لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے


جب سے ہمارے بہت سے لوگ امریکہ، یورپ اور مشرق وسطی میں روزگار اور بہتر زندگی کی تلاش میں جانا شروع ہوئے ہیں اس وقت سے ایک بات نہایت تواتر سے کہی اور سنی جاتی ہے کہ امریکہ میں یہ سہولت ہے اور مغرب میں یہ۔ سعودی عرب کے ہسپتال اتنے بہترین ہیں اور امارات والے اپنے لوگوں کا ایسے خیال رکھتے ہیں۔ ان سب باتوں کا منطقی نتیجہ یہ نکالا جاتا ہے کہ

اول : ہم ایک بد دیانت قوم ہیں
دوم : ہمارے حکمران اور اشرافیہ خود غرض اور بے ایمان ہیں۔
سوم : ہماری ترجیحات عوام کی فلاح کی بجائے محدود طبقے کے مفادات کے تحفظ کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔

ہر چند ان تمام باتوں میں بڑی حد تک صداقت ہے مگر ہمارے سب تجزیہ کار چند معاشی اشاریوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر جاتے ہیں جس کے باعث اکثر اوقات ہم غلط نتائج تک پہنچتے ہیں جس سے اسی قدر غلط پالیسیاں مرتب ہوتی ہیں

ان تجزئیاتی مغالطوں سے نجات پانے کا سب سے بہترین طریقہ پاکستان کی شماریات کا محدود مگر مربوط تجزیہ ہے۔

سمجھنے میں آسانی کے لئے ہم اعداد و شمار کو تھوڑا آسان کر لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم اشاریہ مجموعی قومی پیداوار ہے۔ آسانی کے لئے سمجھ لیں کہ اگر اس ملک میں موجود تمام لوگوں کی سالانہ آمدنیوں کو جمع کر لیا جائے تو لگ بھگ یہی رقم ہماری مجموعی قومی پیداوار ہو گی۔ ویسے تکنیکی طور پر ایک مالی سال میں ملک کی جغرافیائی حدود میں بنائی جانے والی تمام اشیا اور لوگوں کی جانب سے فراہم کی جانے والی خدمات کی مجموعی مالیت کا تخمینہ ہماری مجموعی قومی پیداوار کہلاتا ہے۔

آئیے اب اشتراکی فلسفے کی سب سے آسان شناخت یعنی معاشی مساوات کو ہم اپنے اعداد و شمار پر آزما کر دیکھیں۔

سمجھ لیجٰیے کہ ہماری مجموعی قومی آمدن چالیس ہزار ارب روپے ہے۔

اب سمجھئیے کہ ہم نے ایک سال اپنی تمام قومی آمدن ملک کے تمام یعنی قریب 23 کروڑ لوگوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ اب اس رقم کو یومیہ فی کس آمدن میں بدلنے کے لئے اس رقم کو 365 سے تقسیم کر دیں تو جواب 470 روپے نکلتا ہے۔ یعنی ہم اگر مکمل مساوات بھی قائم کر دیں اور حبیب بینک کے مالک اور قلعہ عبداللہ کے غریب ترین فرد کو ایک جیسا حصہ دیں تو بھی ہر شہری کے حصے میں 470 روپے روزانہ آئیں گے۔ اب اس 470 روزانہ یا 15000 ماہانہ میں تعلیم، صحت، خوراک، مکان کا کرایہ کپڑے، جوتے اور بجلی / فون کا بل دے کر دکھائیں۔

اب اس 15000 روپے ماہانہ کو اگر سولہ گنا مزید بڑھایا جائے تو ہم سعودی عرب کی برابری کا دعوی کر سکتے ہیں اور 22 گنا پر جنوبی کوریا کا۔ اب اس سولہ اور بائیس گنا کرنے لئے پچھلے 70 سال کی اوسط دو فیصد سالانہ کی رفتار سے کتنے سو سال درکار ہوں گے اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ اس شرح نمو سے سو سال میں صرف سات گنا ترقی ممکن ہے۔

اب اسی بات کو ایک اور رخ سے دیکھتے ہیں۔ حکومت مجموعی قومی پیداوار کا قریب پانچواں حصہ یا 8 کھرب روپیہ خرچ کرتی ہے جس میں سے 4 کھرب ٹیکسوں سے اور ایک سے ڈیڑھ کھرب دیگر ذرائع آمدن سے آتا ہے اور بقایا ڈھائی سے تین کھرب سالانہ قرضوں سے جس میں قومی بچت اور بینکوں سے لئے گئے قرضہ جات وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ حکومت کا خزانہ یا ذریعہ آمدن ہر سال تقریباً خالی ہو جاتا ہے اور یکم جولائی سے اس میں نئے سرے سے ٹیکس اور نان ٹیکس آمدن شروع ہوجاتی ہے۔ واضح رہے کہ یہاں حکومت کی بیلنس شیٹ کی بجائے اس کی آمدن اور اخراجات کی بات ہو رہی ہے۔ حکومت کے اس خرچ میں صوبوں اور وفاق میں تعلیم پر خرچ ہونے والے ایک کھرب اور صحت پر مختص 350 ارب روپے بھی شامل ہیں

اب ایک کھرب یا 1000 ارب کو ملک کی تعلیمی ضروریات کے لئے اس کی سکول، کالج، یونیورسٹی جانے والی 10 کروڑ آبادی پر تقسیم کیجئے۔ جواب آتا ہے 10 ہزار یعنی کل 830 روپے ماہانہ۔ اب اس رقم سے سکول / کالج / یونیورسٹی کی عمارت بھی بنائیں اور ٹیچرز کی تنخواہ بھی دیں اور معیار بھی برقرار رکھ کر دکھائیں۔

معیاری تعلیم کے اخراجات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لاہور کی لمز یونیورسٹی میں 75 ہزار ماہانہ فیس کے باوجود ادارے کو نقصان ہوتا ہے۔ جسے ڈونیشن سے پورا کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مناسب معیار کی تعلیم کے لئے اس ایک کھرب کو شاید کئی گنا کیے بغیر ہم اس ملک میں ہنر مند اور زیادہ پیداواری صلاحیت والے افراد نہیں بنا سکتے۔

اب آئیے صحت کی طرف۔ 350 ارب روپے کو صرف دس فیصد بیمار لوگوں پر خرچ کر کے دیکھئے۔ جواب آتا ہے 15000 فی کس سالانہ۔ اب اس میں ہسپتال بھی بنائیں، دوائیں بھی دیں، طبی عملے کی تنخواہ بھی، مفت ٹیسٹ بھی کروائیں، سٹنٹ بھی ڈالیں، ڈائیلیسز بھی کریں اور جگر کی پیوندکاری بھی۔ اگر نئی سڑکیں بنانے اور پرانی سڑکوں کی مرمت پر خرچ آنے والے پانچ سو سے ایک ہزار ارب سالانہ کو بھی ادھر لگا دیں تب بھی حالات نہیں بدل پائیں گے اور آپ کو وہی ہزاروں لوگ سرکاری ہسپتالوں میں کے برآمدوں میں بے یارومددگار دکھائی دیں گے۔

جس نکتے کی طرف میں سب قارئین کی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارا مسئلہ بے ایمانی اور حکومت کی بڑی کارکردگی سے کچھ بڑھ کر ہے جسے ہم قومی غربت کا نام دے سکتے ہیں۔ سمجھ لیجیے کہ قریب دو سو ملکوں کے اس گاؤں میں ہم 150 نمبر پر ہیں اور وہ بھی یوں کہ امیر ترین ملک ہم سے سو گنا سے زیادہ آمدن والا ہے اور غریب ترین ہم سے ایک تہائی آمدن والا۔ اس گاؤں کے چودھریوں اور زمینداروں کے مقابلے میں ہماری حیثیت کرم دین جولاہے کی سی ہے جس کی دو کھڈیاں ہیں اور وہ کھیس چادر بنا کر اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔

یہ جولاہے کی مثال بھی ایسے ہی آ گئی کہ کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ یہاں زیر بحث نہیں۔ اور اس حوالے میں بھی ہم اس گاؤں کے اکیلے جولاہے نہیں بلکہ اسی گاؤں میں ہم سے بہتر ٹیکنالوجی والی ملیں بھی موجود ہیں۔ اب کرم دین سے یہ تقاضا کہ وہ بچوں کو ایچیسن کالج میں کیوں نہیں پڑھاتا، آغا خان ہسپتال سے علاج کیوں نہیں کراتا؟ اس کے پاس سائیکل کی بجائے گاڑی کیوں نہیں ہے اور سڑک پر جاتے پرانی سائیکل کی چین اترنے سے ایکسیڈنٹ کیوں ہوا؟ کرم دین کی غربت کو دیکھتے ہوئے یہ سبھی کافی لایعنی سوال لگتے ہیں۔

اب کرم دین کو سیٹھ کرم دین بنانے کے لئے دو تین مسائل ہیں۔ یا تو اس کے صحن سے کوئی چھپا ہوا خزانہ نکل آئے اور وہ خزانہ بھی زیادہ گہرا نہ دبا یو جسے نکالنے کے لئے بہت بھاری مشینیں درکار ہوں۔ یا پھر کرم دین کے کھیس اور چادر اس قدر نایاب ہوں کہ بہت مہنگے بکیں۔ یا کرم دین نئی مشینیں لگا کر اور بہت ہنر مند بن کر کچھ ایسی چیزیں بنانے لگے جو دنیا میں بہت کم لوگ بنا سکتے ہوں۔ یا کرم دین کی اولاد گاؤں کے سکول سے پڑھ کر ایسی نکلے کہ شہر جاکر کروڑوں کمائے اور تمام کمائی باپ کے ہاتھ میں لا کر رکھ دے۔ ان ممکنات کے لئے بھی بہت سا سرمایہ درکار ہے جو کرم دین کے پاس نہیں اور اگر مہاجن سے سود لے تو واپسی کے لئے کامیابی شرط ہے ورنہ گھر بھی گروی اور جورو کا زیور بھی سماپت۔ الٹا بچے اور خود بھی مہاجن کے ہاں بے گار پر۔

مگر سوال یہ کہ اسی گاؤں کے علم دین اور محمد بشیر کے خاندانوں نے پچھلے تیس سالوں میں آمدنیوں کو دس گنا تک بڑھا لیا تو کرم دین میں کیا کمی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کاروبار میں اتار چڑھاؤ کے درمیان درست وقت کے کئی مواقع تھے جو گزر گئے اور کرم دین سے درست وقت پر فیصلے نہیں ہوئے۔ مگر یوں بھی نہیں کہ ایسے مواقع پھر دستیاب نہیں ہوں گے۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ پندرہ سے تیس سال کی اس جدوجہد میں ایک دو سال میں معجزوں کی توقع اور ایک دو سال میں سب حاصل کرنے کے لئے قسطوں پر گھر کے استعمال کی گاڑیاں لینا یا دوسروں کی نقل میں قرضہ لے کر بچوں کو بہت مہنگے سکولوں میں پڑھانا کوئی خاص عقل مندی نہیں۔

قومیں اور لوگ صرف چار بنیادوں پر ترقی کرتے ہیں۔ اول قدرتی وسائل جیسے تیل، گیس، کوئلہ، سونا۔ دوم انسانی وسائل یعنی ہنر مند افراد جو 100 روپے کے لوہے کو ہزار روپے کے پرزے میں یوں بدلیں کہ لاگت نہ ہونے کے برابر ہو۔ سوم۔ مشینیں اور آلات جو دن کی ایک کی بجائے لاکھ چیزیں بنا سکتی ہوں اور چہارم۔ ٹیکنالوجی جو مٹی کو سونا بنا دے جیسے ریت سے کمپیوٹر چپ۔ اور ایسی ٹیکنالوجی جو دنیا میں اس لاگت پر بہت کم کم ملک ہی مہیا کر سکیں۔

اب پاکستان کو دیکھئے۔ یہاں قدرتی وسائل سے ترقی کی توقع فی الحال ایک دیوانے کا خواب ہے کیونکہ یہاں کے دریافت معدنی ذخائر کو نکالنے لگیں تو ٹیکنالوجی والے اس ذخیرے کے نوے فیصد سے زائد مالیت ان کو نکالنے کی مد میں لے جائیں گی۔

اگر غور سے دیکھیں تو ہماری ممکنہ ترقی کا دار و مدار ہنر مند افراد، بہترین ٹیکنالوجی اور جدید ترین مشینوں پر ہے۔ اور ان تمام کے حصول کا سفر نہایت صبر آزما ہے۔

ان ذرائع کا حصول بیرونی سرمایہ کاری کے بغیر ممکن نہیں۔ جس کے لئے پاکستان کو ایک ایسا ملک بننا پڑے گا جو اپنی شناخت میں ترقی یافتہ قوموں اور لوگوں کے لئے سرمایہ کاری کی پہلی ترجیح ہو۔ ایسا تبھی ممکن ہے جب دنیا میں ہمارا تاثر ایک نہایت مہمان نواز اور اچھے شہری کا ہو۔ سرمائے کے حامل بڑے ملک ہمارا شمار اپنے دوستوں میں کریں۔ ہمارے لوگ ترقی یافتہ ملکوں کی تہذیب کے لئے اپنے ہاں برداشت پیدا کریں۔ ہماری تجارت کا بڑا حصہ نزدیک ترین ملکوں کے ساتھ لین دین پر مشتمل ہو اور ہمارے لوگوں کی ہنر مندی، مشینوں اور ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے مربوط اور مستقل کوشش کی جائے جس میں کسی حکومت کی تبدیلی سے کوئی فرق نہ پڑے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومت، اپوزیشن، میڈیا اور اشرافیہ اپنی توجہ ان چیزوں سے ہٹا کر وسائل کو کسی مقبول مگر رستے سے ہٹے ہوئے منصوبوں کی سمت نہ جانے دیں چاہے اس سے کتنا ہی سیاسی نقصان کیوں نہ ہوتا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments