سپریم کورٹ کا یوٹیوب پر پابندی کا عندیہ: ’سوشل میڈیا پر فوج، عدلیہ اور حکومت کے خلاف لوگوں کو اکسایا جاتا ہے‘
سپریم کورٹ نے فرقہ وارانہ تشدد کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر قابل اعتراض مواد کا نوٹس لیتے ہوئے پاکستان میں یوٹیوب بند کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بدھ کے روز فرقہ وارانہ تشدد کے مقدمے میں ملزم شوکت علی کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کی۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل کی طرف سے دلائل کے دوران جب سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ تشدد کو مبینہ طور پر فروغ دینے کا ذکر ہوا تو بینچ میں موجود جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ عدالت کی کارکردگی اور فیصلوں پر عوام کو بات کرنے کا حق ہے اور وہ تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے ان فیصلوں پر تنقید بھی کرسکتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ججز کو بھی عوام کے ٹیکسز سے ہی تنخواہ ملتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ عدالت کو آزادی اظہار رائے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ اب یہ نئی روایت پڑ گئی ہے کہ نہ صرف سوشل میڈیا پر عادلتی فیصلوں کو بےجا تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر ججز کے خاندانوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔
اُنھوں نے کہا کہ کوئی یوٹیوب پر چاچا تو کوئی ماما بن کر بیٹھ جاتا ہے اور عدالتی فیصلوں کی آڑھ میں ججز کو شرمندہ کیا جاتا ہے۔
جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ سوشل میڈیا پر فوج، عدلیہ اور حکومت کے خلاف لوگوں کو اکسایا جاتا ہے۔
جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ عدالت تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے لیکن آخر اس کا اختتام تو ہونا ہے۔
بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ کیا وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی یعنی پی ٹی اے نے دیکھا ہے کہ یوٹیوب پر کیا ہو رہا ہے۔
اُنھوں نے پی ٹی اے کے حکام سے استفسار کیا کہ کیا یوٹیوب اور سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی عملی اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔
پی ٹی اے کے اہلکار نے عدالت کو بتایا کہ ان کا ادارہ ایسے کسی بھی مواد کی نشاندہی تو ضرور کرسکتا ہے لیکن اس پر کارروائی کرنے کے لیے اس کے پاس اختیارت نہ ہونے کے برابر ہیں۔
بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ کئی ممالک میں یوٹیوب بند ہے اور کئی ممالک میں سوشل میڈیا کو مقامی قوانین کے تحت کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ امریکہ اور یورپی یونین کے خلاف مواد یوٹیوب پر ڈال کر دکھائیں پھر دیکھیں کیا کارروائی ہوتی ہے۔
سپریم کوٹرٹ نے اس ضمن میں وزارت خارجہ اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
اس خبر کے آنے کے بعد سے پاکستان میں ہیش ٹیگ یوٹیوب بین ٹرینڈ کر رہا ہے۔
what is painfully obvious is that the boomers running pakistan don't have the slightest clue about how the digital world operates. banning smth like youtube disconnects you from participating in global culture, severely impacts all aspects of the digital economy…
— Ahmer Naqvi (@karachikhatmal) July 22, 2020
ٹوئٹر پر صارف احمر نقوی کا کہنا تھا کہ یہ تکلیف دہ حد تک واضح ہے کہ جو پاکستان چلا رہے ہیں انہیں ذرا بھی اندازہ نہیں کہ ڈیجیٹل دنیا کیسے کام کرتی ہے۔ ’یوٹیوب جیسی چیز پر پابندی لگا کر عالمی ثقافت میں شمولیت کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، یہ ڈیجیٹل معیشت کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوتا ہے۔‘
Courts and PTA must stay away from moral policing and Ban Approach,such bans on internet based Apps ll destroy Pak tech industry and development of technology ll be permanently hampered,we are still not out of woods b/o judges illadvised interferece in economic matters
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) July 22, 2020
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی چوہدری فواد حسین کا کہنا تھا کہ ’عدالتوں اور پی ٹی اے کو پابندیوں کے ذریعے اخلاقی اقدار کا پہرے دار بننے سے دور رہنا چاہیے۔ انٹرنیٹ ایپس پر اس طرح کی پابندیاں پاکستان کی ٹیکنالوجی کی صنعت اور اس کی ڈیولپمنٹ کو مستقل نقصان پہنچائیں گی۔ ابھی تو ہم مشکلات سے نکلے ہی نہیں ہیں اور اس کی وجہ ججوں کی نافہمی کی بنیاد پر معاشی امور میں دخل اندازی ہے۔‘
Eight years later, after much public discourse, court cases, resolutions and discussion in parliament, back to square one. Reminiscent of 2012-2014 period. We never do seem to move on or learn anything. Also a thread.https://t.co/PNVRhcWEaL
— Farieha Aziz (@FariehaAziz) July 22, 2020
پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس کے لیے آواز اُٹھانے والی تنظیم بولو بھی سے منسلک فریحہ عزیز یو ٹیوب پر پابندی کے بارے میں بات کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’آٹھ سال بعد ایک لمبی عوامی بحث، کورٹ کیس، پارلیمان میں بحث اور قرارداد کے بعد ہم پھر اُسی موڑ پر لوٹ آئے ہیں۔ یہ 2012 سے 2014 کے دور کی یاد دلاتا ہے۔ لگتا ہے کہ ہم کبھی بھی سیکھتے نہیں ہیں۔‘
The honourable Supreme Court of Pakistan should consider what Senator Aitezaz Ahsan had said about the YouTube ban in Pakistan in 2012: “Banning YouTube for a few objectionable videos is akin to burning an entire library because of a few books there one doesn’t like”. #YouTubeban
— Usama Khilji (@UsamaKhilji) July 22, 2020
ڈیجیٹل رائٹس اکٹیوسٹ اسامہ خلجی نے لکھا کہ ’قابل احترام سپریم کورٹ آف پاکستان کو سینیٹر اعتزاز احسن نے جو 2012 میں یوٹیوب پر پابندی کے بارے میں کہا اُسے مدنظر رکھنا چاہیے‘۔ اسامہ خلجی نے اعتزاز احسن کا بیان دہراتے ہوئے کہا کہ ’یوٹیوب پر کچھ قابل اعتراض وڈیوز کی وجہ سے پابندی ایسی ہے جیسے پوری لائبریری کو چند کتابوں کی وجہ سے جلا دیں جو آپکو پسند نہ ہوں۔‘
بہت سے صارفین نے اس ہی بیان کو اپنی ٹویٹس میں دہرایا۔
On Youtube and Bans! 1/2
– we lose entire generation of creators and professionals
– 99.9% content great, whether educational or entertainment
– people actually earn a living on these platforms pic.twitter.com/cdYNDGCPDZ— Ali Moeen Nawazish (@am_nawazish) July 22, 2020
صحافی علی معین نوازش یوٹیوب پر پابندی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’ہم مواد بنانے والی ایک پوری نسل اور پیشہ ور افراد کو کھو دیتے ہیں۔ ننانوے اعشاریہ نو فیصد مواد اچھا ہے چاہے وہ تعلیمی ہو یہ تفریحی۔ لوگ ان پلیٹ فارمز سے روزی کماتے ہیں۔‘ اس تھریڈ میں انہوں نے مزید یہ بھی لکھا کہ ’ہم اس سے غیر ملکی کمپنیاں جو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں، ان کو کیا پیغام بھیج رہے ہیں۔‘
Youtube ban in the past has hurted Pakistan's digital space so badly that we're still recovering #YouTubeban pic.twitter.com/qGmTwEYaUg
— Ahsan Hayat (@AhsanHa22164793) July 22, 2020
احسن حیات کا کہنا تھا کہ ماضی میں یوٹیوب پر پابندی سے پاکستان کی ڈیجیٹل دنیا کو اتنا نقصان پہنچا کہ ’ہم اب بھی اس سے سنبھلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
The government talks about ending problems like unemployment and this is what they are doing…? These people don’t know that social media means a lot to the people and is also a source of income for many people. @ImranKhanPTI @supremeCourtPak #YouTubeban https://t.co/1FXPnzFiVG
— Maier Ahmed (@MaierAhmed) July 22, 2020
مائیر احمد لکھتے ہیں کہ حکومت لوگوں کی بیروزگاری جیسے مسائل ختم کرنے کی بات کرتی ہے اور پھر یہ کرتی ہے۔ ان لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ سوشل میڈیا لوگوں کے لیے کیا معنی رکھتا ہے اور یہ بہت سے لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہے۔‘
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).