پاکستان میں سیاسی مخالفین کو کچلنے کے چند واقعات


سپریم کورٹ آف پاکستان نے دو روز قبل خواجہ برادران کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے لکھا کہ نیب انتقامی کارروائیوں کر رہا ہے۔ نیب کو لکیر کے اس پار کچھ نظر نہیں آتا۔ نیب سیاسی جماعتوں کے بندے توڑنے کا کام کر رہا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کے دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہونے کے ساتھ ہی سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے مختلف سیاسی شخصیات مختلف ناموں سے ادارے بناتے رہے جن کے ذمہ ایک کام لگایا جاتا کہ وہ سیاسی مخالفین پر بے بنیاد مقدمات بنائیں تاکہ وہ سیاست سے توبہ کر کے گوشہ نشین ہو جانے کے ساتھ ساتھ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی بتا دیں کہ وہ سیاست سے دوری اختیار کریں۔

پاکستان کے پہلے وزیراعظم سکہ بند جمہوری لیڈر لیاقت علی خان نے بھی مخالفین کو کچلنے کے لئے جنوری 1949 میں ایک کالا قانون نافذ کیا تھا جسے ”پروڈا“ کہا جاتا تھا۔

قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب ”شہاب نامہ“ میں لکھتے ہیں کہ لیاقت علی خان حسین شہید سہروردی کو اکثر اپنی تقریروں میں تنقید کا نشانہ بناتے۔ 11 ستمبر 1950 کو قائد اعظم کا دوسرا یوم وفات ہوتا ہے۔ قائد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کراچی میں ایک تقریب منعقد ہوتی ہے۔ تقریب سے خطاب کرنے والوں میں آئین ساز اسمبلی کے صدر مولوی تمیز الدین، ایوب کھوڑو، یوسف خٹک کے علاوہ وزیراعظم لیاقت علی خان بھی شامل تھے۔ لیاقت علی خان نے سہروردی کو خاص طور پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ”مسٹر سہروردی آج کل ہر روز تقریریں کرنے اور بیانات جاری کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ وہی صاحب ہیں جو ہندوستان کے مسلمانوں کا اتحاد پارہ پارہ کرنے کے بعد یہاں تشریف لائے۔ ان صاحب نے پاکستان بننے کے بعد ہندوستان میں مسلم لیگ ہند نہیں بننے دی اور اس موقف کا پرچار کیا کہ ہندوستان میں اب فرقہ وارانہ بنیادوں پر سیاسی جماعت کی ضرورت نہیں۔ سہروردی کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کا اتحاد ختم کیا جائے تاکہ وہ مستقبل میں اپنے اوپر ڈھائے جانے والے ستم کے خلاف آواز نہ اٹھا سکیں۔ اب تک ان کا سب سے شاندار کارنامہ ہے۔“

”اب پاکستان آنے کے بعد مسٹر سہروردی اور ان کی سیاسی جماعت عوامی مسلم لیگ پاکستانی مسلمانوں کے اتحاد اور یقین کو توڑنے مروڑنے میں مصروف ہے۔ سہروردی کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے حالات دن بہ دن بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔ وہ اس قسم کی باتوں کا پرچار کر کے کس کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ بے شک ہمارے دشمنوں نے یہ کتے ہمارے خلاف بھونکنے کے لیے چھوڑ دیے ہیں۔ یہ لوگ وطن کے غدار ہیں۔ منافق ہیں۔“

بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہو رہی تھی لیاقت علی خان کے کالے قانون کی قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ پروڈا کی زد میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے ایسے وزیر، نائب وزیر اور پارلیمانی سیکرٹری آئے جن پر اقربا پروری اور جانبداری کے الزام لگائے گئے۔ اس قانون کے تحت سب سے زیادہ گرفتاریاں سندھ میں ہوئی۔ کیونکہ سندھ میں ایک وزیر کو چھوڑ کر باقی ساری کابینہ ایک سیاسی جماعت کی تھی۔ اس قسم کے قانون کا نفاذ بلاشبہ محل نظر آیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قانون ایک سیاسی ہتھیار کی حیثیت سے عالم وجود میں آیا اور سیاسی مقصد کے لیے استعمال بھی ہوا۔

ایوب خان اقتدار میں آتے ہیں تو سیاستدانوں کا قلع قمع کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے دو قانون نافذ کرتے ہیں۔ پہلا قانون عرف عام میں ”پوڈو“ کہلایا اور دوسرا ”ایبڈو“ ان کا اطلاق صرف سیاسی عہدے داروں پر ہوتا تھا فرد جرم ثابت ہونے پر پندرہ سال تک سیاسی عہدوں پر فائز ہونے سے نا اہلیت تھی۔ ایوب خان کا مقصد صرف سیاسی عہدیداروں کی بیخ کنی نہ تھا۔ بلکہ وہ سیاست کے میدان میں سرگرم عمل تمام عناصر کو کانٹے کی طرح نکال باہر پھینک دینا چاہتے تھے۔ اس کا انھوں نے پورا فائدہ اٹھایا اور بڑے بڑے جغادری سیاست دان اس کی زد میں آئے۔

پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار بھٹو بھی سیاسی مخالفین کے لیے سفاک اور بے رحم ثابت ہوئے راؤ رشید اپنی کتاب ”جو میں نے دیکھا“ میں رقمطراز ہیں کہ انھوں نے مخالفین کو کچلنے کے لیے مختلف ادارے بنائے، انھوں نے اپوزیشن کو بے رحمی سے نشانہ بنایا۔ اہم اپوزیشن رہنماؤں کو مدتوں پس زنداں رکھا۔ ان پر انسانیت سوز تشدد کیا گیا۔ کئی بہادر صحافیوں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ پریس شکنجے میں آیا۔ الطاف حسن قریشی، ڈاکٹر اعجاز قریشی، مجیب الرحمان شامی اور دیگر شامل تھے۔ حسین نقی تو بھٹو کے دوست اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے تھے انھیں بھی بھٹو نے پس زنداں کیا۔

ممتاز کالم نگار عامر خاکوانی نے لکھا کہ سیاسی کارکنوں کو جس بے رحمی سے بھٹو دور میں نشانہ بنایا گیا اس کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔ بے داغ کھرے سیاست دان سردار شیرباز مزاری نے انٹرویو کے دوران بتایا کہ ”ہم نے بھٹو دور میں بھی جیل گزاری اور ضیا الحق دور میں بھی فرق یہ تھا کہ ضیا دور میں سیاسی کارکن جیل جاتے تھے۔ ان کے گھر والوں کی عزتیں محفوظ رہتی تھی بھٹو دور میں گھر والوں کی عزتیں بھی خطرے میں رہتی۔ یہ صرف سیاسی مخالفین کے ساتھ نہیں تھا اپنے کسی اکھڑ رکن اسمبلی کو سبق سکھانا مقصود ہوتا تو اس کی بیٹی اٹھا لینے کی دھمکی دی جاتی اور اس کام کے لیے باقاعدہ ایک فورس بنائی گئی تھی جسے نتھ فورس کا نام دیا گیا تھا۔“

نواز شریف نے اپنے تیسرے دور حکومت میں احتساب کا ادارہ بنایا اور اس کا سربراہ سیف الرحمن کو بنایا۔ سیف الرحمن کی سربراہی میں بننے والے اس ادارے نے سیاسی مخالفین کو ناکوں چنے چبوائے کہ لوگ اسے ”احتساب الرحمن“ کہنے لگے۔ سیف الرحمن نے پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے خاوند سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف اتنے مقدمات بنائے کہ آصف زرداری تو جیل میں چلے گئے اور محترمہ مقدمات کی پیروی کے سلسلے میں ایک دن کراچی دوسرے دن لاہور اور تیسرے دن اسلام آباد ہوتی۔

جنرل مشرف نواز شریف کو حکومت سے نکال باہر کرتے ہیں اور خود اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں۔ مشرف سیاست دانوں کو قابو کرنے کے لیے ”نیب“ بناتے ہیں۔ جنرل شاہد عزیز نیب سربراہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک“ میں لکھتے ہیں کہ میں جب نیب چیئرمین تھا تو انتخابات کی تیاریاں شروع کرنے کا وقت تھا۔ جس میں نیب کو استعمال کرنے کا ارادہ تھا۔ ان دنوں مجھ سے حکومت نے ان سیاستدانوں کے نام مانگے جن کے خلاف تفتیش چل رہی تھی۔

میں نے نام دینے سے معذرت کر لی۔ میں جانتا تھا کہ یہ نام سیاسی سودے بازی کے لیے مانگے جا رہے ہیں۔ مجھ پر کافی دباؤ رہا۔ جب کہیں سے بات نہ بنی تو ایک پارلیمینٹری کمیٹی سے مجھے خط لکھوایا گیا کہ یہ نام پارلیمنٹ کو چاہئیں، میں نے نام نہیں دیے۔ مجھے اعلی سطح پر سمجھایا گیا کہ تم پارلیمنٹ کی اتھارٹی کو شاید سمجھتے نہیں ہو تم انکار کر کے اپنے لیے مشکل کھڑی کر رہے ہو۔ میں نے کہا کہ ہمارا آئین ہر شہری کی عزت کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ پارلیمنٹ کو سمجھنا چاہیے کہ میرے نام دینے سے آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اگر میں حد سے تجاوز کر رہا ہوں تو مجھے کورٹ لے جائیں عدالت حکم دیتی ہے تو میں نام دے دیتا ہوں۔ میں نے اخبار میں خبر دی کہ اس مرتبہ نیب انتخابات میں حصہ نہیں لے رہا، مقصود یہ تھا کہ اس سلسلے میں دباؤ ڈالا گیا تو بات عوام میں کھل جائے گی۔

نیم سیاسی حکومت ہو یا فوجی ہر ایک نے سیاسی مخالفین کی سرگرمیوں کو کچلنے کے لیے اس طرح کے اداروں کا سہارا لیا۔ ہر حکومت کا ایک مشن رہا جو جتنا زیادہ بولتا ہے اس طرح کے اداروں کا سہارا لے کر اس کے خلاف بے بنیاد مقدمات بنائے جاتے ہیں۔ ماضی میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومتیں رہی مگر انھوں نے اس پر قانون سازی نہیں کی۔ دونوں اطراف سے بیانات میڈیا کی زنیت بنتے رہے کہ نیب قوانین میں تبدیلی لا رہے ہیں اور یہ صرف بیان بازی تک محدود رہا۔ آج تحریک انصاف نیب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے تو کل یہی ادارہ ان کے خلاف استعمال ہو گا۔ ضرورت ہے کہ حکومت اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر اس نیب قوانین میں تبدیلی لائے اور اسے سیاسی دسترس سے مکمل آزاد کرے۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments