کیا واقعات سے اصول اخذ کرنا درست ہے؟


انسانوں پر طویل عرصہ ایسا گزرا ہے جب بقول اقبال، خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر۔ تجریدی فکر تک ابھی رسائی نہیں ہوئی تھی یا عام نہیں تھی۔ چنانچہ اس وقت سبق آموز واقعات کو بہت مقبولیت حاصل ہوتی تھی۔ ایسپ کی حکایات سے لے کر حکایات سعدی تک ایک طویل سلسلہ ہے جہاں پہلے ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے اور پھر اس سے اخلاقی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا تو اردو کی کتاب میں ایفائے عہد کے سلسلے میں نبی کریم ﷺ سے منسوب ایک واقعہ شامل نصاب تھا۔ واقعہ مشہور ہے اس لیے اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ برسوں بعد ذہن میں اس شبہ نے سر اٹھایا کہ یہ واقعہ درست نہیں ہو سکتا۔ کیا یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ آپ تین دن ایک مقام پر کھڑے رہیں، نہ آپ کے گھر والوں کو کوئی تشویش ہوئی ہو کہ آپ کہاں ہیں، نہ مسجد نبوی میں نمازوں کے اوقات میں آپ کو غیر حاضر پا کر صحابہ کو کسی قسم کی پریشانی لاحق ہو، نہ کوئی آپ کی تلاش میں روانہ ہوا ہو؟

ایک سوال ہر سوچنے سمجھنے والے ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ آیا دینی اور دنیوی معاملات میں کچھ فرق و امتیاز ہے یا سبھی کو ایک ہی معیار پر جانچا اور پرکھا جائے گا۔ مذہبی متن کا مطالعہ کر کے یہ بات بآسانی معلوم کی جا سکتی ہے کہ مذہب کے انسان سے بنیادی مطالبات کیا ہیں اور کون سے وہ فرائض ہیں جو انسان نے مذہب کی رہنمائی میں ادا کرنے ہیں اور کون سے وہ معاملات ہیں جو انسانوں کی اپنی صواب دید پر مبنی ہیں۔ لیکن مذہبی ذہن کو دینی اور دنیوی معاملات میں فرق کرنے کے لیے سند درکار ہوتی ہے اور سند لانے کے لیے یہ واقعہ گھڑا گیا۔

صحیح مسلم (کتاب الفضائل) میں ایک روایت ہے : ”انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کچھ لوگوں پر گزرے جو گابھہ کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا اگر نہ کرو تو بہتر ہو گا (انھوں نے نہ کیا) ۔ آخر کھجور خراب نکلی۔ آپ ادھر سے گزرے اور لوگوں سے پوچھا، تمھارے درختوں کو کیا ہوا۔ انھوں نے کہا آپ نے ایسا فرمایا تھا (گابھہ نہ کرو، ہم نے نہ کیا۔ اس وجہ سے کھجور خراب نکلی) ۔ آپ نے فرمایا، تم اپنے دنیا کے کاموں کو مجھ سے زیادہ جانتے ہو۔“ (اردو ترجمہ علامہ وحید الزماں۔ )

اس روایت کو پڑھتے ہی ذہن میں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں جو اسے درست تسلیم کرنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے کس بنا پر لوگوں کو اس عمل سے منع کیا۔ نبی کریم ﷺ کا تعلق عرب سے تھا اور یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ کسی عرب کو کھجور کے متعلق معلومات نہ ہوں۔ یہ کہنا کہ نبی کریم ﷺ کا مولد چونکہ مکہ تھا اور وہاں کھجور کی کاشت نہیں ہوتی تھی، بہت کمزور موقف ہے۔ آپ نے اپنی حیات مبارکہ میں شام تک متعدد اسفار کیے تھے، عرب کی ثقافت سے بہت اعلیٰ درجے کی آگاہی رکھتے تھے، اس لیے یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ آپ کھجور کے متعلق جانکاری نہ رکھتے ہوں۔

دوسری بات یہ ہے کہ مدینہ کے لوگ زراعت پیشہ تھے۔ جو لوگ صدیوں سے ایک کام کرتے آ رہے ہوں، وہ ایک ہی صورت میں اسے ترک کرنے پر آمادہ ہو سکتے تھے اگر ان سے یہ کہا جاتا کہ یہ حکم خداوندی ہے۔ اس زمانے کی عام بات یہی ہے کہ وہ لوگ آنحضرت ﷺ سے یہ استفسار کیا کرتے تھے کہ آپ کے ارشاد کی بنیاد وحی الٰہی ہے یا آپ کی ذاتی رائے ہے۔ اس وجہ سے ان لوگوں نے آپ سے یہ استفسار کیوں نہیں کیا کیونکہ یہ ان کے لیے بہت انہونی بات تھی۔

لطف کی بات یہ ہے کہ جو لوگ روایات کے متعلق بہت تنقیدی رویہ اپنائے ہوئے ہیں وہ بھی اس حدیث کو بلا جھجک بیان کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ اس سے ایک مفید مطلب نتیجہ برآمد ہو رہا ہے۔ دینی و دنیوی امور میں فرق ضرور ہے لیکن اس فرق کو بیان کرنے کے لیے جو سند وضع کی گئی ہے اسے درست تسلیم کرنا مشکل ہے۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ بہت مشہور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب قحط پڑا تو آپ نے قطع ید کی سزا موقوف کر دی۔ کیا یہ روایت درست ہو سکتی ہے؟

اٹھارہ ہجری میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حجاز میں قحط پڑنے کا تذکرہ ہماری تاریخوں میں ملتا ہے جسے عام الرمادہ کہا جاتا ہے۔ اس کا تفصیلی بیان ابن کثیر کے ہاں ملتا ہے۔ اس قحط کا سبب خشک سالی تھی۔ قحط کا یہ زمانہ نو مہینے تک جاری رہا پھر بارش ہونے کے بعد خشک سالی کا خاتمہ ہو گیا۔

اس قحط اور اس کے بیان پر بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ دنیا کا شاید واحد قحط ہو گا جس میں کوئی انسان بھوک اور فاقے سے ہلاک نہیں ہوا کیونکہ کسی تاریخ میں نہ ہلاک ہونے والوں کی کوئی تعداد بیان کی گئی نہ کسی فرد کا نام لیا گیا ہے۔ طبری کے مطابق عمواس کی طاعون میں 25 ہزار لوگ ہلاک ہوئے، جن میں بہت سے کبار صحابہ بھی شامل تھے جن کا نام بنام تذکرہ کیا گیا ہے۔ ابن کثیر کے مطابق قحط نو مہینے تک جاری رہا جو کافی زیادہ مدت ہے۔ اگر اس مدت کو تسلیم کر لیا جائے تو ہلاک ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہونی چاہیے تھی۔

اسی ضمن میں ایک روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ حاطب ابن ابی بلتعہ کے غلاموں نے عام الرمادہ میں ایک شخص کی اونٹنی چرا کر اسے ذبح کیا اور کھا گئے۔ جب مقدمہ حضرت عمر کے سامنے پیش ہوا تو ان غلاموں نے اعتراف کر لیا اور یہ بھی کہا کہ ہم نے سخت مجبوری کے عالم میں یہ چوری کی ہے۔ حضرت عمر نے ان کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا لیکن بعد میں اس فیصلہ سے رجوع کر لیا اور ان کے مالک کو بلایا کہ تم انھیں شاید بھوکا رکھتے ہو۔ اتنی ہی کارروائی پر اکتفا کرتے ہوئے حد موقوف کر دی۔ لیکن حضرت عمر نے غلاموں کے مالک پر تاوان عائد کیا اور اونٹنی کے مالک کو دگنی قیمت دلوائی۔

اس روایت کو ایک نظر دیکھنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کا زمانہ قحط سے کوئی واسطہ نہیں۔ اگر زمانہ قحط سے تعلق ہوتا تو غلاموں کا مالک یہ جواب دیتا کہ میرے اپنے پاس کھانے کو کچھ نہیں، میں ان کو کہاں سے کھلاؤں۔ پھر حضرت عمر اس پر تاوان عاید کرتے اور اونٹنی کے مالک کو دگنی قیمت بھی دلواتے ہیں۔

میرا گمان یہ ہے کہ دور فاروقی میں قحط کا یہ واقعہ کچھ اسباب کی بنا پر گھڑا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ عرصہ خشک سالی کی وجہ سے خوراک کی تھوڑی قلت ضرور ہوئی ہو گی جو حضرت عمر کے بروقت انتظامی اقدامات سے دور ہو گئی جیسا کہ ابن خلدون نے بیان کیا ہے۔ لیکن بعد میں کچھ مخصوص نتائج اخذ کرنے کی خاطر قحط کی شدت کو بیان کرنے میں بہت مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا۔

مذہبی فکر کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا دار و مدار سند اور اتھارٹی پر ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں چوری کی سزا قطع ید بیان کی گئی ہے جو بلاشبہ بہت سخت سزا ہے۔ اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ چوری کی تعریف کیا ہو گی؟ کیا ہر چوری پر بلا امتیاز قطع ید کی سزا دی جائے گی یا مجرم کے احوال کو بھی دھیان میں رکھا جائے گا؟ ان سوالات کا جواب انسانی عقل کو استعمال کرتے ہوئے تلاش کرنا کچھ مشکل نہیں لیکن مذہبی فکر عقل پر استدلال کی بنیاد رکھنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔

اس بنا پر اسے سند و نظیر کی تلاش میں واقعات و روایات کو وضع کرنا کرنا پڑتا ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ یہ کوئی جداگانہ واقعہ ہے جسے قحط کے زمانے کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔ چونکہ عمر رضی اللہ عنہ نے زمانہ قحط میں غلاموں کے احوال کی رعایت کرتے ہوئے قطع ید کی سزا کو معطل کر دیا تھا، چنانچہ سزا کے نفاذ کے وقت مجرم کے احوال کو بھی دیکھا جانا چاہیے۔

تقدس مآب شخصیات کی زندگی کے واقعات کو اخلاقی اصول قرار دینے سے انسانی شخصیت پر کوئی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں یا نہیں، اس کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن یہ انسان کی انتقادی تفکر کی صلاحیت پر منفی اثر ضرور ڈالتے ہیں۔ فلسفے میں یہ تقریباً طے شدہ اصول ہے کہ واقعات سے اصول اخذ نہیں کیے جا سکتے۔ اخلاقیات میں اسے ’ہے‘ اور ’چاہیے‘ کے مغالطہ کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی مرید یہ دعویٰ کرے کہ اس کے پیر صاحب دن میں دو بار غسل فرماتے ہیں تو یہ امر واقعہ کا بیان ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ سب کو دن میں دو بار نہانا چاہیے یا دن میں دو بار نہانا اچھی بات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments