نیشنل فنانس کمیشن: حکومت نے وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے خزانہ حفیظ شیخ کو این ایف سی کمیشن سے ہٹا دیا


وفاقی حکومت نے دسویں فنانس کمیشن سے وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ حفیظ شیخ کو ہٹا دیا ہے اور فنانس ڈویژن کی جانب سے نیشنل فنانس کمیشن کے اراکین اور تشکیل کے حوالے سے ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔

حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ ن کے رکن اور سابق وزیر دفاع خرم دستگیر نے رواں برس مئی کے وسط میں مشیر برائے خزانہ حفیظ شیخ کی بطور رکن نیشنل فنانس بل تقرری کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں اٹارنی جنرل نے نیشنل فنانس کمیشن کے ارکان کا نیا مراسلہ جمع کروا دیا جس کے بعد عدالت عالیہ نے خرم دستگیر کی درخواست نمٹا دی ہے۔

اس حوالے سے ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عابد سلہری نے ٹویٹ بھی کیا تھا جس میں انھوں نے حکومت کی جانب سے مشیر خزانہ حفیظ شیخ کو ہٹائے جانے کے متعلق بات کی تھی۔

https://twitter.com/Abidsuleri/status/1285856204850376704

خیال رہے کہ اس سے قبل بلوچستان کے سینئر وکلاء کی جانب سے دسویں این ایف سی ایوارڈ کے لیے قائم کیے جانے والے کمیشن میں رکن کی حیثیت سے حفیظ شیخ کو شامل کرنے کے صدارتی حکم نامے کو بلوچستان ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا تھا۔

بلوچستان ہائی کورٹ نے اس آئینی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) میں مشیر خزانہ حفیظ شیخ کو شامل کرنے کے اقدام کو غیرآئینی قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

’کیا سوا کروڑ آبادی میں کوئی ایسا شخص نہیں جو بلوچستان کی نمائندگی کر سکے؟‘

’اختیارات کی واپسی نہیں چاہتے مگر این ایف سی ایوارڈ میں ایڈجسٹمنٹ ضروری‘

وفاقی حکومت کا مسئلہ 18ویں ترمیم ہے یا این ایف سی ایوارڈ؟

بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں ایک رکنی بینچ نے مختلف آئینی درخواستوں پر یہ فیصلہ دیا تھا جو کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ، ساجد ترین ایڈووکیٹ، عطااللہ لانگو ایڈووکیٹ سمیت بعض دیگر سینئر وکلاء نے دائر کی تھیں۔

اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کی درخواست جبکہ بلوچستان میں وکلا کی درخواستوں میں آئندہ ایوارڈ کے لیے قائم کمیشن اور اس کے ٹرمز آف ریفرینس کو چیلنج کیا گیا تھا۔ درخواستوں میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 160کے تحت وفاقی وزیر خزانہ وفاق کی جانب سے نیشنل فنانس کمیشن کا رکن ہوتا ہے اور وہی کمیشن کے اجلاسوں کی صدارت کرتا ہے۔

آئین کے لحاظ سے وفاقی وزیر خزانہ پارلیمنٹ کا منتخب رکن ہوتا ہے اور وہ اپنے عہدے کے لحاظ سے کمیشن کا رکن ہوتا ہے۔ اسی طرح صوبائی وزراءخزانہ بھی اس کے مستقل اراکین ہوتے ہیں۔

درخواست گزاروں نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اس وقت کوئی وفاقی وزیر خزانہ نہیں بلکہ یہ قلمدان وزیر اعظم کے پاس ہے۔ صدر مملکت نے کمیشن میں وفاقی وزیر خزانہ کی بجائے مشیر خزانہ کو کمیشن میں شامل کیا ہے اور اس حوالے سے نوٹیفیکیشن کے مطابق وہ کمیشن کے اجلاسوں کی صدارت بھی کرے گے۔

درخواست گزاروں نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ صدر مملکت کی جانب سے یہ نوٹیفیکیشن اور کمیشن کے ٹرمز آف ریفرینس آئین کے آرٹیکل 160کے خلاف ہیں اس لیے آئندہ ایوارڈ کے لیے قائم کیئے جانے والے کمیشن کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔

تاہم ڈپٹی اٹارنی جنرل غلام مصطفیٰ بزدار ایڈووکیٹ اور ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان ارباب محمد طاہر ایڈووکیٹ نے دسویں نیشنل فنانس کمیشن کے خلاف درخواستوں کی مخالفت کی۔

انھوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ صدر مملکت نے دسویں نیشنل فنانس کمیشن کے قیام اور اس کے لیے لوگوں کی تقرری سے متعلق جو نوٹیفیکیشن جاری کیئے ہیں وہ آئین کے مطابق ہیں۔

بلوچستان ہائیکورٹ نے آئینی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے این ایف سی ایوارڈ کے لیے قائم کمیشن میں حفیظ شیخ کو بطور رکن، وفاقی سیکریٹری فنانس کو بطور فنانشل ایکسپرٹ شامل کرنے اور کیمشن کے ٹرمز آف ریفرینس کی حد تک صدر مملکت کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا تھا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے رواں برس اپریل کے اواخر میں نیشنل فنانس بل کے 11 اراکین کا اعلان کیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32489 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp