مائی باپ! فریاد کرنے دیجئے


دیکھئے مائی باپ! ہم تو فریادی ہیں، آپ کے محل کے باہر نصب عدل کے گھنٹے پر ضرب لگانے کے مجرم۔ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ فریاد کا نحیف آوازہ ہو یا عدل کے گھنٹے پر لگنے والی ضرب کا شورآپ کے آرام میں خلل تو پڑتا ہے۔ آپ ہی بتائیں یہ بھی نہ کریں تو کیا کریں؟ ہمارے ہاتھ میں ہتھوڑا نہیں، بھالا نہیں، تلوار یا نیزہ بھی نہیں۔ جدید اسلحے کا سوال ہی کیا؟ ہمیں تو بچوں کی روٹی اور بوڑھے ماں باپ کی دوائی کے لالے پڑے ہیں۔

تقابل کے لئے تو تناسب ہی کوئی نہیں۔ جب تقابل ہی نہیں تو مقابلہ کیسا؟ مائی باپ! گستاخی معاف یہ فریاد ہمیں پرکھوں سے وراثت میں ملی ہے۔ جیسے وہ اپنے وقت کے بڑوں کے آرام اور سکون کے لئے دن رات خون پسینہ ایک کیے رہتے تھے لیکن اس کے باوجود ان بڑوں کے سامنے ہاتھ جوڑے فریادی رہتے تھے۔ ویسے ہی یہ فریاد بھی ہمارے خون میں شامل ہو گئی ہے۔ فریاد بنا ہم گونگے بہرے ہو نہیں سکتے۔ یہ فریاد کہیں اندر رک گئی تو پانی کی طرح زور مارے گی، اپنا راستہ خود بنائے گی۔ پانی جب اپنا راستہ بناتا ہے تو زمین پر بہت بربادی لاتا ہے۔

مائی باپ! یہ زمین ہماری ماں ہے۔ ہم ماں کی کوکھ سے ہی اس زمین کا دیا کھا پی رہے ہیں۔ ہم اس کی بربادی کا سوچیں، اس سے بڑا پاپ ہمارے لئے کیا ہو سکتا ہے؟ ہمارے لئے تو ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔ ہم کیا، ہماری تو نسلیں بھی ایسا تصورتک نہیں کر سکتیں، کیونکہ ہماری زندگی کا کچا دھاگہ اس زمین سے ہی نمو پاتا ہے اور اسی زمین کے اندرہم پیوند خاک ہو جاتے ہیں۔

مائی باپ! یہ زمین آپ کی بھی تو ماں ہے۔ آپ بھی تو اسی کا دیا کھاتے ہیں۔ لیکن آپ کی تو بات اور ہے۔ ہم ٹھہرے عامی عاصی، آپ تو حاکم ہیں۔ دنیا کی ساری طاقتیں آپ ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ آپ اس زمین کے چن لئے گئے لاڈلے جو ٹھہرے۔ ہم توراندہ درگاہ ہیں اور اپنی اسی اوقات پر مطمئن بھی۔ لیکن فریاد کی اجازت آپ کو دینی پڑے گی مائی باپ۔ ہم کمی کمین ہی سہی، برے بھلے جیسے بھی ہیں فریادہم نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ ہمارے خون کا مسئلہ ہے حضور۔

آپ بادشاہ ہیں جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ اس دھرتی کا سب کچھ آپ کا ہے، ایک ایک ذرہ آپ کا تابع فرمان ہے۔ کس میں ہمت ہے جو آپ کے سامنے چوں بھی کر سکے؟ طاقتیں بھی تو ساری آپ کے پاس ہی ہیں۔ کون روک سکتا ہے آپ کو؟ اس دھرتی کے بچے سے لے کر بوڑھے تک، بہنوں بیٹیوں سے لے کر ماؤں تک، سب آپ کے مقروض و ممنون ہیں۔ آپ کو گرم ہوا بھی لگے تو صدقے واری ہوتے ہیں۔ آپ خوش ہوں تو سب اپنے دردکو بھول کر ڈھول تاشے بجاتے ہیں، پھلجڑیاں چھوڑتے ہیں اور مٹھائیاں بانٹتے ہیں۔ صرف اس لئے کہ آپ خوش رہیں، آپ کا اقبال بلند رہے۔ آپ کی مقدس جبیں پر شکن نہ آئے۔ ہر کوئی اپنی جان تک لڑانے کو تیار ہے کہ آپ کی پیشانی کبھی عرق آلود نہ ہو۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے مائی باپ؟ حکم کیجئے! آپ کے حکم کی بجا آوری میں ہم سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے۔ لیکن ہمیں فریاد سے مت روکئے۔

مائی باپ! ہم غریب مانگتے ہی کیا ہیں؟ صرف فریاد کی آزادی۔ انصاف پر تو ہمارا دعویٰ ہی نہیں، نہ ہم آپ کو اس کا سزا وار ٹھہراتے ہیں۔ ہماری التجا صرف فریاد کی آزادی تک محدود ہے۔ سرکار! ہمارے پرکھوں نے ہمیں بتایا تھا کہ عدل تمہارا مسئلہ نہیں، یہ ایک لمبا سفر ہے۔ یہ سفر نسلیں کھا جاتا ہے پھر جا کر کہیں قوموں کو عدل نصیب ہوتا ہے۔ مائی باپ! ہم اپنے پرکھوں پر یقین رکھتے ہیں اس لئے آپ سے عدل کے طلب گار نہیں ہیں۔

صرف فریاد کی آزادی چاہتے ہیں۔ خدادارا، ہماری فریاد کو غدر مت جانئے۔ کیونکہ اس سے بڑی ذلت ہم عامیوں کے لئے اور کچھ نہیں۔ ہمارا سب کچھ اس مٹی سے وابستگی ہے۔ اسی وابستگی کو نبھاتے ہمارے بڑے اس مٹی میں جا سوئے اور ہم بھی جا سوئیں گے۔ ہم آپ کے مقابل آنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ آپ اوج ثریا ہیں اور ہم تحت الثریٰ۔ کیسے ممکن ہے کہ ہم آسمان پر تھوکیں؟ آپ کی عظمت سلامت رہے، آپ کا اقبال بلند ہو اور بادشاہت قائم رہے حضور۔ ہمیں فریاد کرنے دیجئے۔

مائی باپ! آپ ہمارے بڑے ہیں۔ ہمیں ڈانٹ لیں، دشنام دے کرذلیل کریں، لہو لہان کریں لیکن جان کی امان دے دیں۔ ہم ناہنجار آپ سے صرف فریاد کی آزادی چاہتے ہیں۔ کیونکہ فریاد ہمار اخون ہے۔ فریاد رکے گی تو ہماری رگوں میں دوڑتا خون رکے گا۔ خون رکے گا تو ہمارا نقاہت سے بھرا جسم جان سے اپنا ناتا توڑ لے گا۔ پھر آپ کی سیواکون کرے گا حضور؟ آپ کے سکھ کے لئے اپنا دن کا چین اور راتوں کا سکون کون برباد کرے گا؟ آپ کے آرام و عیش کے لئے دن رات اپنا خون پسینہ کون ایک کرے گا؟

مائی باپ! فریاد کا گلا گھونٹا گیا تو یہ پانی کی طرح بہت تباہی پھیلائے گی۔ پھر یہ پانی نہ غریب کی جھونپڑی دیکھے گا نہ امیر کا محل۔ غریب کی کچی دیوار بھی گرے گی اور فلک بوس مینارے بھی غرق آب ہوں گے۔ مائی باپ! ایسا طوفان آئے گا کہ کوئی سنبھل نہ سکے گا، کوئی بچ نہ سکے گا۔ مائی باپ! زمین نہ رہی تو کچھ نہ رہے گا اور ہم نہ رہے تو آپ کی بادشاہی کس پر ہوگی مائی باپ؟ بادشاہ سلامت، فریاد کرنے دیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments