خبرناک اور مجید امجد


مجید امجد نے کہا تھا
جانے کتنی ایسی روحیں ان کمیں گاہوں میں ہیں،
کون ہو ان کا حریف،
کاش اس خنداں ہزیمت کا تصور، ایک دن،
ہو سکے خود ان کے دل پر حملہ آور، فتح یاب!

گزشتہ دنوں جیو نیوز کے کامیڈی پروگرام ”خبرناک“ میں مجید امجد کی سالگرہ کے موقع پر انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک سیگمنٹ پیش کیا گیا۔ سیگمنٹ کے فارمیٹ کے مطابق مجید امجد کا مماثل کردار (ڈمی) بھی تیار کی گئی تھی۔ ڈمی سے مجید امجد کی سادگی، متانت اور چہرے سے عمومی تفکر ظاہر ہو رہا تھا اور اس کی خاموشی سے مجید امجد کی حقیقی شخصیت میں موجود کم گوئی کا عنصر نمایاں ہوا۔ ۔ ۔ سیگمنٹ میں مجید امجد کی زندگی، مزاج اور فن پر ہلکے پھلکے انداز میں گفتگو کی گئی۔

بے شمار لوگوں نے اس سیگمنٹ کو سراہا اور بعض نوجوانوں نے اتنے اہم شاعر سے تعارف پر شکریے کے پیغامات بھیجے۔ پروگرام میں موجودہ دور میں اچھے شعرا کی کم یابی کا ذکر اکثر کیا جاتا ہے اور اس کی وجوہات بھی زیر بحث لائی جاتی ہیں مگر سرفراز انور صفی اور ان جیسے کچھ اور لوگوں کی سطحی تنقید سے کچھ اور موضوعات ہاتھ لگے۔ مثلاً

٭ موجودہ دور میں سخن فہمی کا فقدان
٭ مزاح شناسی کی ضرورت اور اہمیت

میری پروڈیوسر صاحب سے استدعا ہوگی کہ ان موضوعات پر فن کارانہ سیگمنٹس تیار کروائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سرفراز انور صفی کا مضمون بعنوان ”مجید امجد کا مذاق اڑانے والے جیو کا بائیکاٹ“ جو کہ پھکڑ پن کی بدترین مثال ہے، پڑھ کر یہ حقیقت سامنے آئی کہ جدید دور کے شعرا کو اچھے نقادوں کا نہ ملنا بھی ایک المیہ ہے۔ ۔ ۔ موجودہ دور کے شعرا کو نقادوں کے روپ میں زیادہ تر ایسے حاشیہ بردار میسر آئے ہیں، جو شعروں سے زیادہ شاعر کی شخصیت پر واہ واہ کر کے اپنے آپ کو سخن فہموں میں شمار کیے ہوئے ہیں، ان کو اس چیز سے کوئی غرض نہیں کہ شعر میں کیا کہا گیا اور کیسے کہا گیا، شاعر کے کلام سے عدم دلچسپی کا طرفہ تماشا اس سے زیادہ کیا ہو گا کہ سرفراز انور صفی جو اپنے آپ کو کشتہ مجید امجد ثابت کرتے ہیں مگر ان کی مجید امجد کے کلام سے واقفیت سماچار۔ پی کے میں شائع شدہ مذکورہ کالم میں انھی کے الفاظ میں دیکھیے :

”مجید امجد ہی کے بقول ہم سب ایسے پیڑ بن جائیں گے جن کو دیمک لگا ہوا ہے۔ مجید امجد کہتے ہیں :
پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں کو ہی امجد ہم نے بچتے دیکھا کم ”

ایک معمولی پڑھا لکھا انسان بھی یہ جانتا ہے کہ یہ امجد اسلام امجد کا مشہور شعر ہے۔ کچھ ایسا ہی شعری شعور راحت ملک کے ہاں نظر آتا ہے، جن کا کالم ”زوال آمادگی:مجید امجد کی تضحیک تک“ بے موقع الفاظ اور بے ربط خیالات کا مجموعہ ہے، اس کالم میں جذباتی ہیجان کے زیر اثر بدبودار گھسے پٹے الفاظ استعمال کر کے مجید امجد کی تضحیک کا نتیجہ اخذ کر لیا گیا ہے۔

ان ادبی و صحافتی بزرجمہروں میں تنقیدی فہم و برداشت کی یہ حالت ہے کہ کبھی کوئی شخص ان کے مزاج کے بر خلاف کوئی بات کہہ دے تو یہ جتھے بندی کے لیے کمر بستہ ہو کر گالم گلوچ کرنے پر اتراتے نظر آتے ہیں۔ ۔ ۔ یہی رویہ ان کا مزاح کے بارے میں ہے۔ ایسے لوگوں کو مزاح سننا اور دیکھنا پسند ہے، مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ مزاح کا معیار ان کی ذاتی پسند اور نا پسند کے مطابق ہونا چاہیے۔ وقت کے بدلتے تقاضوں، جدید ٹیکنیک اور پروگرام کی حدود و قیود سے انھیں کوئی سروکار نہیں! کچھ ایسی ہی تنگ نظری سے کام لیتے ہوئے چند لوگوں نے مجید امجد سے متعلق خبرناک میں نشر ہونے والے سیگمنٹ پر درج ذیل اعتراضات اور مطالبات اٹھائے ہیں :

1۔ مزاح کا معیار عمدہ نہیں تھا، پروگرام میں ایسی جگتیں کسی گئیں جس سے مجید امجد اور پوری شعراء برادری کی توہین ہوئی۔

2۔ مجید امجد کی ڈمی بنا کر مجید امجد سے اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔
3۔ پروگرام کے سارے لوگ معافی مانگیں، نہیں تو ملک گیر احتجاج کیا جائے گا، پتلے جلائیں گے۔

4۔ اکادمی ادبیات مجید امجد کی توہین کا نوٹس لیتے ہوئے قانونی چارہ جوئی کرے، ورنہ اکادمی کے چیئرمین مستعفی ہوں۔

کچھ وی لاگز میں پروگرام کے ایگزیکٹو پروڈیوسر اور خاکسار سے متعلق وثوق سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہم مجید امجد اور شعر و ادب سے متعلق کچھ نہیں جانتے بلکہ تضحیک آمیز انداز میں سوال اٹھاتے ہوئے ہماری علمی و ادبی حیثیت سے نہ صرف انکار کیا گیا بلکہ پوچھا گیا کہ ہم مجید امجد پر بات کرنے کا حق کیسے رکھتے ہیں!

میں ان اعتراضات اور الزامات کے جوابات اختصار سے پیش کرنے کی کوشش کروں گا :

خبرناک کے ایگزیکٹو پروڈیوسر، ذیشان حسین، انگریزی اور اردو ادب پر یکساں عبور رکھتے ہیں، فلسفہ ان کا خاص میدان اور دلچسپی کی چیز ہے۔ تہذیب و ثقافت کا مطالعہ ان کا معمول ہے۔ غالب، راشد اور فیض کی تفہیم میں انھیں ملکہ حاصل ہے۔ خبرناک میں شعر و سخن، مختلف علوم اور سیاحت سے متعلق سیگمنٹ انھی کے ذوق کا نتیجہ ہیں۔ ۔ ۔ جہاں تک اس بنیادی سوال کا تعلق ہے کہ خاکسار مجید امجد پر بات کرنے کا حق کیسے رکھتا ہے، عرض ہے جن دنوں مجید امجد کا کلیات ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا مرتب کر رہے تھے، ان کی معاونت میرے استاد مکرم، اس وقت کے صدر شعبہ اردو، اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور، ڈاکٹر شفیق احمد کر رہے تھے، گو کہ میں مجید امجد کا شعری مجموعہ ”شب رفتہ“ اور ”ان گنت سورج“ (انتخاب) پڑھ چکا تھا اور اس وقت دستیاب محمد حیات خاں سیال کا مرتبہ، مجید امجد پر لکھے گئے تنقیدی مضامین کا واحد دستیاب مجموعہ ”گلاب کے پھول“ پڑھ کر اس نابغہ ہستی کی ادبی قامت کا اندازہ کر چکا تھا۔ مگر مجید امجد کی نظموں کی کامل و راست تفہیم اور ان کی ہئیتی تجربات میں مہارت کا ادراک کامل طریق سے نہیں ہو پایا تھا۔ جب میں نے استاد مکرم سے مجید امجد کی مختلف نظموں کے متون پر بات کی تو مجھے حیرت ہوئی کہ مجید امجد کی نظموں کے کئی شائع شدہ تجزیوں کا ان نظموں کی روح سے کوئی تعلق نہیں۔ ۔ ۔ جس نے جیسے سمجھا بیان کر دیا۔ استاد مکرم کی باتوں کو استناد کا درجہ اس لیے حاصل تھا کہ انھوں نے اپنی دانش کے ساتھ خواجہ محمد زکریا سے اکتساب کیا تھا جنھوں نے مجید امجد کی زندگی میں ان سے بے شمار ملاقاتیں شعری مباحث کے لیے کی تھیں۔

1991 ء میں جب میں بسلسلہ ملازمت ڈی پی ایس، ساہیوال سے منسلک ہوا، تو مجھے فخر تھا کہ میں اس شہر میں ہوں جہاں مجید امجد رہا کرتے تھے، خدا بھلا کرے محمود ملتجی (مرحوم) اور ظفر جواد کا کہ انھوں نے مجھے مجید امجد کے کئی دوستوں سے ملوایا، مجید امجد کے بارے میں بے شمار باتیں میں نے ان سے سن کر نوٹ کیں، شام کو ہمیں اسٹیڈیم ہوٹل میں بیٹھنا مجید امجد کی وجہ سے اچھا اور قابل فخر لگتا تھا، گو کہ اس وقت وہاں اگلے وقتوں کی بات نہیں تھی۔

ایک دن نہر کے پاس مجید امجد پارک نظر آیا تو دل پر ضرب پڑی کہ دروازے پر مجید امجد کا نام لکھا تھا اور وہاں اندر کوڑے کے ڈھیر لگے تھے۔ میں نے اگلے روز ہی اس وقت کے ڈپٹی کمشنر خواجہ محمد نعیم کے دفتر جا کر ان کی توجہ اس جانب توجہ مبذول کروائی۔ جب کچھ اثر نہ ہوا تو مہینے میں ایک دوبار یاد دہانی میرا معمول بن گیا۔ خواجہ صاحب مرنجاں مرنج طبیعت رکھتے تھے، بولتے ہوئے اردو، انگریزی میں ٹھیٹھ پنجابی کا تڑکا لگاتے تو بڑا مزا آتا۔

ان سے ملنا اس لیے دشوار نہیں تھا کہ وہ ہمارے بورڈ آف گورنرز کے چیئر مین تھے اور ان کے دو صاحبزادے ہمارے شاگرد۔ ۔ ۔ ایک دن میں ان کی خدمت میں تحریری درخواست برائے صفائی و تزئین مجید پارک لے کر حاضر ہوا تو ان کے پاس اسسٹنٹ کمشنر غلام نبی کروڑی بیٹھے تھے، ڈی سی صاحب نے فوراً درخواست پر کچھ لکھا اور اے سی صاحب کو تھما دی، انھوں نے پڑھ کر کہا، کہ فنڈز وغیرہ آنے والے ہیں، پھر کچھ کرتے ہیں۔ میں نے تنگ آ کر مگر بڑے ادب سے عرض کی، کہ حضور یہ کام بغیر پیسوں کے فوری ہو سکتا ہے، اے سی صاحب جھٹ بولے کیسے؟

میں نے کہا کہ آپ وہاں سے مجید امجد کا نام مٹا دیں اور وہ جگہ بے شک کوڑے کے لیے استعمال کرتے رہیں! خواجہ صاحب بولے ”ایہہ تے تسی سانوں شرمندہ ای کیتا“ اور پھر اگلے روز سے پارک کی صفائی کا کام شروع کروا دیا۔ ۔ ۔ چند برس پہلے میں نے اپنی معلومات اور مطالعے کی روشنی میں مجید امجد سے متعلق ایک مفصل مضمون ”مجید امجد کی شعری کائنات“ رقم کیا، جو سہ ماہی ”مخزن“ لاہور میں شائع ہوا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments