتھ موازنہ کریں۔ ایسے نمائندے وفاق سے منت سماجت کر کے اپنی چھوٹی چھوٹی گزارشات تو پوری کرا سکتے ہیں مگر علاقے کے حقوق کے لئے بات کرنے کی باری آتی ہے تو سر کھجا کے بس یہی کہتے ہیں۔ ”ہم مجبور ہیں یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے“۔

عوام کے سامنے بادشاہ بننے والے یہ نمائندے جب حقوق لینے کی بات آتی ہے تو بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ الیکشن جیتنے کے بعد عوام منتظر ہوتی ہے کہ نمائندے آ کے ان کا مسائل حل کریں مگر کوئی نہیں آتا۔ ایک سڑک کی مرمت کرا کے ایسے اتراتے ہیں کہ جیسے علاقے کی تقدیر بدل ڈالی ہو۔ ایک نمائندے سے سوال کیا گیا کی علاقے میں پائپ لائن بہت چھوٹی ہے جس سے اتنی آبادی کا گزارا نہیں ہوتا، تو موصوف نے مومن خان مومن کی طرح اتراتے ہوئے مختصر سا جواب دیا۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ ۔ ۔ جب ایسے نمائندے ہوں گے تو عوام کو حقوق کی جگہ طعنے ہی سننے کو ملینگے۔ انہی نمائندوں کو کوئی بھی وفاق سے آیا ہوا سرکاری افسر دم نکلنے تک دروازے پہ انتظار کرا سکتا ہے اور مجال ہے جو ان کے منہ سے ایک لفظ بھی نکلے۔ پانچ سال کا عرصہ نمائندوں کے پارٹیوں، دعوتوں، تعزیتوں اور عیش و عشرت میں گزر جاتا ہے اور عام آدمی کی زندگی ہر گزرتے سال کے ساتھ مشکل ہوتی جاتی ہے۔

قوم پرست پارٹیوں پہ بھروسا کرنے والے لوگوں کی کمی ہے جس کی وجہ ریاست کی طرف سے لگائے گئے الزامات اور شیڈیول فور کا کالا قانون ہے۔ ایسے الزامات لگنے کے بعد عوام ان کو سچ میں غدار اور ملک دشمن سمجھتی ہے خواہ حقیقت کچھ بھی ہو۔ مذہبی پارٹیوں کو لوگ مذہب کا کاروبار سمجھتے ہیں۔ کوئی مسیحا تو آ نہیں سکتا جو اس قوم کو دلدل سے نکالے۔ ایسے حالات میں کیا کیا جائے کہ کام کرنے والے لوگ اقتدار میں آئیں۔ آزاد امیدوار کے طور پہ الیکشن لڑنے کا آپشن بچتا ہے اور اس کے لئے کسی عام آدمی کے پاس اتنی دولت نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی تو جتنا پیسہ الیکشن لڑنے میں لگ جاتا ہے وہ ایک ایماندار آدمی کبھی بھی پانچ سالوں میں حلال طریقے سے نہیں کما سکتا۔ کسی مضبوط پارٹی کے ٹکٹ سے لڑنے والے کو تو پارٹی کی طرف سے بھی امداد ملتی ہے مگر ایک آزاد امیدوار کے لئے یہ یقیناً ایک مشکل کام ہے۔

اس پسماندہ علاقے میں سب سے زیادہ سیاسی شعور کی ضرورت ہے کہ جن وفاداریوں کو نبھانے میں یہ زندگی صرف کر دیتے ہیں یہی ان کی پسماندگی کی وجہ ہیں۔ لوگوں کو اتنا تو معلوم ہو کہ بنیادی ضروریات زندگی کے ساتھ قوم کو اپنی شناخت منوانے کی طرف گامزن کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ جب تک یہ احساس پیدا نہ ہو کہ وہ بیوقوف بنائے جا رہیں تب تک ان کی تقدیر یہی ہے کہ ننگے پیر ان کے لئے ریلیاں نکالیں جو خود پروٹوکول کے ساتھ ائر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں ریلی کی سربراہی کرتے ہیں۔

اتنا شعور تو ہو کہ عوام اس فرسودہ نظام کو ہی رد کردیں جس کی وجہ سے بار بار ایسے لوگ اقتدار میں آتے ہیں جو عوام کو محرومیوں کے سوا کچھ نہیں دے سکتے۔ تعلیم میں اتنی جدت آئے کہ کسی لیڈر کو بڑا آدمی نہ سمجھیں اور اس کی غلطیوں پہ پردہ ڈالنے کے بجائے سر اٹھا کر ان کی ناکامیوں پہ سوال اٹھائے۔ جمہور کے پیسوں پہ پلنے والے خدا بن جائیں عام آدمی ایک فقیر کی مانند اس کے در پہ جھک کر اپنے حقوق کی بھیک مانگے یہ جمہور کی تذلیل ہے۔ لیکن یہ حکمران اپنے پیروں پہ کلہاڑی کبھی نہیں مار ینگے۔ وہ یہی چاہیں گے کہ عوام ان کے بنائے ہوئے اس نظام کے حدود سے باہر نہ نکل سکے۔ ایک سڑک کی مرمت اور دو چپراسی لگا کے ان کا کام نکل جاتا ہے تو انہیں کیا غم ہے۔ عوام جتنی تنگ نظر رہے گی سستے داموں بکے گی اور حکمرانوں کا اتنا ہی فائدہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments