پشاور بی آر ٹی: کیا پیدل چلنے والے شہری حفاظتی جنگلوں کو پھلانگ کر سڑک پار کر سکتے ہیں؟


صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں چمکنی کے علاقے میں حال ہی میں ایک شہری بس ریپڈ ٹرانزٹ کی راہداری پر لگے جنگلے کو پھلانگ کر اسے عبور کرنے کی کوشش کے دوران بس سے ٹکرا کر زخمی ہو گیا۔

موقع پر موجود افراد نے اس واقعے کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کر دی جسے بہت سے صارفین نے مزید شیئر کیا۔

چکمنی پولیس کا کہنا تھا کہ انھیں اس حادثے کے بارے میں فون کال تو موصول ہوئی تھی تاہم ابھی تک کسی نے باقاعدہ شکایت درج نہیں کرائی اور نہ ہی ہسپتال میں ایسا کوئی زحمی لایا گیا ہے۔

پشاور میں یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے، ماضی میں بھی جب بی آر ٹی بسوں کی آزمائشی ڈرائیو کا مرحلہ شروع ہوا تھا تو اس نوعیت کے چند واقعات پیش آئے تھے۔

کچھ عرصہ قبل جنگلا پھلانگ کر سٹرک عبور کرنے کی کوشش کے دوران ایک شہری بال بال حادثے سے بچ گیا تھا۔ اس شخص کا کہنا تھا کہ بی آر ٹی راہداری پر پیدل چلنے والوں کے لیے راستے اتنی دور دور بنائے گئے ہیں اور ان میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اتنا دور پیدل چل سکیں۔

پاکستان میں پیدل چلنے والوں کے کیا حقوق ہیں اور ان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے اس بارے میں لوگوں میں آگاہی کا فقدان ہے۔ اس حوالے سے نہ تو حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہی ہے اور نہ ہی عوامی سطح پر حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا ہے۔

جب سے پشاور میں بی آر ٹی کا منصوبہ شروع ہوا ہے، پیدل چلنے والے افراد کے لیے بھی مسائل بڑھ گئے ہیں۔

یہاں معذور اور بزرگ افراد کے لیے بھی کوئی سہولت نہیں ہے لیکن اس سب کے باوجود جنگلے پر چڑھ کر بی آر ٹی راہداری عبور کرنے کی کوئی بھی حمایت نہیں کر سکتا بلکہ اس کی مذمت کی جا رہی ہے۔

بی آر ٹی راہداری میں چلنے پر جرمانے

بس ریپڈ ٹرانزٹ کے لیے قائم ادارے ٹرانس پشاور نے چند روز پہلے اس بس کے آزمائشی سفر کا آغاز کیا تھا اور بسیں اب ٹریک پر دیکھی جاتی ہیں۔ بی آر ٹی راہداری کو غیرقانونی طریقے سے عبور کرنے یا اس پر چلنے والے افراد کے لیے جرمانوں کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا کامران بنگش کے ایک ویڈیو پیغام میں بتایا گیا ہے کہ پیدل افراد، سائیکل، موٹر سائیکل اور گدھا گاڑیاں وغیرہ اگر اس راستے میں آئیں تو 500 روپے جرمانہ کیا جائے گا اور اسی طرح رکشہ، موٹر کار اور بڑی گاڑیوں پر 5000 روپے جرمانہ کیا جائے گا۔

بی آر ٹی کی سڑک مکمل ہونے کے بعد جب سے اس کے ساتھ جنگلے لگائے گئے ہیں تب سے مقامی افراد اور تاجروں کی جانب سے جنگلوں کو توڑنے، انھیں مکمل اکھاڑنے اور ان پر چڑھ کر دوسری جانب جانے کے لیے لوگ ہر طرح کی کوششیں کرتے نظر آتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر شہریوں کی جانب سے ان ٹوٹے ہوئے جنگلوں کی ویڈیوز کئی مرتبہ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

اس تازہ حادثے کی ویڈیو کے سوشل میڈیا پر سامنے آنے کے بعد اس پر بحث شروع ہو گئی اور بڑی تعداد میں لوگ ان شخص پر تنقید کرتے نظر آئے کہ یہ جنگلا پھلانگ کر اس ٹریک پر کیوں آیا۔

بی آر ٹی

نامکمل بی آر ٹی راہداری منصوبے میں جمع ہونے والے بارش کے پانی سے لوگ گاڑیاں دھو رہے ہیں (فائل فوٹو)

وجاہت علی نامی ایک صارف نے ٹوئٹر پر لکھا کہ اس شخص کو جیل بھیج دینا چاہیے اور میڈیا کو بھی اس بارے میں آگاہی پیدا کرنے کی ذمہ داری لینی چاہیے۔

احمد ایاز نامی صارف نے لکھا کہ انھوں نے لوگوں کو یہ ٹریک جنگلے پر چڑھ کر پار کرتے دیکھا ہے، ایسے افراد اپنی اس بیوقوفی کا ذمہ دار کسی کو نہیں ٹھہرا سکتے۔

عوامی آگاہی کی ضرورت

دنیا بھر میں پیدل چلنے والے افراد کے لیے زیبرا کراسنگ یا اگر بی آر ٹی یا میٹرو طرز کے راستے ہوں تو وہاں شہری ان مخصوص راستوں سے ہی روڈ عبور کرتے ہیں جو پیدل چلنے والوں کے لیے بنائِے جاتے ہیں۔

پاکستان میں اس بارے میں لوگوں کو آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

اس بارے میں شہریوں کے حقوق اور ان کو درپیش مسائل پر کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ قمر نسیم ایڈووکیٹ کا بی بی سی گفتگو میں کہنا تھا کہ ’شہریوں کی تربیت کی جانی چاہیے کہ وہ یہ سڑک جنگلوں پر چڑھ کر عبور نہ کریں بلکہ اس کے لیے مخصوص راستے ہیں جہاں سے سڑک کی دوسری جانب جایا جا سکتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ یہاں حکومت کی کمزوری بھی نظر آتی ہے کیونکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں کسی بھی شہر میں کہیں بھی پیدل چلنے والوں کے لیے زیبرا کراسنگ نہیں اور نہ ہی کبھی لوگوں کو اس حوالے سے شعور دیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ افسوسناک بات ہے کہ لوگ جنگلوں پر چڑھ کر انھیں عبور کرتے ہیں اور اس سے نہ صرف ان کی زندگی بلکہ دیگر افراد کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

قمر نسیم کے مطابق بی آر ٹی منصوبہ شروع دن سے متنازع رہا ہے جہاں بار بار اس کے منصوبے میں رد و بدل کیا جاتا رہا وہیں بیشتر لوگوں نے پیدل چلنے والے اور معذور افراد کے لیے سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بھی اس منصوبے پر سخت تنقید کی ہے۔

پشاور کی یونیورسٹی روڈ پر اگر آپ ایک جانب سے دوسری جانب جاتا چاہتے ہیں تو آپ کو ایک سے دو فرلانگ پیدل چلنا پڑتا ہے، جس کے بعد موجود گزر گاہ پر 20 سے 35 سیٹرھیاں ہیں جنھیں چڑھنے اور اترنے کے بعد ہی آپ بی آر ٹی راہداری عبور کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ یہاں کام کرنے والے بہت سے تاجروں کا کہنا ہے کہ انھی وجوہات کی بنا پر وہ یونیورسٹی روڈ پر دکانیں چھوڑ کر دیگر علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔

شہری حقوق پر کام کرنے والے قانونی ماہر سیف اللہ محب کاکا خیل نے بی بی سی کو بتایا کہ مجموعی طور پر پاکستان میں لوگ شارٹ کٹ کے عادی ہو چکے ہیں اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں قطار میں کھڑے ہو کر کوئی اپنی باری کا انتظار نہیں کرتا بلکہ سفارش اور دیگر طریقوں سے جلدی میں اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’بی آر ٹی منصوبہ جیسے بھی بنا ہے یہ لوگوں کی بہتری کے لیے بنا ہے اور اس کی حفاظت لوگوں پر فرض ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ اس میں خامیاں ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ شہری جنگلوں پر چڑھ جائیں، یہ مہذب قوموں کا شیوہ نہیں ہے۔

ماہرین کے مطابق بنیادی اور اہم نکات، جیسے سڑک عبور کرنے، قطار میں اپنی باری کا انتظار کرنے، غیر ضروری گاڑی کا ہارن نہ بجانے، ٹریفک قوانین کا احترام کرتے ہوئے اپنی لائن میں چلنا وغیرہ جیسی چیزیں سکول کورسز میں شامل کرنی چاہیے تاکہ بچپن سے لوگ اس کے عادی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp