پرانی کوٹھی، نئے مکین اور مردہ روحوں کا بسیرا


میں اور میرے میاں کچھ عرصے سے خریدنے کے لیے گھر ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ گھر خریدنا بہت مشکل کام ہے خصوصاً اگر آپ کے پاس پیسے کم ہوں اور اگر آپ کے ذہن میں پہلے سے خیال ہو کہ آپ کیسا گھر خریدنا چاہتے ہیں، تو یہ اور مشکل ہو جاتا ہے۔ ہمارے معاملے میں مسئلہ اور گمبھیر تھا کیونکہ ہم ایک پرانا گھر خریدنا چاہتے تھے۔ کم پیسوں کے ساتھ پرانا گھر ہی خریدا جاسکتا ہے، مگر ہمارا مسئلہ یہ تھا کہ ہم ایک خاص قسم کا پرانا گھر خریدنا چاہتے تھے۔

خاص قسم کا پرانا گھر، چلیے، میں آپ کو اس کا پس منظر بتاتی ہوں۔ میرے میاں کا نام شاہجہاں ہے مگر وہ بادشاہ نہیں ہیں۔ میرا نام ممتاز ہے اور آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ میں کوئی ملکہ نہیں ہوں۔ میں ابھی زندہ ہوں اور ابھی زندہ رہنا چاہتی ہوں۔ کئی وجوہات ہیں ایک تو میرا شاہجہاں میرے لیے کوئی تاج محل نہیں بنا سکتا، وہ تو خود میرے ساتھ مل کر پیسے کمانے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔ دوسرا زندگی میرے لیے کشش رکھتی ہے، یہ کشش دھیمی سی مگر طاقتور ہے۔

میری زندگی سے محبت کسی ناری کی اٹھتی ہوئی جوانی کی زور مارتی کشش نہیں ہے، بلکہ برسات کی ہلکی بوندا باندی کے بعد مٹی سے اٹھتی ہوئی دھیمی خوشبو ہے جو پوری طرح اپنے دائرے میں لے لیتی ہے۔ یہ کسی پرانی کوٹھی کا حسن ہے، سامنے نصف دائرے کا برآمدہ جس کی نیچی چھت کو برابر فاصلوں پر کھڑے گول ستون اٹھائے ہیں۔ برآمدے کے پلستر شدہ فرش پر کین کا فرنیچر، چارپائی یا پھر چارپائیاں، ایک میز اور ایک حقہ دہرا ہے۔

حقہ، لاحول ولا قوت۔ کیا بات کررہی ہیں آپ۔

حقہ غلط ہوگا، مگر یہ جگہ جگہ سگریٹ پھونکتے اور اس کے ٹکڑے پھینکتے لونڈے لپاڑے، بلکہ ادھیڑ عمر پریشان صفتوں کو دیکھ لیں۔ مجھے تو یہ سگریٹ کی مانند ہی لگتے ہیں، ادھر جلے ادھر ختم، پھر آخر میں پھوس باقی، کسی ڈسٹ بن، کسی نالی کا مقدر ورنہ زمین پر گندگی کا موجب بن جائیں۔

بچپن میں حقے کی گڑگڑاہٹ سنتی رہی۔ دادا کے ملنے والے آتے۔ برآمدے کے پاس ہی چلم میں تمباکو کے اوپر سلگتے کوئلے رکھے جاتے، چلم تازہ ہوتی۔ حقے کے منقشی پیندے میں تازہ پانی بھرا جاتا۔ جب سب اسباب تیار ہو جاتے تو پھر حقہ پیا جاتا۔ ایک باس ہر جانب پھیلی ہوتی۔ گپیں لگ رہی ہوتیں اور حقہ باری باری گھوم رہا ہوتا۔ شام کو جب کوئی نہ ہوتا تو ہم بچے بھی بجھے ہوئے حقے کا کش لگاتے۔ سانس اندر کو کھینچیتے تو حقے کی گڑ گڑ کی آواز آتی تو سب بچے زور سے ہنسنے لگ جاتے۔

میرا بچپن ایسے ہی گھر میں گزرا تھا، وہ ایک پرانی سی کوٹھی تھی۔ برآمدہ کے سامنے باغ جس میں ایک طرف امرود، مالٹے کے درخت لگے جبکہ ایک کونے میں آم کا درخت گرمیوں کے موسم میں بور سے لدا کھڑا ہوتا۔ رات کی رانی دن میں بھی باغ کی رانی رہتی جبکہ باغ کا ایک تختہ مختلف رنگ کے گلابوں سے سجا تھا۔ برآمدے کے کونے میں بوگن ویلیا اپنے چھوٹے سرخ، سفید پھولوں اور کانٹوں کے ساتھ اپنی دیوار بنائے تھی۔ ایسے گھر آپ کو تقریباً ہر چھوٹے بڑے شہروں میں مل جائیں گے۔ سرگودھا یا ساہیوال کی سول لائنز، لاہورکا سمن آباد ہو یا ماڈل ٹاؤن، پنڈی کا سیٹلائیٹ ٹاؤن آپ کو ایسی کوٹھیاں ہر شہر میں نظر آ جائیں گی۔

میرا بچپن گزر گیا۔ شادی ہوگئی اور میں اپنا شہر چھوڑ کر دوسرے شہر میں آ گئی۔ تین بچے بھی ہوگئے۔ میں ایک کالج میں لیکچرار تھی، میاں ایڈوئرٹائزنگ کی کمپنی میں کام کرتا تھا۔ زندگی کی ڈگر چل رہی تھی۔ کرائے کے مکان میں رہتے تھے مگر اپنے ذاتی گھر کی خواہش تھی۔

مڈل کلاس کے لیے اپنے ذاتی گھرکی خواہش میرے خیال میں حج کی خواہش سے اوپر نہیں تو نیچے بھی نہیں ہوتی۔ بھئی دیکھیے گا، مجھ پر کفر کا فتوی نہ لگا دیجیئے گا۔ خواہش اور خواب تو کسی روک کے بغیر آتے ہیں، بعد میں ذہن اس کو زنجیر بکف کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اب یہ پرانی کوٹھی کی خواہش میرے اندر ایسے تھی جیسے کوئی سخت جان بوٹی کسی خوبصورت لان کی گھاس میں اگ آئے اور پھر محنتی مالی کی تمام کوششوں، جتنوں اور رنبے کی نوک کے باوجود ہر چند ماہ بعد بار بار نکل آئے۔

شاہجہاں نے چند سال قبل نوکری چھوڑ کر اپنی ایڈوئرٹائزنگ کمپنی کھول لی اور ساتھ ساتھ فلیکس پرنٹنگ کا کام بھی شروع کر دیا۔ اب تو شہرکا شہر پوسٹروں سے بھرا ہے۔ اپنے دائیں بائیں دیکھ لیں، آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاوے کے پوسٹر اترتے اور لگتے رہتے ہیں۔ لوگ پہلے گھر جا کر مبارک باد دیتے تھے، اب کس کے پاس گھر جانے کا وقت ہے؟ اپنی بڑی تصویر کے ساتھ چھوٹی مبارک چھپوا کر گلی، محلے، سڑک کی آلائش میں حسب پیسہ اضافہ کرتے ہیں۔

تاجر برادری، وکلا برادری، آبادی کے زعماء سے لے کر بدمعاشوں تک، جو بھی اپنے چہرے کی نمائش چاہتے ہیں وہ علاقے کے ایس ایچ او سے شروع ہو کر بیوروکریسی کے اوپر کے عہدیداروں کی اس کارکردگی کی مبارک کے پوسٹر لگا رہے ہوتے ہیں جس پر سب کو جوتیاں پڑنی چاہئیں۔ جی سب کو، مبارک وصول کرنے والوں اور مبارک دینے والوں سب کو بقدر پوسٹر ان کی تشریف پر جوتیاں پڑنی چاہیئیں۔ سرکاری عہدیداروں کے علاوہ سیاستدانوں کو ان گلیوں کی تعمیر کی مبارکبادیں لہرا رہی ہوتی ہیں جو زمانہ قدیم سے موجود ہیں گو پہلے بہتر حالت میں تھیں۔ ہجوں کی غلطیوں سے لے کر نیت کی غلطیاں، آپ سب کچھ ان پوسٹروں میں پائیں گے۔ آپ کہیں گے کہ میں یہ کیا باتیں لے کر بیٹھ گئی ہوں۔ اصل میں، مجھے تو آپ کو بس یہی بتانا تھا کہ شاہجہاں کا کام زبردست چل نکلا۔

پیسے آئے تو پرانی کوٹھی کی خواہش پھر اٹھ کر آ گئی۔ میں نے پراویڈنٹ فنڈ میں جمع پیسوں کا حساب لگایا اور شاہجہاں نے اپنی بچت کو تولا اور پھر ہم گھر کی تلاش میں نکل پڑے۔

ایک گھر کے متعلق پتہ لگا کہ بک رہا ہے۔ یہ گھر اچھا تھا، ایسا جیسا ہم چاہتے تھے۔ ہمارے لیے یہ گھر ایک کشش رکھتا تھا۔ ایک ایک فٹ سے چوڑی مضبوط دیواریں، اونچی چھت جس میں کئی روشندان تھے، بڑے بڑے کمرے جن میں کئی دروازے کھلتے تھے۔ پرانے گھر اجتماعیت کے نشان ہوتے تھے، ایک کمرے میں کئی دروازے ہوتے ہیں، ہوا چلتی رہے، بساند دور رہے، لوگ آتے جاتے رہیں۔ روشندان، دروازے اور کھڑکیاں پرانی لکڑی کی تھیں، مگر حیرت انگیز طور پر دیمک یا دوسرے نقصان سے محفوظ تھیں۔

سیوریج کا نظام البتہ پرانا تھا جس کو ٹھیک کرانے کی ضرورت تھی۔ فرش زیادہ تر سیمنٹ کے تھے، موجودہ زمانے کی ٹائیل کہیں نہ لگی تھی۔ بجلی کی وائرنگ بھی پرانی تھی، لکڑی کی باریک پٹی پر تار جارہی تھی جو آگے جا کر بلب کے پرانے سٹائل کے ہولڈز میں جاملتی تھی۔ بجلی کے بٹن بھی پرانی طرز کے تھے، کالے گول دائروں کے سوئچ جن کے بیچ میں ایک چھوٹی سے ڈنڈی تھی جس کو اوپر نیچے کرنے کے لیے انگلیوں سے پکڑ کر اچھی خاصی طاقت لگانا پڑتی تھی۔

گاڑی کھڑی کرنے کے لیے گھر کے ایک جانب ٹین کے دو دروازوں والا علیحدہ کمرہ تھا۔ اس کے علاوہ برآمدے کے ساتھ ہی ایک چھتا ہوا راہ تھا جس کی ایک طرف آٹھ دس فٹ چوڑائی کی ایک دیوار تھی۔ اس دیوار کے ساتھ گاڑی کھڑی کی جاسکتی تھی۔ گھر کی پرانی جالیاں جگہ جگہ سے ٹوٹی تھیں، باغ میں گھاس بڑھی ہوئی تھی اور پودے دیکھ بھال کے متقاضی تھے۔ گھر کی اوپر کی منزل پر تین کمرے اور باتھ روم تھا، ایسا لگتا تھا کہ مہمان خانے کے طور پر استعمال ہوتے ہوں گے ۔

ہمیں نظر آ رہا تھا کہ گھر کو ٹھیک ٹھاک کرنے میں اچھا خاصا پیسہ لگ جائے گا، مگر دوسری طرف یہ پرانی کوٹھی کی قیمت ہمارے لحاظ سے بہت مناسب تھی۔ اس کی قیمت مناسب ہونے کی وجہ تھی۔ اس گھر میں مرزا اسلم خان اپنی بیوی مہرالنساء کے ساتھ رہتے تھے۔ دونوں نواب خاندان سے تھے اور پاکستان بننے کے بعد ہجرت کرکے یہاں آئے تھے۔ ان کے دو بیٹے امریکہ سیٹل ہوگئے تھے جو انہیں اپنے پاس بلاتے تھے، مگر دونوں میاں بیوی اسی گھر میں خوش تھے اور پردیس جانے سے انکاری تھے۔ ہمیں پراپرٹی ڈیلر نے بتایا کہ دونوں کی اس گھر سے بڑی یادیں وابستہ تھیں اور اس گھر سے وہ بہت محبت کرتے تھے۔ مہر النساء گھر ہستن خاتون تھیں جو گھر کی صاف ستھرائی اور سنوار میں مصروف رہتی تھیں جبکہ خان صاحب پرانے رکھ رکھاؤ اور تہذیب کے مطابق زندگی گزارنے کے قائل تھے۔

آج سے آٹھ ماہ قبل دونوں گھر سے شام کی واک کے لیے نکلے اور ایک تیز رفتار گاڑی کے نیچے آکر مارے گئے۔ امریکہ سے آئے دونوں بیٹے تدفین کے بعد واپس چلے گئے۔ گھر پچھلے کئی ماہ سے فروخت کے لیے لگا تھا مگر پرانا ہونے کے باعث نہ بک رہا تھا۔ اسی بنا پر اس کی قیمت بھی اب کم کردی گئی تھی۔

مجھے گھر اچھا لگا۔ کافی حد تک میری خواہش کے مطابق تھا اور قیمت بھی ہماری پہنچ میں تھی۔ ہم نے سوچا کہ گھر خرید کر رہنا شروع کر دیں گے اوراس میں کروانے والے کام بعد میں ساتھ ساتھ ہوتے رہیں گے۔ گھر ہم نے خرید لیا اور جلدی سے کرائے کا مکان چھوڑا اور اپنے ذاتی گھر میں منتقل ہو گئے۔

پہلی رات اپنے ذاتی گھر میں تھی۔ یہ شفٹنگ کا کام بہت محنت طلب ہے، سامان پیک کرنا، دوسری جگہ پر اتروانا، نئی جگہ کا تعین کرنا، ٹوٹ پھوٹ سے بچاؤ کرنا۔ ہم بہت تھک گئے تھے۔ بچوں کو ایک کمرے میں سلایا اور میں اور شاہجہاں ابھی لیٹے ہی تھے کہ ساتھ کے کمرے سے دروازہ کھلنے کی آواز آئی مگر سارے دروازے تو میں نے خود بند کیے تھے۔ دونوں نے اکٹھے جا کر دیکھا تو دروازہ کھلا تھا مگر مجھے تو یاد تھا کہ یہ دروازہ میں نے بند کیا تھا کیونکہ اس کی کنڈی لگانے میں خاصی مشکل پیش آ رہی تھی۔

دروازے کی کنڈی دوبارہ لگا رہے تھے کہ ساتھ کی کھڑکی کا پردہ اپنی جگہ چھوڑنے لگا۔ یا اللہ، یہ کیا معاملہ ہے۔ ہم دونوں یقیناً ڈر گئے تھے۔ معاملہ کچھ گڑبڑ تھا۔ وہ رات ہم پر بڑی بھاری تھی، کبھی میز اپنی جگہ سے کھسک جائے، کبھی کرسی یک دم گر جائے، ادھر ادھر پڑا سامان اپنی جگہ بدل جاتا، بجلی بند اور یک دم جل جاتی۔ ہم دونوں نے وہ رات سورہ یاسین اور دعائیں پڑھتے جاگتے گزاری۔ حیرت انگیز طور پر بچوں کے کمرہ پرسکون رہا، ان کی طرف کوئی کسی قسم کی حرکت نہ تھی۔

صبح ہونے میں کچھ وقت تھا کہ اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا، ہو نہ ہو یہ مرزا اسلم خان اور مہر النساء کی روحیں ہوں۔ پراپرٹی ڈیلر نے بتایا تھا کہ انہیں اس گھر سے بہت محبت تھی۔ ہو سکتا ہے کہ اچانک حادثاتی موت کے بعد بھی وہ اپنے گھر میں ہی رہ رہے ہوں۔ میں نے سوچا کہ مجھے ان سے بات کرنا ہوگی، مجھے انہیں یقین دلانا ہوگا کہ ہم ان کے اس گھر کا پوری طرح خیال کریں گے۔

میں اٹھی اور ساتھ کے کمرے میں داخل ہوگئی۔ ساری رات اس کمرے میں سب سے زیادہ حرکات ہوتی رہی تھیں۔ میں کمرے میں داخل ہوئی تو کمرے کی ہر چیز لرزنا شروع ہوگئی؛ پردے حرکت کر رہے تھے، ایک طرف پڑی تپائی ہل رہی تھی، کونے میں پڑے بیگوں کی زپیں خود بخود کھلنے بند ہونے لگیں۔ میزبان یقیناً اسی کمرے میں تھے۔ شاہجہاں بھی اٹھ کر آگئے تھے۔

” دیکھیے خان صاحب اور مہر النساء صاحبہ، یہ گھر آپ کا ہے۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم اس گھر کا ایسے ہی خیال رکھیں گے جیسے آپ خیال رکھتے تھے۔ ہمیں آپ کا یہ گھر بہت پسند آیا ہے، یہ ہمارے خوابوں کا گھر ہے۔ آپ ہم پر بھروسا کریں ہم اس گھر کی دیکھ بھال اچھے طریقے سے کریں گے۔ آپ ہمارے ساتھ ہی اس گھر میں رہیں۔ امید ہے کہ آپ ہمیں اچھے ساتھیوں کے طور پر پائیں گے“ ۔

یہ بات میں نے کمرے میں چاروں طرف گھومتے ہوئے کہی۔ ایک دم کمرے میں ٹھہراؤ آ گیا۔ میرا خیال ہے کہ میں ان روحوں کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ اس دن کے بعد سے معاملات اچھے چلنے لگے۔ اب بھی کبھی کبھی میں دفتر سے آتی ہوں تو پردے ہلنے لگ جاتے ہیں یا لائیٹ دو دفعہ جل بجھ جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ان کی جانب سے خوش آمدید کہنے کا طریقہ ہے، جواباً میں بھی ہیلو کہہ دیتی ہوں۔ اگر آپ مجھے اکیلے میں بولتے دیکھیں تو پریشان نہ ہوں، یہ پرانی کوٹھی کی کہانی ہے۔ حیرت انگیز طور پر بچوں کے ہوتے ہوئے یہ کبھی نہیں ہوا۔ وہ اس گھر میں بہت خوش ہیں۔ انہیں علم نہیں کہ یہ گھر ہم کسی اور کے ساتھ بھی شیئر کرتے ہیں۔

اگر آپ کوئی پرانی کوٹھی خریدنا چاہ رہے ہوں تو ذہنی طور پر تیار رہیئے، ہو سکتا ہے کہ آپ کو اسے کسی کے ساتھ شریک کرنا پڑے۔ مگر میں آپ کو اپنے ذاتی تجربے کے لحاظ سے بتاتی ہوں یہ اتنا برا بھی نہیں ہے۔ جیسے ہر انسان انسان نہیں ہوتا اسی طرح ہر روح بد روح نہیں ہوتی۔

عاطف ملک
Latest posts by عاطف ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 74 posts and counting.See all posts by atif-mansoor

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments