جون ایلیا سے محمد خالد تک


ہم نئی صدی کی پہلی دہائی کے نوآموزوں کو جون ایلیا سے تعارف 2002 میں یعنی ان کی وفات کے بعد ہوا۔ زیادہ عجیب نہیں لگا تھا کیوں کہ ہم خود نووارد تھے۔ تاہم نئے دیوانوں کے حلقے میں اظہار تاسف ضرور ہوا کہ ہم جہاں دیگر بڑے شعرا سے باخبر تھے وہاں جون سے بے خبر کیوں رہے۔ سلیم شہزاد اور عامر سہیل سے نئی نئی سنگت تھی، جون ہماری پہلی محبت بنے اور ثروت آخری۔ قصہ ختم۔

تقریباً دو دہائیوں بعد، آج پھر ایک صاحب اسلوب شاعر سے تعارف ان کی وفات پر ہوا۔ نمونۂ کلام نے مزید کلام کی تلاش پر اکسایا۔ کچھ کرم فرماؤں کی دیوار سے دو تین غزلیں ملیں، ریختہ سے رجوع کیا اور دس غزلیں مزید پڑھنے کو مل گئیں۔ ڈاکٹر آفتاب حسین کا دی نیوز میں چھپا مضمون A Hardcore Perfectionist پڑھ کر محمد خالد کے فن سے آگاہی ہوئی۔ مضمون کی تعارفی سطر سے محمد خالد تک عدم رسائی کی مزید وجوہ سمجھ میں آئیں :

Muhammad Khalid is a poet who sticks to his poetic truth — at the cost of remaining lesser known

مضمون نگار کے مطابق محمد خالد ستر کی دہائی میں عرفان صدیقی اور ثروت حسین کے ہمراہ شعری افق پر نمایاں ہوئے، تینوں شعرا نے معاصر غزل پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ بقول آفتاب احمد: محمد خالد نے معاصرین و متاخرین بالخصوص غلام حسین ساجد، ابرار احمد، اکرم محمود، افضال نوید، آفتاب حسین، ضیاء الحسن پر گہرے اثرات ڈالے۔

محمد خالد، بطور نقاد، ستر کی دہائی میں نمو پانے والی جدید غزل کے اہم نظریہ ساز تھے۔ اسی کی دہائی میں انھوں نے غلام حسین ساجد کی رفاقت میں اپنے معاصر شعرا کی پانچ پانچ غزلیں چن کر ”نئی پاکستانی غزل۔ نئے دستخط“ کے نام سے ایک انتخاب شائع کیا، یہ محض انتخاب نہیں تھا، یہ ستر کی جدید غزل کا رجحان ساز ابتدائیہ تھا۔ انھوں نے اس انتخاب کا تنقیدی دیباچہ ”نئی پاکستانی غزل۔ نئے امکانات“ لکھا اور غلام حسین ساجد نے ہر شاعر کے لیے الگ الگ تعارفی صفحہ تحریر کیا۔

محمد خالد کے تنقیدی شعور کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اس انتخاب میں جن ابھرتے ہوئے شعرا (فہرست: شبیر شاہد، ثروت حسین، غلام محمد قاصر، افضال احمد سید، جمال احسانی، شاہدہ حسن، سلیم کوثر، صابر ظفر، محمد اظہار الحق، ایوب خاور، محمد خالد، غلام حسین ساجد) کی غزل کے امکانات کا احاطہ کیا، ان میں سے بیشتر شعرا آج جدید غزل کے اہم ستون مانے جاتے ہیں۔

دستیاب و منتخب کلام سے محمد خالد کے شعری انفراد کا جائزہ لیا جائے تو چند پہلو ابتدائی قراتوں میں نمایاں ہو جاتے ہیں۔ محمد خالد کے اسلوب کا نمایاں ترین پہلو ایک خاص قسم کا ”پرکشش ابہام“ ہے۔ ابہام کی جمالیات بھی، ظاہر ہے، اسلوب کے اس نامیاتی کل کا کرشمہ ہوتی ہے جو متنی اظہار کو ابہام کی سطح پر لاتا ہے۔ محمد خالد کے ابہام میں الجھاؤ نہیں، سبھاؤ ہے :

ان ستاروں میں کوئی مشعل مہتاب جلا
اپنے خوابوں میں کبھی دیکھ ہمارا کوئی خواب
ڈال لیتے ہیں بھلا زنجیر عشرت پاؤں میں
تان کر چلتے ہیں سر پر درد کی چادر کہیں
دل کے اندر چپکے چپکے جاگتی ہے بے کلی
شور کرتی ہیں ہوائیں جسم کے باہر کہیں
آنکھ میں بیداریوں کی دھول گرتی جائے گی
آسماں سر پر اٹھائیں گے مہ و اختر کہیں
ہم جسے پردۂ خواب میں رہ کر دیکھ رہے ہیں
جاگنے والو تم نے بھی دیکھا یا نہیں دیکھا
آسمانوں سے ادھر کون سنبھالے کوئی نقش
یہ زمیں کہتی ہے پوشاک فقط میری ہے
سفر کا ایک ستارہ غمیں تھا ورنہ ہمیں
کسی سواد مسرت میں جا نکلنا تھا

ابہام کے سبھاؤ کا ایک پہلو یہ ہے کہ محمد خالد شعری بیان کو استعاروں سے بوجھل کرنے کی بجائے مجموعی فضا کو استعاراتی بناتے ہیں۔ استعارہ بھی لاتے ہیں، لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ خیال کو استعاراتی پہناوے میں گم نہیں ہونے دیتے، بل کہ خیال و استعارہ میں ایسا توازن لاتے ہیں کہ صورت اظہار کو ایک تجریدی سطح مل جاتی ہے۔ محمد خالد جہاں استعارہ نہیں لاتے، وہاں بھی انوکھے زاویۂ خیال سے متحیر کر دینے والی فضا باندھ لیتے ہیں :

ابھی قبول نہ تھیں یہ عنایتیں ہم کو
ابھی دلوں سے غم مدعا نکلنا تھا
کہیں اپنی طرز بدل بدل کے بھی مل ہمیں
کبھی آشنائی کے باب میں، کبھی خواب میں
بے کل بے کل رہنا دید کا پھل تو نہیں ہے
دیکھنے والی آنکھ نے جانے کیا نہیں دیکھا

دل چسپ بات ہے کہ محمد خالد نے روایتی لفظیات سے یہ غیرروایتی طرز نکالی ہے۔ روشن تراکیب ہیں اور بیشتر تراکیب استعارے /بعید استعارے پر مشتمل ہونے کے باوجود پرجمال اور سریع الفہم ہیں :

چہرۂ دوراں، کاروان بحر و بر، خیمۂ مہتاب، در آفاق، جامۂ عریانی، ہوائے ہجر، مشعل مہتاب، آتش ساعت آئندہ، طاق شب ہجراں، زنجیر عشرت، غم مدعا، سواد مسرت، آوارۂ غربت، انتظار سحاب

محمد خالد کے اسلوب کا ایک اور اہم پہلو ”مدعا کا غیاب“ ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ روایتی غزل کے عادی قارئین شعر کو شعر سے پہلے اور شعر سے باہر موجود مدعا کے اظہار کا ذریعہ سمجھتے ہیں، لہاذا شعر کی پڑھت کے دوران میں کوئی مانوس اور طے شدہ مدعا ڈھونڈنے لگتے ہیں، جب کہ حقیقت حال یہ ہوتی ہے کہ کوئی بھی مدعا ڈھونڈے سے نہیں ملتا، یہی ”مدعا کا غیاب“ ہے۔ ”مدعا کا غیاب“ ثروت کی غزلوں میں بھی جا بجا جھلکتا ہے۔ محمد خالد کے ہاں بھی جمال صورت و معنی یوں غالب آتا ہے کہ شعر کسی لگے بندھے مدعا سے آزاد ہو جاتا ہے :

کوئی نخل جھومتا ہے نگاہ کے روبرو
کبھی انتظار سحاب میں، کبھی خواب میں
بیٹھتا جاتا ہے آئنۂ ہستی پہ غبار
اس خرابے میں یہی خاک فقط میری ہے
کھل گیا ہو نہ کسی اور طرف باب مرا
کہیں آوارۂ غربت ہی نہ ہو خواب مرا
کسی انجان چمک کے ہیں دل و چشم اسیر
سلسلہ ایک سا ہے آئنے سے پانی تک
آتش ساعت آئندہ دہکتی ہی نہ تھی
ہم نے طاق شب ہجراں میں اتارا کوئی خواب

محمد خالد کے شعر کا طلسم ہے کہ قاری معنی و مدعا سے بے نیاز کبھی تصویر خانۂ حیرت کی سیر کرنے لگتا ہے، کبھی سیر بین خواب میں کھو جاتا ہے۔ جمال اظہار کا یہ عالم ہے کہ محمد خالد کے اشعار میں جہاں کہیں کوئی مدعا ظاہر ہوتا ہے، وہاں بھی متحرک تمثالیں اور استعاراتی پیکر مدعا سے اہم ٹھہرتے ہیں :

دل آوارہ کہیں چشم کہیں خواب کہیں
کیسا بکھرا در آفاق پہ اسباب مرا
کپکپاتا تھا جو دامن بھی بھگوتا ہوا میں
سب نے دیکھا کہ چلا ناؤ ڈبوتا ہوا میں
طے ہوتی چلی جاتی ہے بے فیض مسافت
اس راہ میں دیوار کا آنا بھی عجب ہے
خواہش جاں بھی لرز جاتی ہے ہر اشک کے ساتھ
میری مٹی کو بھی لے جائے نہ سیلاب مرا
لیے جاتی ہے نخل آرزو تک زندگی خالد
مگر دامن عطائے نخل سے بھرنے نہیں دیتی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments