سوتیلی ماؤں اور سگے والد کے نام


خدا نہ کرے، اگر ناگزیر وجہ سے کسی شخص کو دوسری شادی کرنے پڑے تو نئی آنے والی خاتون سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ شوہر کے پہلے بچوں کو ایک ماں کی شفقت دے گی۔ اگر آنے والی ان بچوں کے کھانے پینے اور دیگر ذمہ داریوں کو مناسب طور پر ادا کرتی ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ وہ ایک اچھی خاتو ن کہلائے جانے کے قابل ہے۔ کیونکہ ضروری نہیں کہ وہ ایک ماں کی طرح محبتیں بھی دکھا سکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ ان سے محبت بھی کرے گی۔ لیکن یہ کام باپ خود بھی کرے۔ اس کو خود بھی بن ماں کے بچوں کا خیال رکھناچاہیے۔ ہہوتا یہ ہے باپ اپنی نئی آنے والی بیوی پر ہی سب چھوڑ دیتا ہے۔ عموماً نئی بیوی کی اپنی کوئی اولاد نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اس کو ابھی ممتا کے جذبے سے اتنی شناسائی نہیں ہوتی۔ اگر اس کے اولاد ہو جائے اور وہ پہلے بچوں سے تھوڑی غافل ہو جائے تو اس کو سوتیلے پن کی وجہ سمجھا جاتا ہے۔ اور یوں دونوں طرف سے دوریاں اور شکوے شکایتیں اور عدواتیں بڑھنی شروع ہو جاتی ہیں۔

معاشرہ بھی اس نئے رشتے میں رخنے پیدا کرنے میں بھرپور حصہ ڈالتا ہے۔ کبھی ماں کے کان بھرے جاتے ہیں کہ تم جتنی بھی ان کی خدمت کر لو یہ بچے تمہارے نہیں بنیں گے۔ کبھی بچوں کو ایک طرف لے جا کر کرید کرید کرپوچھاجاتا ہے کہ سوتیلی ماں تم پر ظلم تو نہیں کرتی۔ اور یوں گویا بچوں کو احساس دلایا جاتا ہے کہ آنے و الی ان کو نقصان بھی پہچا سکتی ہے۔ جو لوگ خود تو ان کی بہتری کے لیے عملاًتنکا بھی نہیں توڑتے وہ سوتیلی ماں کے کیے گئے کاموں کو کسی شمار میں نہیں لاتے۔

اپنی طرف سے بچوں کی ”خیر خواہی“ کی کوشش میں ان بچوں کے ذہنوں میں زہریلے شکوک ڈال دیتے ہیں۔ یہ شیطانی طریقہ ہے۔ ا س طرح کرنے سے بچے باغی ہو جاتے ہیں اور ان کی تربیت ٹھیک سے نہیں ہو سکتی۔ وہ معاشرے میں غیر متوازن افراد کے طور پر اضافے کا موجب بنتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے میٹھی دشمنی ہے۔ اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے نہ ادھر کے رہتے ہیں نہ ادھر کے۔ گھر کا ماحول سخت خراب ہو جاتا ہے۔ سچ مچ کی دشمنیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔

ماں کا میکہ ڈراتا ہے کہ دیکھنا یہ بچے تمہارے اپنے بچے کا حق نہ کھاجائیں۔ جبکہ دوسری ماں کو تو یہ ڈر ہونا ہی نہیں ہونا چاہیے کہ کیونکہ باپ تو سب بچوں کا ایک ہی ہوتا ہے۔ اس کے مال اور جائیداد پر سب بچوں کا برابر کا حق ہے۔ ۔ ہاں اگر سوتیلا باپ ہو تو سوتیلی اولاد کا ا اس کی جائیداد یا مال پرکوئی حق نہیں ہوتا۔ سوائے ا سکے کہ وہ احسان کے طور پر پرورش کردے۔ تو اس کا اس کو اجر ملے گا۔ جائیدا دمیں بیوی کی پہلی اولاد کا سوتیلے باپ پر حق نہیں ہوتا۔

کئی نیک گھرانوں میں جہاں خوف خدا ہے دوسری ماؤں کا بچوں سے سلوک بے حد قابل تحسین ہوتاہے۔ لگتا ہی نہیں کہ سگی ماں نہیں۔ پرورش کرنے کے بعد شادی بیاہ بھی بڑی ذمہ داری سے کرتی ہیں۔ ایسی خواتین دنیا میں ہی جنت کما لیتی ہیں۔

دوسری ماؤں سے یہ کہنا ہے کہ آپ اپنے شوہر کے بچوں کی پرورش کے لیے جو کام کرتی ہیں یقین رکھیں کہ خدا تعالیٰ اس کا اجر کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ آپ یہ کام دنیاوی ستائش کے لیے نہ کریں خدا کے لیے کریں، ۔ یہ نیکی دنیا میں آپ کی صحت کے لیے صدقہ بن جائے گی۔ خدا تعالیٰ اور معاشرہ بھی آپ کو ماں ہی کہتا ہے۔ یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ خدا نے آپ کو چن لیا ہے کہ آپ بے بس بچوں کی مسیحا بنیں۔ ان کی حفاظت کریں۔ کسی کے کہنے یا بہکانے میں نہ آئیں۔

کیا کوئی آپ کو اپنے بچوں کے خلاف بھڑکا سکتا ہے؟ تنگدستی سے نہ ڈریں۔ اللہ کشائش دے گا۔ اگر اپنی سگی اولاد کی بہتری کی ضمانت چاہتی ہیں تو بن ماں کے ان بچوں کا محبت سے خیال رکھیں جن کو اللہ نے آپ کی ممتا کے سپرد کیا ہے۔ انشاء اللہ آپ کے اپنے بچے کبھی بے مراد نہیں ہو ں گے۔ ان کا حق کوئی نہیں مار سکے گا۔ یہ وہ گارنٹی والی نفع کی تجارت ہے جس میں خسارہ نہیں۔

باپ کی دوسری شادی کے وقت بچے جو عموماً چھوٹے اور نادان ہوتے ہیں۔ بچپن میں ہو نہ بھی پہچانیں بڑے ہو کر وہ یقیناً آپ کی قدر کریں گے۔ ممکن ہے آپ کے بچوں سے بڑھ کر آپ کا خیال رکھیں۔ بچپن میں تو بچے ضد اور کم عقلی کے باعث سگی ماؤں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔ ا سلیے ان کی بے عقلیاں اور نادانیاں آپ کو ماؤں کی ہی کی طرح برداشت کرنی ہوں گی۔

سگے والد سے یہی کہنا ہے کہ میانہ روی اختیار کریں اور خود بھی اپنی ذمہ داری کو دیکھیں۔ ساری ذمہ داری آنے والی پر ڈال کر سبکدوش نہ ہو جائیں۔ اگر وہ زیادہ کام نہیں کر سکتی تو اس کو مدد گار رکھ کر دیں۔ اگر آپ کی پہلی بیوی نے دوسری شادی کر لی ہے تو ا سکا بدلہ ان معصوم بچوں سے نہ لیں۔ یہ تو آپ کا روپ ہیں۔ ان سے بدلہ لینا اپنے آپ سے بدلہ لینا ہے۔ اگر پہلی بیوی یہ بچے اپنے گھر سے لائی ہوئی ہوتی تو واپس ساتھ لے جاتی۔ یہ آپ کی اولاد ہے۔ اس لیے آپ کی ذمہ داری سب سے بڑھ کر ہے۔ ان کی پرورش بھلائی اور حفاظت آپ کا ذمہ ہے۔ ان پر رحم کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments