غلاموں کی تجارت: نوآبادیاتی دور میں افریقی ممالک میں انسانوں کی تجارت کیسے ہوتی تھی؟


غلاموں کی تجارت

نسلی تعلقات، استعمار اور غلامی کے بارے میں عالمی مباحثے کے دوران چند امریکی اور پورپی افراد جنھوں نے اپنی قسمتیں انسانوں کی تجارت کے ذریعے بنائیں ان کی مجسموں کو گِرا دیا گیا اور ان کے نام عوامی عمارتوں سے ہٹائے گئے ہیں۔

نائجیریا کی صحافی اور ناول نگار آدوبی ٹریکا نوبانی لکھتی ہیں کہ ان کے آباد اجداد غلاموں کی تجارت کرتے تھے لیکن وہ کہتی ہیں کہ انھیں آج کی اقدار اور معیار پر پرکھا نہ جائے۔

میرے پرداد نوبانی آگوگو ارائکو، جنھیں میں ایک کاروباری شخص کہتی ہوں، کا تعلق جنوب مشرقی نائجیریا کے ایک نسلی گروہ سے تھا۔ وہ تمباکو اور پام کا کاروبار کرتے تھے۔ وہ انسانوں کی تجارت بھی کیا کرتے تھے اور غلام بیچتے تھے۔

میرے والد نے مجھے بتایا کہ ’ان کے پاس ایجنٹ تھے تو مخلتف علاقوں سے غلاموں کو قید کرتے اور ان کے پاس لاتے تھے۔‘

اس دور میں نوبانی آگوگو کے غلام کالابار اور بونی کی بندرگاہ کے ذریعے بیچے جاتے تھے جسے ہم آج نائجیریا کے نام سے جانتے ہیں۔

ساحل کے کنارے بسنے والے نسلی قبائل جیسا کہ ’افک‘ اور ’اجا‘ کے افراد عمومی طور پر سفید فام تاجروں کے لیے قلعی کا کام یا میرے پردادا کی طرح کے اگبو تاجروں کے لیے دلال کا کام کرتے تھے۔ وہ بحری جہازوں سے سامان اتارتے اور چڑھاتے اور غیر ملکیوں کو خوراک اور دیگر اشیا کی ترسیل کا کام کرتے تھے۔ وہ غلاموں کی قیمتوں کا سودا کرواتے پھر خریدار اور بیچنے والے سے اس پر کمیشن لیا کرتے تھے۔

15ویں اور 19ویں صدی کے دوران تقریباً پندرہ لاکھ اگبو غلاموں کو بحرِ اوقیانوس کے پار بھیجا گیا تھا۔ پندرہ لاکھ سے زیادہ افریقی باشندوں کو بحری جہازوں کے ذریعے اس وقت کہلائے جانے والی نئی دنیا، یعنی امریکہ بھیجا گیا تھا۔ ان تمام کو کالابار اور بونی کی بندرگاہوں کے ذریعے بھیجا گیا جو اس بین البحری تجارت کا سب سے بڑا مقام بن گیا تھا۔

وہ بس اس زندگی کو جانتے تھے

نوبانی آگوگو اس دور کے آدمی تھے جب سب سے طاقتور بچتا اور سب سے بہادر ترقی کرتا تھا۔ ’تمام انسان برابر ہیں‘ کا تصور اس وقت کے معاشرے، روائتی مذہب اور قانون میں بالکل نہیں تھا۔

19ویں صدی کے انسان کو 21ویں صدی کے معیار کے مطابق پرکھنا اس کے ساتھ زیادتی ہو گی۔

ماضی کے افریقہ کے لوگوں کا اگر ہم آج کے معیار کے مطابق جائزہ لیں تو اس دور کے بہت سے ہمارے ہیرو آج کے ولن بن جائیں گے۔ اور ہم اس نظریہ کو رد کردیں گے کہ اس وقت کوئی ایسا نہیں تھا جو مغربی نظریہ سے متاثر نہ ہو۔

میرے پردادا جیسے ایگبو غلام تاجروں کو معاشرتی قبولیت یا قانونی حیثیت کے کسی بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ انھیں اپنے اعمال کے لیے کسی مذہبی یا سائنسی جواز کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ محض وہ زندگی گزار رہے تھے جس میں ان کی پرورش ہوئی تھی۔

اور انھیں بس اس ہی زندگی کا علم تھا۔

غلاموں کی تجارت

انسانوں کی تجارت اگابو میں یورپین کے یہاں آنے سے بہت کی جاری تھی۔ لوگوں کو کسی جرم کی پاداش میں، قرض نہ چکانے پر یا جنگ کے قیدیوں کے طور پر غلام بنایا جاتا تھا

غلاموں کو زندہ درگور کیا جاتا

نوبانی آگوگو کے آبائی شہر امیہ سے ساحل تک غلاموں سمیت تمباکو اور پام کے سامان کو دلالوں کے ذریعے منتقل کیا جاتا

میرے پرداد بظاہر اپنے غلاموں کو قید کرنا مناسب نہیں سمجھتے تھے۔

انسانوں کی تجارت اگابو میں یورپین کے یہاں آنے سے بہت کی جاری تھی۔ لوگوں کو کسی جرم کی پاداش میں، قرض نہ چکانے پر یا جنگ کے قیدیوں کے طور پر غلام بنایا جاتا تھا۔

کسی تاجر کی جانب سے بڑے اور جوان انسانوں کے بیچے جانے پر ایسے تصور کیا جاتا جیسے ان نے کوئی کشتی یا جنگ جیت لی ہے یا اس نے کسی شیر کا شکار کر لیا ہے۔ اور اس کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے تھے۔

اگبو غلام گھروں میں کام کاج کرنے یا مزدوری کا کام کرتے تھے۔ انھیں بعض مذہبی تہواروں پر قربان بھی کر دیا جاتا یا انھیں اپنے مرے ہوئے مالک کے ساتھ زندہ دفنا دیا جاتا تاکہ اگلے جہان میں وہ ان کی خدمت کر سکیں۔

اس دور میں غلامی اس قدر رچ بس چکی تھی کہ اس پر کئی لوک کہاوتیں بنائی گئی تھیں جیسا کہ:

  • جس کا کوئی غلام نہیں ہوتا وہ اپنا غلام خود ہوتا ہے
  • جو غلام اپنے ساتھی غلام کو باندھتے اور اس کے مالک کے ساتھ قبر میں زندہ گرتے ہوئے دیکھتا ہے کو ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ ایک دن اس کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے
  • غلام تب سیکھتا ہے جب بیٹے کو نصیحت کی جاتی ہے
غلاموں کی تجارت

یورپی تاجروں کی افریقی ممالک میں آمد اور انسانوں کے بدلے پستول، شیشے، شراب اور دیگر چیزیں دینے سے اس کی مانگ میں اور اضافہ ہوا جس کی وجہ سے لوگوں کو اغوا کر کے بیچا جانے لگا

یورپی تاجروں کی افریقی ممالک میں آمد اور انسانوں کے بدلے پستول، شیشے، شراب اور دیگر چیزیں دینے سے اس کی مانگ میں اور اضافہ ہوا جس کی وجہ سے لوگوں کو اغوا کر کے بیچا جانے لگا۔

افریقہ میں غلاموں کی تجارت کیسے ہوتی تھی

  • یورپی خریدار ساحل کے قریب رہتے تھے
  • افریقی دلال غلاموں کو اندرون افریقہ سے پیدل چلا کر یہاں لاتے تھے
  • ان کا یہ سفر 300 میل تک طویل ہوتا تھا
  • دو غلاموں کو پیروں میں زنجیریں ڈال کر لایا جاتا تھا
  • غلاموں کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھ دیا جاتا تھا اور ان کی گردن کے گرد بھی رسی ڈال دی جاتی تھی
  • دس سے پندرہ فیصد قیدی راستے میں ہی مر جاتے تھے

ذریعہ: بریٹانیکا انسائیکلو پیڈیا

تجارت کے خاتمے پر مزاحمت

غلاموں کی تجارت

افریقہ میں انسانوں کی تجارت کا سلسلہ سنہ 1888 تک جاری رہا اور پھر برازیل اس جنوبی خطہ استوا میں آخری ملک تھا جس نے اس تجارت کو ختم کیا۔

19ویں صدی کے آواخر اور 20ویں صدی کے اوائل میں جب برطانیہ نے اپنی حکمرانی جنوب مشرقی نائجیریا تک پھیلائی تو انھوں نے فوج کی مدد سے انسانوں کی تجارت کو زبردستی ختم کیا۔

تاہم لوگوں کو اس تجارت کو ختم کرنے کے لیے آمادہ کرنے کی بجائے زبردستی اسے ختم کرنے کی وجہ سے میرے پردادا سمیت بہت سے مقامی افراد یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ اس تجارت کے خاتمے کا مقصد انسانیت کی عزت ہے نہ کہ معاشی پالیسی میں کوئی رد و بدل جس نے اس کاروبار کے طلب و رسد پر اثر ڈالا ہے۔

نائجیریا کے علاقے بونی کے ایک مقامی بادشاہ نے 19ویں صدی میں کہا تھا ’ہمارا خیال ہے کہ اس تجارت کو جاری رہنا چاہیے۔‘

’یہ ہمارے روحانی پیشواؤں اور ہمارے پجاریوں کا فیصلہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ آپ کا ملک عظیم ہے مگر یہ خدا کی مقرر کردہ تجارت کو کبھی نہیں روک سکتا۔‘

جہاں تک میرے پردادا کا تعلق ہے تو ان کے پاس 19ویں صدی کی آخری سہ ماہی میں اس علاقے میں تجارت کرنے والی ایک برطانوی کمپنی، رائل نائجر کمپنی کا بہت اچھا تجارتی لائسنس تھا۔

چنانچہ جب ان کی جائیداد پر قبضہ کر لیا گیا تو میرے پردادا نوبانی اوگوگو دلیری کے ساتھ نوآبادیاتی افسران کے پاس گئے اور انھیں اپنا لائسنس دکھایا جس کے بعد اب ان افسران نے ان کے مال اور غلاموں کو رہا کر دیا تھا۔

میرے والد بتاتے ہیں کہ ’انگریزوں نے ان (میرے پرداد) سے معافی مانگی تھی۔‘

20 ویں صدی میں غلاموں کی تجارت

غلاموں کی تجارت

معروف نائجیرین مورخ آڈلی آفگبو جنوب مشرقی نائجیریا میں انسانی تجارت کے متعلق بتاتے ہیں کہ اس خطے میں یہ تجارت سنہ 1940 کے اواخر اور 1950 کی دہائی کے اوائل تک جاری رہی اور یہ برطانوی استعماری دور کے اہم رازوں میں سے ایک ہے۔

البتہ بین الاقوامی تجارت ختم ہو چکی تھی لیکن مقامی تجارت جاری رہی۔

افگبو نے اپنی کتاب ’جنوبی نائجیریا میں غلاموں کی تجارت کا خاتمہ: 1885 تا 1950‘ میں لکھا ہے کہ ’حکومت کو علم تھا کہ کہ ساحلی علاقوں کے سربراہ اور بڑے بحری تاجر اندرون ملک سے تاجروں کی تجارت جاری رکھے ہوئے تھے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ برطانوی حکومت نے اس تجارت کو سیاسی و معاشی بنیادوں پر برداشت کیا تھا۔

انھیں ساحلی علاقوں کے سربراہوں کی ضرورت اس لیے تھی تاکہ وہ مقامی سطح پر ایک بہتر حکومتی نظام مربوط کر سکیں اور جائز تجارت کے کاروبار کو بڑھاوا دیا جا سکے۔

بعض اوقات برطانوی حکام کسی بڑے مقامی تاجر کے ساتھ تعلقات یا دیگر ایسی ہی وجوہات کی بنا پر مقامی سطح پر ہونے والی انسانی تجارت پر جان بوجھ پر آنکھیں بند کر لیتے تھے جیسا کہ ہمیں نوبانی آگوگو کے معاملے میں نظر آتا ہے جب برطانوی حکام نے پکڑے گئے ان کے غلاموں کو واپس کر دیا تھا۔

اس ایک واقعہ نے نوبانی آگوگو کو اپنے لوگوں میں معتبر کر دیا تھا، یہ وہ شخص تھا جس نے سمندر پار سے آئے سفید فام قوتوں کو چیلنج کیا تھا اور ان کا سامنا کیا تھا۔ میں نے اس کے متعلق بہت سی کہانیاں اپنے رشتہ داروں سے سُن رکھی ہیں اور اس متعلق پڑھا بھی ہے۔

یہ برطانوی نوآبادیات کے ساتھ باہمی احترام کے تعلقات کی ابتدا بھی تھی جس کی وجہ سے برطانوی انتظامیہ نے نوبانی اوگوگو کو مقامی سربراہ مقرر کیا۔

وہ اس خطے میں اس نظام میں جسے بلواسطہ حکمرانی کہا جاتا ہے عوام کے لیے حکومتی نمائندے تھے۔

کیو گارڈنز میں برطانیہ کے نیشنل آرکائیوز کے ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ انگریزوں نے نوآبادیاتی دور کے تقریباً پورے عرصے کے دوران غلاموں کی داخلی تجارت کو ختم کرنے کے لیے بہت شدت سے کوشش کی تھی۔

انھوں نے خطے میں پام کی جائز تجارت کو فروغ دیا اور کوڑیوں اور پیتل کی کرنسی کی جگہ انگریزی کرنسی متعارف کروائی جو غلاموں کے لیے جیبوں میں رکھنا اور لے جانا زیادہ آسان تھی۔ انھوں نے مجرموں کو قید کی سزائیں بھی سنائی۔

افگبو لکھتے ہیں کہ ’سنہ 1930 تک نوآبادیاتی انتظامیہ تھک چکی تھی۔‘ اور اس کے نتیجے میں وہ تعلیم اور عام تہذیب میں وقت کے ساتھ اس تجارت کو ختم کرنے کی امید کر رہے تھے۔

برطانوی حکام کے ساتھ کام کرنا

ایک معتبر سربراہ کی حیثیت سے نوبانی اگوگو برطانوی حکومت کے لیے مقامی لوگوں سے ٹیکس اکھٹا کرتے اور اس میں سے اپنا کمیشن لیتے تھے۔

وہ مقامی عدالتوں میں مقدمات کی سربراہی کرتے، ریلوے لائنوں کی تعمیر کے لیے مزردو فراہم کرتے اور انھوں نے علاقے میں رضامندی سے مشنریوں کے لیے جگہ بھی آلاٹ کی تھی تاکہ وہ وہاں سکول اور کلیسا تعمیر کیا جا سکے۔

جس گھر میں میری پرورش ہوئی اور اب جہاں میرے والدین رہتے ہیں وہ اس زمین پر ہے جو میرے خاندان کے پاس ایک صدی سے زائد عرصے سے ہے۔

یہاں کبھی نوبانی آگوگو کا مہمان خانہ ہوا کرتا تھا جہاں وہ برطانوی حکام کو ٹھہراتے تھے۔ وہ انھیں اپنی آمد کے بارے میں مطلع کرنے کے لیے اپنی بالوں کے ٹکڑے کاٹ کر لفافے میں بھجوایا کرتے تھے۔

نوبانی آگوگو کا انتقال 20ویں صدی کے آغاز میں کسی وقت ہوا تھا۔ انھوں نے ایک درجن سے زائد بیویاں اور بچے چھوڑے تھے۔ ان کی کوئی تصویر تو موجود نہیں ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ ان کا رنگ بہت صاف تھا۔

دسمبر 2017 میں جنوب مشرقی نائجیریا کی ریاست آبایا نے اپنی صد سالانہ تقریبات کے موقع پر میرے دادا کو ایوارڈ دینے کے لیے میرے اہلخانہ کو بھی مدعو کیا تھا۔

ان کی ریکارڈ کے مطابق میرے دادا نے خطے میں پہلے مشنریوں کو مسلح حفاظتی دستہ فراہم کیا تھا۔

میرے پردادا اپنی کاروباری سمجھ بوجھ، انتہائی دلیری، مضبوط قائدانہ صلاحیت، وسیع پیمانے پر اثر و رسوخ، معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے بہت کام کرنے اور خطے میں مسیحیت کو فروغ دینے کے لیے جانے جاتے ہیں۔

اگبو میں اپنے ہیروز کے مجمسمے لگانے کا رواج نہیں ہے ورنہ امید ہے کہ اس خطے میں کہیں ان کا بھی کوئی مجسمہ آج لگا ہوتا۔

میرے والد کہتے ہیں ’ان کی ہر کوئی عزت کرتا تھا حتیٰ کہ انگریز بھی ان کی عزت کیا کرتے تھے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp