کفر کے فتوے اور ملکی ترقی


پاکستان میں ٹیلیویژن چینلز پر وقتاً فوقتاً احمدیوں کے مسئلے پر اظہار خیال ہوتا رہتا ہے۔ انٹرنیٹ پر تو گویا اس موضوع کی بھرمار ہو گئی ہے۔ ٹیلیویژن اور یو ٹیوب کے لیے تیار کیے گئے پروگراموں میں مولوی حضرات، سیاستدان اور تجزیہ نگار کھل کر ختم نبوت کے عقیدہ پر اپنے ایمان کا مکمل اظہار کرتے نظر آتے ہیں اور احمدیوں کے کفر پر اپنی مہر ثبت کرتے ہیں۔ اور حال ہی میں ٹیلیویژن پروگراموں کے میزبانوں نے خود بھی اس میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ اس مضمون کے ذریعے یہ پیش کرنا مقصود ہے کہ ایسی روش ملکی مفاد کے خلاف ہے۔

اس سے پہلے کہ میں اپنے دعوے کے حق میں دلیل پیش کروں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ احمدیہ جماعت کا کفر ایک مذہبی مسئلہ ہے جو بظاہر سیاسی طور پر حل کرنے کے باوجود ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ بھٹو صاحب مغربی پاکستان میں اکثریتی ووٹ لے کر وزیر اعظم بنے تھے۔ خاصے مقبول تھے۔ ملک کو آئین دینے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ انھوں نے عوام کو فخریہ اور علانیہ بتایا تھا کہ انھوں نے یہ نوے سالہ پرانا مسئلہ حل کر دیا ہے۔ مگر ضیا صاحب کو پھر اس مسئلہ میں الجھنا پڑا۔ چنانچہ انھوں نے پاکستان میں احمدیہ عقائد پر عمل کو جرم بھی قرار دے دیا گیا۔ اب یہ مسئلہ تقریباً 130 سال پرانا ہو چلا ہے تو پھر نواز شریف صاحب کے تیسرے دور میں اور عمران خان صاحب کے دور میں حل ہو کر بھی بے حل ہو جاتا ہے۔ میں اس معمے کو ابھی یہیں چھوڑ کر اصل موضوع پر واپس آتا ہوں۔ یعنی احمدیوں پر کفر کے فتووں کی میڈیا پر تشہیر۔

اس حقیقت سے کوئی لاعلم نہیں کہ احمدیہ عقائد رکھنے والے لوگ پاکستان میں نہایت قلیل تعداد میں ہیں۔ یعنی پاکستانی عوام کی اکثریت احمدیہ جماعت کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کو اپنے دعوے میں جھوٹا سمجھتی ہے یا ایسا قیاس ضرور رکھتی ہے۔ اب یہ بھی ظاہر سی بات ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے اس لیے ہر ایک کو حق ہے کہ وہ جس راہ کو ٹھیک سمجھے اپنے لیے اختیار کرے۔ اور یہ بھی اختیار ہے کی دوسرے کی راہ کو گمراہی سمجھے۔ مگر ملک میں موجود باقی تمام ”غلط“ راہوں کو چھوڑ کر صرف ایک راہ کو بار بار تنقید کا نشانہ بنانے میں دو مسئلے ہیں۔

1) اول تو یہ کہ انسان جس چیز کو ناپسند کرتا ہے اس کا ذکر کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ اب پاکستان کی اکثریت مرزا غلام احمد قادیانی کو غلط سمجھتی ہے اور شناختی کارڈ وغیرہ بنواتے ہوئے اس کی تصدیق بھی کرتی ہے۔ تو پھر اس ناپسندیدہ عقیدے کو بار بار زیر موضوع لانا وقت کا ضیاع نہیں تو اور کیا ہے؟ ٹیلیویژن اور سوشل میڈیا کے ان غیر تعمیری پروگراموں کو کروڑوں نہیں تو لاکھوں لوگ دیکھتے ہے؟ اس طرح قوم کے لاکھوں گھنٹے ہر مہینے ضائع ہوتے ہیں۔ کیا ترقی پسند قومیں اپنے وقت کا استعمال ایسے ہی کیا کرتی ہیں؟

2) دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بیسیوں فرقوں میں سے اپنے فرقہ کو صحیح سمجھنا عین مناسب اور عقل کے مطابق ہے۔ مگر یہ مسلمہ بات ہے کہ ہر فرقہ کے علما نے دوسرے فرقے کی گمراہی کو کفر بھی قرار دیا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر دیوبندی بریلویوں کو کیا سمجھتے ہیں اور بریلوی دیوبندیوں کو کیا سمجھتے ہیں یہ کس کو نہیں پتا؟ اور سنی شیعہ کو اور شیعہ سنیوں کو کیا سمجھتے ہیں یہ کس سے چھپا ہوا ہے؟ اور اگر کسی کو شک ہو تو وہ اپنے فرقہ کے عالم دین سے جا کر پوچھ سکتا ہے۔ اور اگر چاہے تو راقم سے رابطہ کرے تا کہ اسے تمام بڑے فرقوں کے اکابرین کی دوسرے فرقوں پر کفر کے فتووں کی مستند کاپی مہیا کر دی جائے گی۔

چنانچہ جب کسی ایک فرقے یا مذہب کے کفر پر زور دیا جاتا ہے تو عوام کے ذہنوں میں باقی فرقوں اور مذاہب کے کفر کی طرف خیال جانا ایک قدرتی بات ہے۔ اور پھر ملک کا امن و امان میں خطرہ پڑ جاتا ہے کیونکہ کون نہیں جانتا کہ اکثر فرقوں کے علما کے مطابق کافر اور مرتد وغیرہ کی خاص شرعی سزائیں بھی ہیں۔ اگر کسی کو ملک کے امن و امان کے اس معاملے سے تعلق پر شک ہو تو یاد دہانی کے لئے سلمان تاثیر اور بینظیر بھٹو کے نا حق قتل کا ذکر کافی ہے۔ اور میری دانست میں تو لیاقت علی خان کے قتل کا تعلق بھی انھی فتووں سے ہے کیونکہ محض سیاسی اختلاف کی بنا پر دنیا میں قتل نہیں ہوا کرتے۔ بہر کیف اگر کسی کو شک ہو کہ کسی ذاتی لڑائی جھگڑے سے ماورا قتل کا کفر وغیرہ سے کیا تعلق ہے تو وہ علما دین سے پوچھ سکتا ہے کہ ان کے خیال میں مرتد کی کوئی شرعی سزا ہے؟ بلکہ آج کل یہ تمام معلومات آپ کو یو ٹیوب پر با آسانی مل جائیں گی۔ چنانچہ ایک خاص فرقے یا مذہب کی تکفیر پر زور دینا پھر وہیں محدود نہیں رہتا بلکہ لوگوں کے ذہنوں میں باقی تمام ”کافروں“ یا ”مرتدین“ کی طرف بھی خیال جاتا ہے۔ اور پھر وہ تمام لوگ بھی اس سے غیر محفوظ ہو جاتے ہیں۔

یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ قتل کے انتہائی قدم تک تو چند ہی لوگ جاتے ہیں مگر دل میں دوسرے فرقے یا مذہب کے لوگوں کے خلاف بغض یا نفرت کے جذبات رکھنا بھی ملک کی معیشت پر برا اثر ڈالتا ہے۔ اس لیے کہ دفتروں اور فیکٹریوں وغیرہ میں یا کسی بھی ایسی جگہ پر جہاں مل کر کام کرنا پڑتا ہے وہاں ایک دوسرے سے تعاون کی فضا اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک دوسرے کے مختلف مذہبی اور ذاتی خیالات کے لیے رواداری کا جذبہ نہ ہو۔ اور ویسے بھی آج کل جدید کارخانوں اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ عالمی منڈیوں میں مال بنانے والے کا عقیدہ دیکھ کر تو اشیا نہیں خریدی جاتی۔ اس لیے پاکستانی مصنوعات کی کوالٹی بہتر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ آپس میں اگر پیار نہیں تو کم از کم عزت سے ایک دوسرے کے ساتھ کام کر سکیں۔ اس لیے ہر ایسا پروگرام جو چاہے کسی ایک بھی فرقے یا مذہب کے خلاف نفرت پھیلائے حکومت کو اس پر نظر رکھنی چاہیے۔

آخر میں 130 سالہ پرانے احمدی مذہبی مسئلہ کی طرف دوبارہ آتا ہوں۔ اگر وہ سیاسی طور پر حل ہو چکا ہے تو اس پر بات فضول ہے۔ اگر نہیں ہوا تو اس مضمون میں بھی حل نہیں ہونے لگا۔ مگر پاکستان کے طاقتور حلقوں کو سوچنا چاہیے کہ مذہب کو سیاست سے الگ رہنے دیا جائے تو شاید ملک کے لیے بہتر ہو۔

بلال باجوہ، امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بلال باجوہ، امریکہ

بلال باجوہ امریکہ میں مقیم پاکستانی شہری ہیں اور ٹیکنالوجی کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور اور فاسٹ ادارہ سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور امریکہ کی کورنیل یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

bilal-bajwa-usa has 3 posts and counting.See all posts by bilal-bajwa-usa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments