عیدالاضحی پر سیاحت: پابندی کے باوجود پاکستانی سیاح مشہور سیاحتی مقامات تک کیسے غیرقانونی طریقوں سے پہنچ رہے ہیں؟


وادی کمراٹ

گذشتہ ہفتے اسلام آباد سے ایک خاندان مری کی سیاحت کے لیے نکلا۔ مری کے داخلی راستے پر پولیس کھڑی تھی جو گاڑیوں میں موجود افراد کے شناختی کارڈ چیک کر رہی تھی اور صرف انھیں افراد کو آگے جانے کی اجازت تھی جن کے شناختی کارڈ پر تحصیل مری کا پتہ درج تھا۔

اس موقع پر مذکورہ خاندان نے دیکھا کہ چیک پوائنٹ سے کچھ پہلے فاصلے فاصلے پر مری کے مقامی لوگ کھڑے ہیں۔ یہ گاڑیوں میں موجود ان سیاحوں کے پاس جاتے اور آفر دیتے کہ اگر وہ کسی مقامی شخص کو اپنی گاڑی میں بیٹھا لیں تو پولیس چوکی باآسانی عبور کی جا سکتی ہے۔

باڑیاں مری کے علاقے میں یہ ’خدمات‘ سرانجام دینے والے مقامی شخص محمد ناصر نے بتایا کہ وہ عیدالفطر کی چھٹیوں میں اپنے علاقے کے دوستوں کے ہمراہ سٹرک کے کنارے بیٹھے سیاحوں کی گاڑیوں کا یہ تماشا دیکھ رہے تھے کہ کیسے انھیں پولیس چوکی سے واپس بھیجا جا رہا تھا۔

’اتنے میں ایک گاڑی جس میں ایک خاندان موجود تھا ہمارے پاس آ کر رکی۔ گاڑی میں بیٹھے افراد نے ہم سے پوچھا کہ ہم میں سے کسی کے پاس مقامی شناختی کارڈ موجود ہے۔ جس پر میں نے ہاں میں جواب دیا تو انھوں نے درخواست کی کہ ہمارے ساتھ گاڑی میں بیٹھو جب پولیس والے شناختی کارڈ مانگیں تو اپنا شناختی کارڈ دینا اور ناکہ کراس کرنے کے بعد اُتر جانا۔‘

محمد ناصر کے مطابق ایسے ہی ہوا اور انھیں گاڑی سے اتارتے وقت کچھ رقم بھی دی گئی۔

محمد ناصر کورونا سے قبل ایک ہوٹل میں ویٹر تھے مگر ہوٹل بند ہونے کے بعد وہ بیروزگار ہو گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد انھیں کمائی کا نیا طریقہ مل گیا۔ ’اب دن میں اگر چار، پانچ گاڑیوں کو بھی ناکہ کراس کرا دوں تو دو سے پانچ ہزار تک مل جاتے ہیں۔‘

مری، ایبٹ آباد، سوات، مانسہرہ، چترال اور دیگر سیاحتی علاقوں میں اب بہت سے مقامی لوگ یہ کام کر رہے ہیں اور اس کے عوض وہ ہر گاڑی سے پانچ سو سے لے کر دو ہزار روپے تک طلب کرتے ہیں۔

یہ اور اس سے ملتے جلتے بہت سے ’غیرقانونی‘ حربے ایسے ہیں جن کا استعمال کر کے مختصر تعداد میں سیاح مشہور سیاحتی مقامات تک پہنچنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

رابطہ کرنے پر ڈسڑکٹ پولیس آفیسر مانسہرہ صادق بلوچ نے بتایا کہ مانسہرہ پولیس نے کم از کم چار ایسے مقامی افراد پر مقدمات درج کیے ہیں جو کہ سیاحوں کو ناران کاغان لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔

انھوں نے کہا کہ مقامی افراد کی جانب سے پیسوں کے عوض سیاحوں کو غیرقانونی طور پر مدد کرنے کی بات پولیس فورس کے علم میں ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے کارروائی بھی کی جا رہی ہے۔

مقامی افراد کے علاوہ سیاحت کی صنعت سے وابستہ افراد کیسے اپنے کسٹمرز کو ان مقامات تک پہنچانے میں کامیاب ہو رہے ہیں اس کا ذکر آگے چل کر، اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا عیدالضحی کے موقع پر بھی سیاحت پر پابندی عائد رہے گی۔

’پورے ملک میں سیاحت پر پابندی ہے‘

پاکستان میں عموما لوگ عیدین کے موقع پر ملنے والی چھٹیوں کے دوران سیر و تفریح کی غرض سے ملک کے مختلف سیاحتی مقامات کا رُخ کرتے ہیں۔

رواں برس کورونا کی عالمی وبا کے باعث صورتحال کافی مختلف ہے۔

پاکستان میں سیاحت پر عائد سخت پابندیوں کے باوجود عید الفطر کے موقع پر لوگ اپنے گھروں سے نکلے مگر بیشتر کو اُن کی منزل مقصود نہ مل سکی کیونکہ ملک کے مشہور سیاحتی مقامات کے داخلی راستوں پر پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے چیک پوائنٹس قائم کی گئی تھیں جہاں سے سیاحوں کو واپس بھیجا جاتا رہا۔

اب عید الاضحی کی آمد آمد ہے اور گرمی کے ستائے مگر سیاحت کے شوقین افراد کے ذہن میں ایک ہی سوال کلبلا رہا ہے اور وہ یہ کہ کیا عیدالضحی کی چھٹیاں بھی انھیں گھر بیٹھ کر گزارنی پڑیں گی یا وہ ملک کے شمالی علاقہ جات اور دیگر ٹھنڈے سیاحتی مقامات کا رخ کر پائیں گے۔

حکومت کی جانب سے یہ اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ عید الاضحی کے موقع پر بھی سیاحت پر عائد پابندی جاری رہے گئی اور وزیر اعظم عمران خان بارہا اپنی تقریروں میں ان خدشات کا اظہار کر چکے ہیں کہ اگر عید الضحی پر احتیاط نہ کی گئی تو وائرس زیادہ پھیل سکتا ہے۔

محکمہ سیاحت گلگت بلتستاں کے ڈائریکٹر محمد اقبال کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں لگ نہیں رہا کہ حکومت کی جانب سے عید الاضحی کے موقع پر سیاحت کی اجازت دی جائے۔

انھوں نے بتایا کہ اس وقت پورے ملک میں سیاحت پر مکمل پابندی عائد ہے اور کوئی ایک ایسا سیاحتی مقام نہیں جہاں غیرمقامی افراد کو جانے کی اجازت ہو۔

خیبرپختونخوا انتظامیہ کے مطابق شمالی علاقہ جات کے سیاحتی مقامات مالاکنڈ، ہزارہ ڈویثرن کے علاوہ گلگت بلتستان کے داخلی راستوں پر عید الضحی کے موقع پر پولیس موجود ہو گئی جو صرف مقامی لوگوں ہی کو جانے کی اجازت دے گئی۔

سیاحت کی صنعت سے جڑے افراد کیسے مدد کر رہے ہیں؟

مقامی افراد کے علاوہ سیاحت اور خاص طور پر ہوٹلز کی صنعت سے وابستہ افراد بھی سیاحوں کی ڈھکے چھپے مدد کر رہے ہیں۔

اگر سیاحوں نے کسی مقامی ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس میں اپنے بکنگ کروا رکھی ہے تو ہوٹل والے پہلے ہی اپنے سٹاف کے کسی رکن کو پولیس چیک پوائنٹ پر مہمانوں کو ریسیو کرنے بھیج دیتے ہیں۔

طریقہ کار وہی ہے یعنی ہوٹل کے عملے کا رکن ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتا ہے اور پولیس ناکے پر اپنا شناختی کارڈ دکھا کر گاڑی آگے بڑھا دیتا ہے۔

اس کے علاوہ مقامی سیاحت سے جڑے افراد سیاحوں کو اپنا فون نمبر بھی فراہم کرتے ہیں۔ اگر پولیس ناکے پر روکے تو پولیس کو بتایا جاتا ہے کہ ہم مقامی افراد کے مہمان ہیں اور پولیس اہلکار کی فون کے ذریعے مقامی فرد سے بات کروائی جاتی ہے جو بتاتا ہے کہ یہ ہمارے رشتہ دار ہیں اور ہمارے گھر آ رہے ہیں۔

سیاح خاندان ملتان سے ناران اور پھر سوات کیسے پہنچے؟

کالا چشمہ، وادی کمراٹ

(فائل فوٹو)

اس صورتحال میں رینٹ اے کار اور ٹور آپریٹرز کمپنیوں نے بھی نت نئے طریقے اختیار کر لیے ہیں۔

ملتان کے رہائشی حسین اکبر اور ان کے خاندان نے گذشتہ دونوں ملتان سے کاغان، ناران اور پھر کالام اور سوات تک سیاحتی سفر کیا تھا۔

حسین اکبر بتاتے ہیں کہ اس ٹور کے لیے جب انھوں نے ٹور آپریٹر سے بات کی تو انھیں بتایا گیا کہ پابندی کے باوجود کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

’اسلام آباد پہنچ کر ٹور آپریٹر نے ہمیں دو گاڑیاں فراہم کیں۔ ہمیں پہلے ناران کاغان جانا تھا۔ ان گاڑیوں کے دونوں ڈرائیوروں کا تعلق ضلع مانسہرہ سے تھا۔ ہر ناکے پر دونوں ڈرائیور اپنا شناختی کارڈ دکھاتے اور سکون سے گزر جاتے تھے۔‘

حسین اکبر کے مطابق اسلام آباد سے وہ سیدھے کاغان پہنچے جہاں پر بہت زیادہ رش تو نہیں تھا مگر سیاح موجود تھے۔ ہوٹل چھپ چھپا کر کھلے ہوئے تھے اور سروسز کا معیار بھی تسلی بخش تھا۔

حسین اکبر کے مطابق واپسی پر ہزارہ موٹر وے پر ان دونوں گاڑیوں کے ڈرائیور تبدیل ہو گئے اور اب دونوں ڈرائیوروں کا تعلق سوات سے تھا۔ کالام تک جہاں بھی ناکہ ہوتا یہ دونوں ڈرائیور اپنا شناختی کارڈ دکھاتے اور واپسی پر انھوں نے ہمیں اسلام آباد ڈراپ کر دیا۔

ڈی پی او مانسہرہ صادق بلوچ کہتے ہیں کہ ’جب ایک انتہائی بااثر سیاح جو کہ قیمتی گاڑی پر کراچی یا کسی اور بڑے شہر سے چلتا ہے تو اس کو نہ تو سندھ اورنہ ہی پنجاب کی حدود میں روکا جاتا ہے۔ اس طرح سارا دباؤ ہم پر آ جاتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اس کے باوجود پولیس جوان سارا دن ایسے افراد کی گاڑیوں کو روکتے ہیں، ان کا دباؤ برداشت کرتے ہیں جو کچھ ان سے ممکن ہوتا ہے احکامات پر عمل در آمد کے لیے کرواتے ہیں۔

سرکاری افسران بھی مددگار

ایک اور طریقہ بھی کافی زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے جس میں مبینہ طور پر سیاحتی مقامات پر تعینات سرکاری اداروں کے افسران بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

مقامی افراد نے بتایا کہ عموما ہوتا اس طرح ہے کہ مختلف سرکاری محکموں میں خدمات انجام دینے والے افسران کا پہلے نام استعمال کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ہم ان کے مہمان ہیں۔

’اگر اس طرح کام چل جائے تو ٹھیک لیکن اگر اس طرح کام نہ چلے تو پھر ان کے دفاتر کے نمبر دیے جاتے ہیں، جہاں پر موجود عملہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ صاحب کے مہمان آ رہے ہیں۔‘

اس سے ملتا جلتا طریقہ سرکاری اہلکار بھی سیاحت کے لیے اختیار کرتے ہیں۔ کسی بھی ناکے پر پہنچ کر پولیس اہلکاروں کو بتاتے ہیں کہ وہ فلاں سرکاری محکمے میں ملازم ہیں اور ضروری اور سرکاری کام سے جا رہے ہیں۔

ایبٹ آباد کے چیک پوسٹ پر خدمات انجام دینے والے ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ ’کچھ سیاح تو اتنے بااثر ہوتے ہیں کہ ان سے بات کرنا بھی ہمارے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ ایسی گاڑیوں کو جب ہم روکتے ہیں تو وہ رکتے ہی ہماری بات مقامی بڑے سرکاری افسر سے کرواتے ہیں۔ جس کے بعد ہمارے لیے ان کو روکنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔‘

سستے کرایوں کی وجہ سے بھی سیاح راغب

پاکستان

کیلاش میلہ (فائل فوٹو)

گلگت بلتستان اور دیگر تمام سیاحتی مقامات پر مئی سے اکتوبر تک سب سے زیادہ آنے والے سیاحوں کا تعلق کراچی سے ہوتا ہے۔

کراچی کے ایک ٹور آپریٹر سے پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا رواں سیزن میں بھی کراچی سے بہت سے سیاح شمالی علاقہ جات کی طرف جا رہے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پابندیوں کی وجہ سے سیاحت پر اٹھنے والے اخراجات کم ہو چکے ہیں۔

ہوائی سفر سمیت سیاحتی مقامات پر ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز کے کرائے بہت کم ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ان مقامات پرکھانے پینے کے اشیا کی قیمتیں بھی کم ہیں۔

اسلام آباد سے کراچی کا فضائی مصروف ترین ہے اور کورونا کے باعث اس وقت اس روٹ پر دو طرفہ کرایہ سولہ ہزار سے لے بیس ہزار تک ہے۔ اس وقت ٹرین کا یک طرفہ کرایہ چھ ہزار سے شروع ہو رہا ہے۔

اسی طرح اسلام آباد سے گلگت کا دوطرفہ فضائی ٹکٹ 20700 سے شروع ہو رہا ہے۔

ٹور آپریٹر کے مطابق اس صورتحال میں بھی بہت سے کراچی والوں کو یہ ترغیب ملی ہے کہ وہ سیاحت کریں۔ فضائی سفر کرنے والوں کو ایک فائدہ یہ بھی ہو رہا ہے کہ وہ بہت سکون سے بغیر کسی رکاوٹ اور روک ٹوک کے ہوائی سفر کے ذریعے گلگت پہنچ جاتے ہیں جہاں سے آگے کا بندوبست پہلے سے موجود ہوتا ہے۔

پاکستان

اسی طرح سکردو، ہنزہ، ناران، کاغان، سوات، مری اور گلیات کے اندر اس وقت درمیانے درجے کے ہاٹلوں اور گیسٹ ہاوسز کے کرایہ دو ہزار سے شروع ہو کر چار ہزار تک جا رہا ہے جبکہ گذشتہ برس یہی کرایہ اس موسم میں چھ ہزار سے شروع ہو کر بارہ ہزار تک تھا۔

عید کے دونوں میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں سے نوجوان اور منچلے سیاح جو کہ عموماً سیاحتی مقامات کے راستوں پر رقص کرتے نظر آتے ہیں ان کو ممکنہ طور پر اس طرح کے سفر کرنے کی اجازت ملنا مشکل ہی معلوم ہوتا ہے۔

انتظامیہ کا موقف کیا ہے؟

محکمہ سیاحت گلگت بلتستاں کے ڈائریکٹر محمد اقبال کے مطابق گلگت بلتستان میں سیاحت پر مکمل پابندی ہے۔ مقامی لوگوں کے علاوہ دیگر لوگوں کے داخلے پر پابندی ہے تاہم کاروباری مقاصد، سرکاری فرائض اور دیگر اہم امور کی انجام دہی کے لیے سفر کیا جا سکتا ہے۔

جب ان سے غیرقانونی ذرائع استعمال کر کے ان مقامات تک پہنچنے والوں کی بابت سوال کیا گیا تو محمد اقبال کا کہنا تھا کہ ’ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ جب گلگت بلتستان میں داخل ہوتے ہوں تو اپنے ضروری کاموں کی انجام دہی کے ساتھ کچھ گھوم پھر بھی لیتے ہوں۔‘

ڈپٹی کمشنر چترال نوید احمد کے مطابق کچھ معاملات میں لوگوں کو چترال میں داخلے کی اجازت دیتے ہیں، جن میں بہرحال سیاحت شامل نہیں ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے عوام کی جانوں کے تحفظ کے لیے سیاحت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ عوام کو اس پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ عید الضحی کے دوران خدشات ہیں کہ وائرس زیادہ نہ پھیلے۔

ڈسڑکٹ پولیس آفسیر مانسہرہ صادق بلوچ کا کہنا ہے کہ وہ پورے پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ سیاحت کی غرض سے کاغان، ناران، مانسہرہ اور دیگر سیاحتی مقامات کا رخ نہ کریں کیونکہ پولیس ویسے ہی فعال ہے اور سیاحوں کو ان علاقوں میں داخل نہیں ہونے دے گی۔

صادوق بلوچ کا کہنا ہے کہ عید کے موقع پر پولیس مزید سختی کرے گی اور سیاحوں کو روکنے کے لیے جو اقدامات کرنے پڑے وہ کیے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp