نواب شبیر احمد چانڈیو ٹرسٹ کی سندھ میں تعلیمی خدمات


ہمارے ملک میں اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے، بنیادی حقوق تک سے محروم ہے۔ انسان کی ضروریات میں صحت، تعلیم، لباس اور طعام و قیام شامل ہے مگر ہمارے ملک میں آبادی کا بڑا حصہ ان بنیادی ضروریات سے محروم ہے، آج کے پر فتن دور میں ایسے ادارے بڑی اہمیت کے حامل ہیں جو خدمت خلق فلاحی اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اور لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کر رہے ہیں۔ عوامی مسائل کے حل کے لیے جہاں حکومتی اقدامات ناکافی ہوں تو یہ فلاحی ادارے ان کے حل کے لیے سامنے آتے ہیں۔ ان کا وجود یکساں طور پر کسی بھی ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 177، اسلامی عقائد، عبادات، معاشرتی فلاح و بہبود اور رفاہ عامہ کا عالمگیر چار ٹر ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :

”نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق و مغرب کی طرف اپنا منہ کر لو بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ لوگ اللہ پر، یوم آخرت پر، فرشتوں پر، کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان لائیں، اور اس کی محبت پر اپنا مال عزیزوں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں کو دیں اور گردنیں چھڑانے پر خرچ کریں“ ۔ (سورۃ البقرہ: آیت 177)

دوسری طرف صوبہ سندھ معیشت کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے اہم صوبہ سمجھا جاتا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کی آبادی 5 کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ صوبہ سندھ کی خاص بات یہاں کی بندرگاہ ہے جس کے ذریعے سے پاکستان پوری دنیا سے تجارتی رابطہ رکھتا ہے اور یہی بندرگاہ زرمبادلہ کا بڑا ذریعہ بھی ہے۔ صوبہ سندھ میں نظام تعلیم کا موازنہ دوسرے صوبوں سے کیا جائے تو ہمیں صورتحال دوسرے صوبوں سے مختلف نظر نہیں آتی۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے صوبہ سندھ میں پانچ سے بارہ سال کی عمر کے چار ملین کے قریب بچے تعلیم کی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ ساؤتھ ایشین فورم فار ایجوکیشن ڈویلپمنٹ (SAFED) کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی سندھ اور خصوصاً دیہی علاقوں میں خواندگی کی ابتر صورتحال کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ سندھ کے چھ اضلاع میں کیے جانے والے ایک جائزے کے بعد پیش کی گئی تھی۔ اس کے مطابق سندھ کے دیہی علاقوں میں 32 فیصد بچے اسکول جانے سے محروم ہیں اور اردو یا سندھی میں تحریر جملے نہیں پڑھ سکتے۔ ان اضلاع کے 66.5 فیصد بچے انگریزی میں لکھی تحریر نہیں پڑھ سکتے جبکہ 73 فیصد بچے سادہ دو عددی تفریق کے سوالات بھی حل نہیں کر سکتے۔

ایک دفعہ کسی ٹی وی چینل پر سندھ میں احتجاج کرتے ہوئے اساتذہ کے انٹرویوز لیے گئے۔ یہ احتجاج کرنے والے اساتذہ بنیادی معلومات، قرآنی آیات اور صحافی کی طرف سے پوچھے گئے انگریزی کے چند الفاظ کے سپیلنگ بتانے سے قاصر تھے۔ اس سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اساتذہ بچوں کو کیا تعلیم دیں گے۔ سب سے زیادہ بری حالت اندرون سندھ کے سکولوں کی ہے جہاں پر وڈیرہ سسٹم چھایا ہوا ہے۔ ان وڈیروں نے سکولوں کو اپنے ڈیروں اور مویشیوں کے باڑوں میں بدلا ہوا ہے اور یہاں کے اساتذہ کو ذاتی ملازم کی طرح سمجھتے ہیں۔ لیکن ان حالات میں بھی کچھ لوگ، اور کچھ تنظیمیں ایسی بھی ہیں جو اس تنگ و تاریک فضا میں خوشگوار جھونکے کی مانند ہیں۔ جہاں عام حالات سے ہٹ کر اور عمومی سوچ کے برعکس، قلم اور کتاب کا سے سندھ کے بچوں کو جوڑنے کا بیڑا، خود ایک سردار اور نواب خاندان سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں نے اٹھا رکھا ہے۔

This slideshow requires JavaScript.

ایک ایسی ہی رفاہی تنظیم کا نام ”نواب شبیر احمد چانڈیو ویلفیئر ٹرسٹ“ ہے جس نے اندرون سندھ کے غریب بچوں کی تعلیم کے لیے کام کر رہی ہے۔ سندھ کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہاں کے سیاستدان اور وڈیرے تعلیم کے خلاف ہیں۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ نواب شبیر احمد چانڈیو ویلفیئر ٹرسٹ جہاں عوام الناس کے لیے میڈیکل کیمپ لگا کر صحت کی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنا رہا ہے وہاں علاقے میں سکول بنا کر آنے والی نسلوں کو مفت تعلیم دے کر انہیں خودمختار اور ملک و قوم کے لیے بہترین سرمایہ بنا رہا ہے۔ جیسے ریاست عوام الناس کی ذمہ دار ہوتی ہے ایسے ہی قدیم زمانے سے قبیلوں کے سردار اپنی رعایا کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرتے آئے ہیں۔ اس ٹرسٹ کے انتظامات کی دیکھ بھال چانڈیو قبیلے کے رہنما سردار خان چانڈیو اور ان کے بھائی برہان خان چانڈیو کر رہے ہیں۔ اپنے والد محترم کے نام سے قائم شدہ اس ادارے کے ذریعے اندرون سندھ کے دور دراز گوٹھ، اور گاؤں میں علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔ دونوں بھائی خود جا کر سکولوں کی مانیٹرنگ کرتے ہیں۔ کتابوں کی مفت فراہمی کو یقینی بناتے ہیں۔ اپنی سیاست کو چمکانے کی بجائے حلقے سے باہر بھی جہاں تعلیمی ادارے کی ضرورت محسوس ہوئی وہاں جگہ لے کر اسکول قائم کیا۔

کہتے ہیں کہ ایک عورت کی تعلیم کئی نسلوں کو سنوار دیتی ہے۔ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے اس رفاہی ادارے نے لڑکیوں کی تعلیم کو اپنا نصب العین بنا لیا ہے۔ نواب سردار خان چانڈیو نے اپنے بزرگوں کی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے لڑکیوں کے لیے فی میل ٹیچرز کو تعینات کیا۔ یہی بچیاں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر آنے والی نسلوں کو بہترین تربیت دیں گی اور انہیں معاشرے کا مفید رکن بنائیں گی۔ نواب شبیر احمد چانڈیو ویلفیئر ٹرسٹ مستقبل میں مفت تعلیم کی فراہمی کا دائرہ کار وسیع کرنے کے لیے مصروف عمل ہے

صوبہ سندھ کی پسماندگی کے خاتمے کے لیے تعلیم جیسی اہم ضرورت کو پورا کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ نواب شبیر چانڈیو ٹرسٹ کے زیرسایہ اس وقت 10 سکول وارہ تعلقہ میں کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ گاؤں محمد ابراہیم چانڈیو، گاؤں جامک چانڈیو، گاؤں لشکر خان لاشاری، گاؤں دوری ماچھی، گاؤں صادق ماچھی، گاؤں اللہ دینو چانڈیو، گاؤں سلطان جتوئی، گاؤں رفیق احمد تنیو، گاؤں غلام رسول چانڈیو، گاؤں حاجی مری کا قبا، گاؤں حمل خان چانڈیو اور گاؤں شفیع محمد چٹو میں 20 سے زائد اسکول کام کر رہے ہیں جن میں 1580 سے زائد طلباء و طالبات تعلیم جیسی نعمت سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ٹرسٹ کی کاوشوں سے اس وقت 315 لڑکیاں زیور علم سے آراستہ ہو رہی ہیں۔ اور 1265 لڑکے پڑھ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی کاوش ہے جس کی نظیر نہیں اور سردار خان چانڈیو کی یہ بے مثال نیکی ہے جس کے اثرات نسلوں تک جائیں گے۔ دیگر قبائل کی سوچ کے برعکس نواب سردار خان چانڈیو نے لڑکیوں کی تعلیم پہ کام کر کے ایک روشن مستقبل کی راہ دکھائی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ کے باقی با اثر قبیلوں کے سردار بھی سردار خان چانڈیو کے اس نیک عمل کو اپناتے ہیں یا آنے والی نسلوں کو اندھیروں کی دھکیلتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments