کے ایل سیگل کی گائیکی کا سوز


(کندن لال سیگل پر محترم صحافی علی احمد خان کی یہ تحریر قریب 19 برس قبل بی بی سی اردو پر شائع ہوئی تھی۔)

کندن لال سیگل 1904 میں پیدا ہوئے۔ مقام پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ جموں میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد تحصیلدار تھے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ جالندھر میں پیدا ہوئے۔

میں اس بحث میں پڑنا نہی چاہتا اس لیے کہ ان جیسا فنکار یا انسان جہاں بھی پیدا ہو، جس مذہب، فرقے یا برادری میں پیدا ہو، قدرت کی طرف سے اس دنیا اور انسانیت کے لیے عطیہ ہوتا ہے اور کسی ایک علاقے اور برادری کا نہیں رہتا، بلکہ سب کا ہوجاتا ہے۔

ان کے بعض سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی استاد سے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور نہ موسیقی کے کسی معروف گھرانے سے وابستہ تھے لیکن جب جموں میں تھے تو والدہ کے ساتھ مذہبی تقریبات اور مندروں میں بھجن کی محفلوں میں شرکت کرتے اور والدہ کے ساتھ مل کر بھجن خود گایا بھی کرتے۔

بعض سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ جموں کے ایک غیر معروف سے صوفی بزرگ سلمان یوسف کے آستانے پر حاضری بھی دیتے تھے اور بھجن یا عارفانہ کلام سناتے۔ یہ بزرگ خود بھی گاتے تھے اس لئے عین ممکن ہے کہ انہیں موسیقی میں کچھ درک رہا ہو اور انہوں نے سیگل کی اس سلسلے میں کچھ ابتدائی تربیت کی ہو۔

بہر حال یہ طے ہے کہ موسیقی اور گائیکی ان کی رگ رگ میں تو رچی ہوئی تھی لیکن ان کے معاش کا ذریعہ نہیں تھی اور نہ انہوں نے اس کو روزی کا ذریعہ بنانے کا کوئی منصوبہ بنایا تھا۔ اور بنا بھی نہیں سکتے تھے، اس لیے کہ اس زمانے میں موسیقی اور پہلوانی دونوں صرف جاگیرداروں اور رجواڑوں کی سرپرستی میں فروغ پاتی تھیں اور سیگل کچھ اتنے آزاد منش تھے کہ درباروں کے آداب سے مطابقت پیدا کرنا ان کے لیے یقیناً مشکل ہوتا۔

چنانچہ وہ کلکتے پہنچ گئے اور ٹائپ رائٹر بنانے والی کمپنی میں 80 روپے ماہانہ پر سیلز مین کی نوکری مل گئی۔ کلکتے میں ہی کہیں ان کی کسی طرح نیو تھئیٹر کے بانی بی۔ این۔ سرکار سے مڈبھیڑ ہو گئی اور انہوں نے ان کو گلوکار کے طور پر دو سو روپے ماہانہ پر ملازمت دیدی۔

نیو تھئیٹر میں اس زمانے میں رائے چند بورل، تامیر برن اور پنکج ملک موسیقار تھے جن میں بورل سب سے سینئیر تھے اور انہوں نے سیگل کے فن میں نکھار اور پختگی پیدا کرنے میں یقیناً بڑا نمایاں کردار ادا کیا ہو گا، اس لیے کہ نیو تھئیٹر کی فلموں نے سیگل کو ہندوستان گیر شہرت دی اور ان موسیقاروں کی بنائی ہوئی دھنوں پر ہی انہوں نے وہ نغمے گائے جنہوں نے انہیں امر بنا دیا۔ مثلاً دیو داس کا یہ نغمہ ’دکھ کے دن اب بیتت ناہیں‘ یا ’بالم آئے بسو میرے من میں یا فلم اسٹریٹ سنگر کا یہ گیت‘ بابل مورا نیہر چھوٹو جائے ’وغیرہ وغیرہ۔

نیو تھئیٹر نے ابتداء میں سیگل کے ساتھ جو تین فلمیں بنائیں وہ مالی اعتبار سے ناکام رہیں۔ ان میں پہلی محبت کے آنسو، زندہ لاش اور صبح کا تارہ شامل ہیں۔ 1933 میں بھی نیو تھئیٹر نے تین فلمیں ریلیز کیں جن میں پورن بھگت، راج رانی میرا او اور یہودی کی لڑکی شامل ہیں۔ اگرچہ یہ فلمیں کامیاب رہیں لیکن ان کی کامیابی سے زیادہ سیگل کو شہرت ملی اور بحیثیت اداکار اور گلوکار وہ پہچانے جانے لگے۔

1934 میں نیو تھئیٹر نے مزید تین فلمیں ریلیز کیں جن میں چندی داس نے سیگل کو وہ مقام دیا جہاں سے انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا یہاں تک کہ دوسرے سال یعنی 1935 میں دیو داس نے ان کو امر بنا دیا۔

دیو داس سرت چندر چٹرجی کا وہ شہرہ آفاق ناول ہے جس نے نہ صرف بنگالی ادب میں ایک گراں قدر اضافہ کیا بلکہ ہندوستانی اشرافیہ اور متوسط طبقے کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے جذبات اور احساسات اور ان کی الجھنوں کو زبان دیدی جو ایک طرف جمہوریت، آزادی، سیکولر ازم اور انسانی مساوات کے سنہرے اصولوں سے واقفیت حاصل کر رہے تھے اور دوسری جانب خود ان کے اپنے سماج میں ان اصولوں کو بڑی بیدردی سے روندا جا رہا تھا۔

دیوداس ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو ایک اعلیٰ ذات کے بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور ساری خوبیوں کا مالک ہونے کے باوجود محض اس بنیاد پر راندہ درگاہ قرار پاتا ہے کہ اسے ایک نیچ ذات کی لڑکی سے محبت ہوجاتی ہے۔

دیو داس صرف بنگال کے نوجوان کی کہانی نہیں تھی بلکہ پورے ہندوستان کے پڑھے لکھے نوجوان کی کہانی تھی اور جب بروا نے بنگالی میں یہ فلم بنائی تو یہ ناول سے بھی زیادہ مقبول ہوئی اس لیے کہ ناول تو صرف پڑھے لکھے لوگ ہی پڑھ سکتے تھے فلم ان پڑھوں نے بھی دیکھی۔ اور میں یہ بھی بتا تا چلوں کہ بنگالی دیوداس میں بھی سیگل نے ایک چھوٹا سا رول کیا تھا اور دو گانے بھی گائے تھے۔ اس فلم کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ہندوستانی میں بھی اسے بنانے کا فیصلہ کیا گیا جس میں سیگل نے دیوداس کا مرکزی کردار ادا کیا جو بنگالی فلم میں بروا نے ادا کیا تھا۔

میں نے یہ فلم دیکھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سیگل نے اداکاری نہیں کی تھی بلکہ وہ خود، وہ نوجوان تھے جس کا کردار سرت بابو نے اپنے اس ناول میں تراشنے کی کوشش کی تھی۔

سیگل نیو تھئیٹر کی کئی کامیاب فلموں میں کام کرنے کے بعد ، جن میں کروڑ پتی، پجارن، دیدی، پریسی ڈنٹ، سٹریٹ سنگر، ساتھی دشمن اور بنگالی کی کئی کامیاب فلمیں شامل ہیں، بمبئی کے رنجیت اسٹوڈیو سے وابستہ ہو گئے اور وہاں اور فلموں کے علاوہ انہوں نے بھگت سورداس اور تان سین میں کام کیا جو ہر اعتبار سے بہت کامیاب فلمیں تصور کی جاتی ہیں۔

سہگل، تان سین کے بعد ، جو 1944 میں ریلیز ہوئی، تین سال اور بلکہ یوں کہیے کہ دو سال اور زندہ رہے اس لئے کہ جنوری 1947 میں ان کا انتقال ہو گیا۔

اس عرصے میں انہوں نے سات فلموں میں کام کیا جن میں سے ایک، اے۔ آر۔ کاردار کی شاہجہاں میں نے 1946 کے اواخر میں یا 1947 کی ابتداء میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بنگلور میں دیکھی تھی۔ اس وقت میری عمر کوئی سات سال ہوگی۔ اس فلم میں اس وقت مجھے صرف وہ مناظر اچھے لگے تھے جن میں نقیب، بادشاہ یعنی شاہجہاں کی آمد جامد پر درباریوں اور حاضرین کو آداب بجا لانے کے لیے ہوشیار کرتے ہیں لیکن بڑے ہونے کے بعد جب دیکھی تو اس فلم میں مجھے کچھ اچھا نہیں لگا سوائے اس کے گانوں کے، بالخصوص وہ گانے جو سیگل نے گائے تھے۔ اور یہ بھی مجھے یاد ہے کہ بنگلور میں فلم دیکھنے کے بعد دوسرے دن ریکارڈ کی ایک دکان پر ’شاہ جہاں‘ اور ’زینت‘ کے ریکارڈ خریدنے اپنے چچا کے ساتھ گیا تو یہ ریکارڈ نہیں ملے۔

شاہ جہاں اس اعتبار سے بھی قابل ذکر ہے کہ اس میں مجروح سلطان پوری نے پہلی مرتبہ کسی فلم کے لیے نغمے لکھے تھے۔

کچھ دنوں کے بعد ہمارا خاندان بنگلور سے مدراس چلا گیا وہاں بھی ان فلموں کے ریکارڈ دستیاب نہیں تھے۔

سیگل کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ میں نے ان کا گیت بابل مورا نیہر چھوٹو جائے سن کر اپنی والدہ کو روتے ہوئے دیکھا ہے اور 1960 میں جب میں کراچی یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور ہوسٹل میں رہتا تھا کبھی کبھی شام کو کچھ دوست مل کر محض سیگل کے نغمے سننے کے لیے کلفٹن جاتے تھے جہاں ایک سی بریز نام کا ریستوراں ہوا کرتا تھا۔ اس میں ایک جوک باکس تھا اور سیگل کے بیشتر ریکارڈ ان کے پاس تھے اور ایک ریکارڈ کا چار آنہ لگتا تھا۔

ہم لوگ سیگل کے ریکارڈ لگا کر گھنٹوں بیٹھے گانے سنتے رہتے۔ اس میں کبھی کبھی میرے دوست اور ممتاز ادیب اور صحافی امر جلیل بھی ساتھ ہوتے۔

سیگل نے جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں موسیقی کی تربیت باقاعدہ کسی استاد سے حاصل نہیں کی تھی بلکہ ان کی یہ صلاحیت خداداد تھی۔ کہتے ہیں وہ ایک بار استاد فیاض علی خان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے اپنی شاگردی میں لینے کی درخواست کی تو انہوں نے کہا ’تم اتنا جانتے ہو کہ میں تمہیں اور کیا سکھا سکتا ہوں‘ یہ بھی مشہور ہے کہ ان کے کسی گیت سے استاد عبد الکریم خان صاحب اتنے متاثر ہوئے کہ انہیں انعام کے طور پر سو روپے کا منی آرڈر بھیج دیا۔ دروغ بر گردن راوی، یہ واقعہ 1937 کا بتایا جاتا ہے جس زمانے میں سو روپے کی رقم اچھی خاصی سمجھی جاتی تھی۔

سیگل نے غزل کی گائیکی میں بھی اپنی ایک منفرد طرز ایجاد کی جو کلاسیکی اصولوں پر پوری اترتی تھی یا نہیں، اس کے بارے میں تو صرف اس فن کے اساتذہ ہی کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ سیگل کی گائی ہوئی غزلیں نہ صرف اچھی لگتی ہیں بلکہ سمجھ میں بھی آتی ہیں۔

اگرچہ انہوں نے سارے ہی بڑے شاعروں کو گایا ہے لیکن غالب سے انہیں جو والہانہ شغف تھا وہ اور کسی شاعر سے نہیں تھا۔ چنانچہ انہوں نے غالب کو کچھ اتنا رچ کے گایا ہے کہ جیسے وہ غالب کا کلام محض گانے کے لیے نہیں بلکہ ہر خاص و عام کو سمجھانے کے لیے گا رہے ہوں۔ مشہور ہے کہ بیگم اختر بھی جو غزل کی گائیکی میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتی تھیں سیگل کی بڑی معترف تھیں۔

سیگل کی آخری فلم پروانہ تھی جو 1947 میں غالباً ان کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے میوزک ڈائریکٹر خورشید انور تھے۔ عام طور پر مشہور ہے کہ ہر میوزک ڈائریکٹر سیگل سے کہتا کہ ریکارڈنگ سے پہلے شراب پی لیا کرو اس سے تمہاری آواز کی نغمگی بڑھ جاتی ہے۔ لیکن خورشید انور نے انہیں شراب کے بغیر ہی ریکارڈ کیا اور یہ فلم تو کوئی ایسی کامیاب نہیں ہوئی لیکن اس کے نغمے بہت مقبول ہوئے اور خورشید انور کو کسی ادارے کی جانب سے اس سال کے بہترین موسیقی کار کا انعام بھی دیا گیا۔

سیگل جنوری 1947 کو جالندھر میں اس سرائے فانی سے کوچ کر گئے۔ انہیں جگر کا کوئی عارضہ ہو گیا تھا۔ غالباً بسیار نوشی نے ان کی زندگی کے سفر کو مختصر کر دیا تھا۔

انتقال کے وقت ان کی عمر 42 یا اس سے ذرا اوپر رہی ہوگی۔ یہ کوئی بہت زیادہ عمر نہیں ہے لیکن اس مختصر سی عمر میں انہوں نے اپنے لئے جو مقام بنایا ہے وہ ان کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments