مشرق کے مرد نے مشرق کی عورت کے دل میں کبھی جھانکا؟


“میری بظاہر رنگین مزاجی اور باتوں کے بر عکس میں بنیادی طور پر ‘ون وومن مین’ ہوں عمومی تاثر (promiscuous) کے بر خلاف میں نے کبھی اپنی بیوی کترینہ کو چیٹ (دھوکا) نہیں کیا۔ کام کاج بزنس میں مصروف تھا۔

انیس سالہ تعلقات کے خاتمے پر میں نے کبھی شادی نا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس میرج انسٹیٹیوشن کے ہی خلاف ہو گیا۔ 2017ء میں آفیشل طلاق کے بعد جشن آزادی کے طور پر ڈیٹیں مارنی شروع کیں اور ڈیٹیں میں نے امریکا سے لے کر جاپان تک، میکسیکو سے کوریا تک ماریں۔

اس عمومی تاثر کے بر عکس کہ مغربی عورت سہل ہے، جسمانی تعلق پر جلد رضا مند ہے وغیرہ، کے مقابلے میں پاکستانی، افغانی اور ایرانی عورت کو آسان پایا۔ ‎ٹھیک ہے، میں ملٹی ملینیئر ہوں، جو ساری دنیا میں اہم کردار ادا کرتا ہے، لیکن جتنی آسانی سے اسلام آباد، لاہور سے لے کر کراچی تک کی خواتین راضی ہوئیں، اتنی ایمسٹرڈیم، اور بظاہر سستے مشرقی یورپ میں نہیں ہوئیں۔ جانتا ہوں کہ بلینکٹ اسٹیٹمنٹ نہیں دی جا سکتی، سب کا تو نہیں کہہ سکتا، لیکن مغربی عورت کو پیسے کے علاوہ ذہانت، حس مزاح اور توانائی سے امپریس کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ مسلمان (ایشیائی) خواتین پہلا موقع ملتے ہی جام شہادت نوش فرما گئیں۔”

مندرجہ بالا سطور، مسرور قاسم صاحب کی اجازت سے ان کی فیس بک وال سے نقل کی گئی ہیں۔

مسرور صاحب کا دعوا درست مان لیا جائے تو یہ سوال ابھرتا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ جنوب ایشیائی عورت جسے وہ اپنے دعوے میں مسلمان عورت کہتے ہیں، ایک ملٹی میلینیئر کے لیے تر نوالہ ثابت ہوتی ہے؟ یہ سوال بھی جواب طلب ہے، ایسا کیوں ہے کہ ایران، پاکستان، افغانستان (اور انھیں کوئی اعتراض نہ ہو تو ہندستانی عورت کو بھی اس فہرست میں شامل کر لیا جائے)، ان خطوں کی خواتین بہ نسبت فار ایسٹ، یورپی، امریکی خواتین کے، بستر تک جانے میں سہولت محسوس کرتی ہیں؟ وہ اپنی فیس بک پوسٹ پر اس فعل کی وجوہ بتانے سے قاصر رہے۔

اگر چہ مجھے زندگی گزارنے کا وہ تجربہ تو نہیں، جو مسرور قاسم صاحب کا ہے، پھر بھی میں اپنی طرف سے کوشش کرتی ہوں کہ ان وجوہ کو سامنے لا سکوں، جن کی بہ دولت وہ جنوب ایشیائی عورت کو پہلے قدم پر “جام شہادت” نوش کروا رہے ہیں۔ مسرور صاحب کے مطابق ہمارے ملک پاکستان کی عورت ایسی، (شاید یہاں ‘ایسی ویسی’ کہنا بہ جا ہو) اور فلاں ملک کی ویسی ہے۔

دنیا میں جہاں کہیں بچہ بچی پیدا ہوں، مرد و زن کے ملاپ ہی سے جنم لیتے ہیں۔ ہر انسان وہ بھلے کہیں بھی پیدا ہو، ایک ہی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ کہتے ہیں، فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ فطرت تبدیل نہیں ہوتی لیکن فطرت چھپائی جا سکتی، اس کی تربیت کی جا سکتی ہے۔ تربیت کے لیے ماحول درکار ہوتا ہے۔ منحصر ہے کہ انسان کس ماحول میں پرورش پاتے ہیں۔ ان کا بچپن، لڑک پن، جوانی کہاں اور کس ماحول کا ایندھن بنتی ہے۔ پس یہ بات تو صائب ہے کہ انسان پر تربیت سے زیادہ ماحول کا اثر پڑتا ہے۔

مسرور قاسم صاحب کی یہ بات کہ مغربی ممالک میں عورت سے جسمانی تعلق بنانا کیوں کر مشکل اور مشرقی ممالک میں کیوں آسان ہے، اس کا جواب ہے کہ یہ تربیت کا اثر ہے۔

یہاں مشرقی عورت بمقابلہ مغربی عورت ہی نہیں، مرد کو بھی جانچنے کا موقع ہے۔ ایک مشرقی مرد، یہ تقابل تو کر سکتا ہے کہ کہاں کی عورت جلد بستر میں آتی ہے، لیکن ایک مشرقی عورت یوں سر عام کہے کہ مشرق کے مرد کی زیادہ رال ٹپکتی ہے یا مغرب کے مرد کی، تو شاید اس کا انجام بد تر ہو۔ کیا مشرق کی عورت کو مشرق و مغرب کے مرد کا ایسا ہی تقابل کرنے کی آزادی نصیب ہے کہ کون سا مرد تر نوالہ ثابت ہوتا ہے؟ مسرور قاسم صاحب خود کو مشرقی مرد کہتے ہیں یا مغربی، مجھے یہ پوچھنا یاد نہیں رہا، لیکن بلا تخصیص مذہب، فرقہ، قوم، ذات، میں ایران، افغانستان، پاکستان اور ہندوستان کے مرد کی طرف سے یہ جواب دے دیتی ہوں:
“نہیں۔ ایک مشرقی عورت کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ مردوں کے ساتھ سونے جاگنے جیسی لغو باتیں کریں۔ ایسی بے حیا عورت دھڑلے سے ایسی اسسٹیٹمنٹ دے کر کے خاندان بھر کی، معاشرے، مذہب، قوم، ذات کی ناک کٹواتی پھرے۔ بہتر ہے ایسی عورت کو قبر میں اتار دیا جائے۔”

مشرق کی عورت کا تجزیہ کرنے سے پہلے کیوں نا مشرق کے مرد کا تجزیہ کر لیا جائے؟ مسلمان عورت سے پہلے کیوں نا مسلمان مرد کی بات کر لی جائے؟ ان خطوں کی خواتین سے جو سلوک روا رکھا جاتا ہے، کیوں نا اسے جان لیا جائے!؟

ایک عورت ہونے کے ناتے سے میں عورت کو جتنا سمجھی ہوں، وہ یہ ہے کہ عورت کہیں کی بھی ہو، اس کے کچھ خواب ہوتے ہیں۔ اس میں ایک خواب محبت کا بھی شامل کر لیں۔ مشرق کا مرد، عورت سے محبت کرنا چاہتا ہے، لیکن عورت کو محبت کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ عورت محبت کرے تو اس کی غیرت کو بٹا لگ جاتا ہے۔ مسرور قاسم صاحب نے مغرب کی عورت ہی نہیں مغرب کا مرد بھی دیکھا ہو گا۔ مناسب ہوتا کہ مغرب کے مرد کا احوال بھی بیان کر دیتے تو بات صاف ہو جاتی۔ کیا مغرب کا مرد مغرب کی عورت کو ایسے ہی غیرت کے نام پر قتل کر دیتا ہے، جیسے مشرق میں؟ مستثنیات کو چھوڑ کے ایسا نہیں ہے۔ مغرب کی عورت اس گھٹن کا شکار نہیں ہے، جس گھٹن میں مشرق کی عورت سانس لے رہی ہے۔

کہہ دیا جائے کہ مشرقی مرد کی سوچ، عورت کو بستر تک لے جانے کی ہے یا اپنے گھر کی عورت ہے تو وہ چولھا ہانڈی تک محدود رہے۔ تعلیم، شعور، علمی مباحث سے اس کا کوئی ناتا نہیں۔ مشرق میں عورت کی یہ تربیت کی جاتی ہے کہ اس نے کسی مرد کا گھر ہی سنبھالنا ہے۔ جھاڑو پونچا، گھر داری، اور شوہر کی عزت کی حفاظت کرنی ہے۔ مشرق کا مرد جہاں مرضی آئے منہ مارے، عورت کو زیبا نہیں کہ شکوہ کرے، شکایت کرے۔ کیوں کہ وہ گھر کی رانی ہے۔ رانی رانی پکارتے اسے کنیزوں جیسی تربیت دی جاتی ہے، تو کنیز کی کیا مجال وہ انکار کرے۔ باندی کی کوئی منشا ہوتی ہے صاحب؟

مشرق کی عورت کو فقط ذاتی استعمال کی چیز سمجھا جائے، اس کو گھٹن زدہ ماحول میں پروان چڑھایا جائے اور کسی کی دھوتی کے پلو سے یہ کہہ کر باندھ دیا جائے کہ ہم نے تمھارے بہتر مستقبل کا خیال رکھتے، تمھاری شادی یہاں طے کر دی ہے۔ اچھے لوگ ہیں۔ بس تم نے ہماری لاج رکھنی ہے۔ گھر سنبھالنا ہے۔ بچے پیدا کرنے ہیں۔ اگر کوئی اونچ نیچ ہو تو گھر آباد رکھنے کے لیے برداشت کرنا ہے۔ اس پر مستزاد سیکس بھی گھریلو کام کاج کی طرح ڈیوٹی بنا دیا جائے، تو سونے پہ سہاگا ہو جاتا ہے۔ لیجیے “مشرقی عورت” کا مجسمہ تیار ہو جاتا ہے۔ وہ پتھر کی دیوی ہے، جس کے جذبات نہیں، محسوسات نہیں، خواہشات نہیں۔ جو اس کے قدموں میں ڈال دو، وہ گپ چپ ساکت رہے۔ دان قبول کرے۔

مشرقی عورت کو شادی کے روز ایک چاکلیٹی کیک کی طرح تیار کر کے، پلنگ سجا دیں گے، اور ہدایت دیں گے، دولہا میاں تم کو جس انداز میں کھانا چاہیں، یہ ان کا حق ہے، تمھارا نہیں۔ تم محض یہ سمجھنے کی کوشش کرو کہ تمھارے (مشرقی) مرد کی سوچ، مزاج کیسا ہے۔ تمھاری اپنی کوئی ذات نہیں۔ تم ایک جسم ہو، اس کے علاوہ تمھارے خواب، خواہشیں، مرادیں در حقیقت کوئی معنے نہیں رکھتیں۔ جس کے ساتھ بیاہ دیا گیا، وہ پورا مرد نہ بھی ہو تو اپنی زبان بند رکھنا۔ مشرقی عورت کے لیے جنسی لذت کا حصول پاپ ہے۔ ادھورے مشرقی مرد سے اکتانے کا اسے کوئی حق حاصل نہیں۔ زبان سے قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے، کے علاوہ کوئی لفظ نہ ادا ہو۔ جی چاہے نہ چاہے مشرقی عورت بن کے رہنا، مشرقی مرد کو انکار نہیں کرنا۔ ہاں اگر تمھارا (مشرقی) مرد کسی اور عورت سے بدنی تعلق بنا لے، تو گھر اور بچوں کی بقا کے لیے خاموش رہنا ہے۔ یہی وہ خاموشی ہے جو مشرق کی عورت کو بے مول کر دیتی ہے۔ اس کی گھٹی میں ڈال دیا گیا ہے کہ شور مچاو گی تو تمھاری ہی بے عزتی ہو گی۔ مشرقی عورت مشرقی خاندان کی عزت کے خوف سے چپ رہتی ہے تو سہل سمجھ لی جاتی ہے۔

مشرقی عورت صدیوں سے ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد سہنے کے بعد، اپنے حقوق سے محروم ہی نہیں، نابلد بھی ہے۔ مشرقی عورت اُس خطے میں رہتی ہے، جہاں عورت کو بنیادی تعلیم، اس کے انسانی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ایک لمحے اس مشرقی عورت کے دل میں جھانک کے دیکھا تو ہوتا، جو آسانی سے بستر تک آ گئی کہ کہیں وہ انہی محروم مشرقی عورتوں میں سے تو نہیں، جو مشرقی مرد کے بستر میں ادھوری رہ جاتی ہیں، اور مشرقی سماج کی عزت کے نام پر چپ رہتی ہیں۔ ممکن ہے وہ جنسی تسکین کو ترسی ہوں اور سیکس کی اکتاہٹ دور کرنے کے لیے، آسانی سے کسی اور (مشرقی) مرد کا تر نوالہ بن گئی ہوں، جو یہ سمجھتا ہو کہ مشرقی عورت اس کی دھن دولت پر قربان ہو گئی ہے!

مجھے معلوم ہے بلینکٹ اسٹیٹمنٹ دینا مناسب نہیں، لیکن یہ سمجھتی ہوں، یورپ کا مرد، مشرق کے مرد سے زیادہ با شعور ہو گا، جو عورت کو انسان سمجھنے لگا ہے۔ مغربی مرد، انسان کی طرح عورت کی خواہشات و منشا کو تسلیم کرتا ہے۔ مغربی مرد نے عورت کے دل میں جھانکنے کا فن بھی سیکھا ہو گا۔ یقینا یورپ کی عورت کی ذہانت میں یورپ کا مرد برابر کا شریک ہو گا۔ کیا مشرق کا مرد اپنی بہن، بیٹی، بیوی، محبوبہ، حتا کہ اپنی ماں کو بھی آزادی دینے کو تیار ہے، جس نے اسے اپنی کوکھ سے جنم دیا؟

مشرقی عورت غلام ہے تو مشرقی مرد بھی غلامانہ ذہنیت کا اسیر ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے ایک غلام عورت، ایک آزاد مرد کو جنم دے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments