سگریٹ نوشی اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا یوٹرن


مئی کے ماہ میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ایک رپورٹ پیش کی کہ سگریٹ نوشی کرنے والے افراد کو کورونا زیادہ متاثر کرتا ہے بہ نسبت اس کے کہ جو سگریٹ نوشی نہیں کرتے۔

بھلا ہو میڈیا کا یہ خبر پہنچی کچھ کمزور دل والے افراد کو اور کچھ زندگی سے پیار کرنے والے کو جن میں ہمارے استاد محترم بھی شامل ہیں نے فوراً سگریٹ نوشی ترک کی اور حفاظتی اقدامات کو اپنے ارد گرد بڑھانا شروع کر دیا۔

قومی ذمہ داریاں پوری کرتے تمام مجاہدین مسلسل سگریٹ نوشی کی کمی محسوس کرتے ہوئے بار بار پانی گرم کرکے غرارے کی مشق کرتے پائے گئے تو کئی مرد مجاہد ٹافیوں اور چیونگم پر ہاتھ صاف کرتے پائے گئے۔ کئی بچے اپنے باپ کی چیونگم چھیننے والے حرکت سے تنگ آکر بار بار سگریٹ کا پیکٹ سامنے لا کر رکھ دیتے تاکہ ان کے حصے کی چیز انہیں مل سکے لیکن جان تو سب کو پیاری ہے کون کورونا کے دنوں میں دوبارہ سگریٹ کو ہاتھ لگانے کی جرات کرے۔ کئی شرارتی بچے اپنی ماں کو شکایت کرتے کہ ہمارا بڑا نقصان ہورہا ہے آپ ہی سمجھائیں اپنے طریقے سے بابا کو۔

ونسٹن چرچل کا مقولہ بہت مشہور ہے کہ مجھے سگریٹ چھوڑنے کا سوچنے کے لیے بھی سگریٹ درکار ہوتا ہے لیکن وہ کورونا وقت میں موجود ہوتے تو انہیں پتا چلتا کہ کورونا وائرس عام ہے تو وہ اس مقولے کو ضرور کچھ اس طرح کہتے کہ مجھے سگریٹ چھوڑنے کے لیے قہوہ اور گرم پانی درکار ہے جس کے غرارے کرلوں تاکہ زندگی بچ جائے پھر سگریٹ ساتھ بھی دیکھی جائے گی۔

وزیر اعظم پاکستان یوٹرن لینے میں کافی مشہور ہوئے اور اب بھی یوٹرن لینے کے ماہر ہیں۔ عالمی ادارے ان سے اس حد تک متاثر ہیں میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن اب مجھے نئی دنیا بنتی نظر آ رہی ہے جس میں سب کچھ نیا ہوگا۔ جس طرح نئے پاکستان کی بنیاد رکھی گئی اگر اسی طرح خاں صاحب کو فالو کرتے رہے تو نئی دنیا کی بنیاد بھی دور نہیں۔ بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی ہم واپس یو ٹرن پہ آتے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت نے کچھ دنوں بعد کہا کہ سگریٹ نوشی کرنے والوں کو کورونا وائرس متاثر نہیں کرتا جب سگریٹ نوشی نا کرنے والوں کو کورونا زیادہ متاثر کرتا ہے یہ سننا تھا کہ جو چھوڑ چکے وہ بھاگے بھاگے الماریوں میں رکھے سگریٹ کے پیکٹ پر دوڑے اور جو نہیں پیتے تھے وہ کار خیر سمجھ کر برانڈڈ سگریٹ لینا شروع ہو گئے۔

ایک دفعہ ضیاء الحق قاسمی صاحب علالت کی وجہ سے ہسپتال داخل تھے اور ڈاکٹر صاحب نے سگریٹ نوشی اور زیادہ چلنے پر سختی سے پابندی لگائی تھی۔ ڈاکٹر صاحب راؤنڈ لے کر گئے اور قاسمی صاحب کو سگریٹ کی طلب ہوئی انہوں نے ہسپتال کو فرسٹ فلور عبور کیا پھر کوریڈور سے ہوتے ہوئے ہسپتال سے باہر کھوکھے پر سے تین چار سگریٹ پھوک کر آئے اور واپس یہی سفر کیا اور بیڈ پر لیٹ گئے۔ ڈاکٹر صاحب دوبارہ راؤنڈ پر تشریف لائے تو انہوں نے قاسمی صاحب کی طبیعت پہلے سے بہتر پائی اور تنبیہ کی کہ اگر آپ سختی سے احتیاطی تدابیر پر کاربند رہیں گے تو بہت جلد صحت یاب ہو کر گھر چلے جائیں گے۔ یہ واقعہ مجھے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے یو ٹرن کے بعد رہ رہ کر یاد آ رہا تھا۔

کچھ ایسے افراد جو سگریٹ مانگ تانگ کر گزارا کرتے تھے بیچ میں جب انہوں نے سگریٹ مانگنا چھوڑ دیا تو دینے والے پریشان ہوگئے تھے کہ یار اس کے پاس کہیں دولت تو نہیں آ گئی جو یہ ہم سے سگریٹ نہیں مانگتا پھر خیال آیا کہ کورونا سے موصوف ڈرے ہیں۔ اب یوٹرن کے بعد در بدر کے دھکے کھارہے ہیں اور سگریٹ دینے والا نہیں ملتا۔ اب تو دکاندار بھی کھلے سگریٹ دینے سے دھو کر جواب دیتا ہے۔ اب وہ خود کو کوسیں کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو یہ ان کو بھی سمجھ نہیں آ رہا ہے کیونکہ پاکستان میں کچھ بھی سمجھ آنے والا نہیں ہے۔

حاصل کلام: ہر وہ چیز جو انسانی صحت اور دماغ کے لیے حالات کے مطابق خطرناک ہو سے پرہیز برتا جانا چاہیے چاہے وہ سگریٹ ہو یا دانشوری۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments