جبری گمشدگیوں کا سلسلہ دیر تک چلنے والا نہیں



آج اسلام آباد میں ممتاز صحافی مطیع اللہ جان کو نامعلوم افراد نے غائب کر دیا ہے۔ یار دوستوں کے مطابق ویڈیوز میں ان کی تصویر نظر نہیں آ رہی تو یہ مطیع اللہ جان نہیں ہو سکتے یہ کسی اور کی ویڈیو ہے جو ان کے نام پر لگا کر ہمدردیاں سمیٹی جا رہی ہیں۔

جبکہ ان کے گھر والوں کے مطابق یہ ان کی ہی گاڑی ہے جو ان کی بیوی کے سکول کے باہر سے ملی ہے۔ اب شاید ان کے گھر والوں سے زیادہ یہ لوگ انہیں جانتے ہوں گے۔ جو ماننا تو ایک طرف ابھی تک اسی جبری گمشدگی کی مذمت بھی نہیں کر رہے۔ اگر یہ تاویل مان لی جائے کہ اداروں نے انہیں گمشدہ نہیں کیا۔ ادارے کیوں گم کرنے لگے کیونکہ ان پر تو توہین عدالت کا کیس چل رہا تھا۔ وہ خود ہی ادھر ادھر ہوئے ہیں۔ تاکہ خود کو توہین عدالت سے بچا کر ہمدردیاں سمیٹ سکیں۔

اگر وہ خود سارا ڈرامہ رچا رہے ہیں پھر تو ریاستی اداروں پر لازم ہے کہ انہیں کہیں سے بھی ڈھونڈ کر عدالت میں پیش کرے۔ تاکہ ان پر توہین عدالت کا کیس چل سکے۔ تو آپ کے مخالف کو سخت سزا سنائی جا سکے۔ جیسے سب کو معلوم ہے گمشدگی کے پیچھے کون ہیں۔ ان سے مودبانہ گزارش ہے اگر مطیع اللہ جان نے کچھ غلط کیا ہے تو انہیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرکے ریمانڈ لے لیں۔ اور نہیں تو ان پر ڈھائی کروڑ کی لینڈ کروزر تیس لاکھ میں بیچنے کا ہی کیس ڈال دیں۔ تاکہ آپ کے اغوا کو قانونی راہ مل جائے۔ ان کے گھر والے مطمئن ہو جائیں انہیں دیکھ سکیں ان کی خیریت جان سکیں۔ لیکن خدارا یہ جنگل کا قانون اب بند کردیں۔

مطیع اللہ جان کا لہجہ کڑوا ضرور ہے لیکن وہ معاشی طور پر بے ایمان نہیں ہے۔ مطیع اللہ جان دوسرے تو ایک طرف اپنی برادری سے بھی کٹھن اور درست سوال کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ اسی لیے جب انہوں نے صحافیوں کی بے ضابطگیوں اور بدایوانیوں پر ڈان نیوز پر ایک پروگرام شروع کیا تو کچھ ہی قسطوں کے بعد چینل کو وہ پروگرام بند کرنا پڑا۔ کیونکہ مطیع اللہ نے اپنے کھڑے سوالوں سے اپنی برادری میں سے ہی بہت سوں کو اپنا دشمن بنا لیا تھا۔ ملک کے نامور صحافیوں روؤف کلاسرا اور آصمہ شیرازی کو جس طرح مطیع نے لاجواب کر رہے رکھ دیا تھا وہ بہت پرانی بات نہیں ہے۔

حضور ہمیں معلوم ہے آپ کے پاس کالے رنگ کے چمچماتے ہوئے کافی ویگو ڈالے دستیاب ہیں جو صرف دھونس اور دھمکیوں کے سلسلوں کے لیے استعمال کئیے جاتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں مخالفین کا نان و نفتہ بند کرنا آپ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ آپ کو آنکھ کو گو ذرا سی جنبش دینا پڑتی ہے حضور آپ کے عدو پر زمین تنگ ہو جاتی ہے آسماں دور سرکتا جاتا ہے۔

جناب آپ اس ملک کے مائی باپ ہیں۔ ہماری کیا محال آپ کو کچھ سمجھائیں۔ آپ اپنی دانست میں عقل کل بنے پھرتے ہیں۔ لیکن اب آپ کو اپنی اداؤں پر غور کرنا بنتا ہے۔ کیونکہ اب لوگ آہستہ آہستہ آپ سے ڈرنا چھوڑ کر سوال کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ میں تو ان لوگوں کی باتیں سن کر بھونچکا رہ جاتا ہوں۔ جو کچھ عرصہ تک آپ کے رستے میں آنکھیں بچھائے نہیں تھکتے تھے۔ اب وہ بھی آپ پر سوالوں کے نشتر چلانا شروع ہو گئے ہیں۔ مجھے خوف رہنے لگا ہے یہ حصار ستم آج نہیں تو کل ٹوٹ جائے گا۔ یہی محکوم کل اٹھ نہ بیٹھیں۔ آپ اپنا قبلہ درست فرما لیجیے۔ آپ طاقت کے نشے میں چوڑ چوڑ ہیں آپ ادھر کان نہیں ڈھریں گے۔ مجھے تو پھر بھی آپ سے عقیدت ہے۔ اس لیے آپ کی خیریت نیک چاہتے ہوئے یہ کچھ گزارشات عرض کی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments