بیمار کا حال اچھا ہے (کچھ مزید طبی، سماجی اور روحانی مشاہدات)


مریض کی ٹانگ کا بریس کھول کر ڈاکٹر لیزلی نے زخم کا جائزہ لیا۔ کچھ دیر پیر کو گود میں رکھ کر ہلکے ہلکے مختلف سمتوں میں موڑا۔ مریض کو بستر سے سہارا دے کر کمر میں ہاتھ ڈال کرکمرے کے دو تین چکر لگائے۔ نوجوان کا دو ماہ بعد بغیر بیساکھی کے چلنے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ اس دوران وہ ایک منٹ کے لیے بھی مریض کے چہرے کے تاثرات سے غافل نہ ہوئیں۔ زخم کے گرد خشک مردہ جلد کو کاٹنے کی اجازت مریض سے طلب کی۔ عفافہ ان کے کہنے پر ایک سرجیکل کٹ لے آئی۔ تین چار مختلف قینچیاں۔ دو تین چاقو، مرہم، بینڈایج ایز، دستانے۔ پوچھ لیا کہ کہو تو یہ کام عفافہ یا ایلیکس (پیرا میڈک) بھی کرسکتے ہیں۔ مریض نے پوچھ لیا کہ ان کی کارکردگی میں اور آپ میں کیا فرق ہوگا کہنے لگیں۔ بہت چھوٹا سا۔ محبت۔ اپنی ٹانگ میں گود میں رکھو۔ وہ یہ کام بستر کے ساتھ اسٹینڈ رکھ کر کریں گے۔

آہستہ آہستہ اس کے گھٹنے کے نیچے کی مردہ کھال کو خود کاٹا۔ یہاں پاکستان میں اکثر ڈاکٹر ان کاموں کو حقیر جان کر یہ کام وارڈ بوائیز یا ماتحت عملے سے کراتے ہیں۔ قینچی گو ایک استعمال ہوئی تھی مگر پوری کٹ سیدھی کچرے میں پھینک دی۔ مریض کو کہنے لگیں کہ ماحول کی تبدیلی کے لیے سرجن صاحب کی سفارش پر تمہیں ایک ہفتے کی چھٹی دے رہے ہیں۔ میں تمہاری امی کو سکھا دیتی ہوں کہ تمہارے زخم پر مرہم کیسے لگانا ہے۔ اس نے دستانہ پہنا کر یہ مشق دو تین دفعہ کرائی اور پھر عملے کو حکم دیا کہ ان کی کار میں ایسی تین کٹس اور دستانوں کے تین ڈبے رکھ دیں (یہ کل چھ درجن دستانے ہوئے)۔

مریض کو چھیڑنے کے لیے کہنی لگیں کہ میری کمر تو تم نے بہت پیار سے تھامی تھی۔ ہماری ملاقات اب بارہا اس وقت تک ہوتی رہے گی جب تک تم میری طرح سڑکوں پر جاگنگ نہیں کروگے۔ تم غیر شادی شدہ ہو کسی اچھی لڑکی کے پیچھے بھاگو گے تو اپنا گم شدہ خوبصورت جسم اور خوبصورت لڑکی ایک ساتھ مل جائیں گے۔ میں تمہارے ہسپتال میں ضائع شدہ وقت کے ازالہ چاہتی ہوں اس لیے یہ مشورہ دے رہی ہوں۔

ہم نے پوچھ لیا کہ کیا وہ روزانہ جاگنگ کرتی ہیں تو بتانے لگیں کہ پانچ سال میں نیویارک کے بے رحم موسم میں ایک بھی ایسا سویرا طلوع نہیں ہوا جب وہ چھ میل روزانہ دوڑی نہ ہوں۔ چھٹی والے دن وہ بیس میل دوڑتی ہیں۔ اپنے میاں اور بیٹے کے ساتھ جائیں گی تو راستے میں اتر جائیں گی۔ شاپنگ مال جہاں وہ موجود ہیں وہاں پہنچ کر کسی جگہ غسل کر کے کپڑے بدلیں گی۔ ہم نے پوچھ لیا کہ ہم اگر جاگنگ کریں تو کیا وہ دیگر ورزش سے مفید ہو گی اور اس میں گھٹنے، ٹخنے اور ریڑھ کی ہڈی پر جسمانی چوٹ لگنے کا کتنا احتمال ہے۔ کہنے لگی اتنا ہی جتنا نیند میں بستر سے گرنے کا ہوتا ہے۔ ہر سال آٹھ سو امریکی بستر سے گر کر مرتے ہیں جب کہ جاگنگ کی وجہ سے اتنی اموات نہیں ہوتیں۔

جوتے اچھے ہوں۔ ایڑی اور پنجے کو اچھا کشن ملنا چاہیے۔ کوشش کریں کہ آپ کا گھٹنا ٹھیک سے مڑے اور زمین پر آپ کا پنجہ پہلے لینڈ کرے نہ کہ آپ کی ایڑی۔ پنجہ پہلے زمین پر لینڈ کرے گا تو ریڑھ کی ہڈی اور گھٹنے کو جھٹکا نہیں لگے گا۔ جاگنگ یا دوڑنے سے طبیعت خوش رہتی ہے۔ آپ کی بد احتیاطی کے نتیجے میں جمع شدہ وہ کیلوریز جنہیںcrazy calories کہتے ہیں ان سے جلد نجات ملتی ہے۔ بدن کو دھوپ لگتی ہے تو  Vitamin Dبھی مل جاتا ہے اور جم میں ایک گھنٹہ ورزش کے مقابلے میں جاگنگ میں دو گنا کیلوریز خرچ ہوتی ہیں۔ سو ہم اب دوڑتے تو نہیں لیکن تیس منٹ میں چار کلو میٹر والی واک ضرور کرتے ہیں۔

ڈاکٹر لیزلی نے تو نہیں بتایا لیکن ہم بتائے دیتے ہیں کہ روزآنہ صبح پانچ بجے کے لگ بھگ سی آئی اے کے متعلقہ ڈپٹی ڈائریکٹر اپنی کلائی سے ایک ہتھکڑی سے بندھا بریف کیس لے کر اعلی الصبح وہائٹ ہائوس پہنچ جاتے ہیں۔ اس میں پوری دنیا سے رات بھر موصول شدہ رپورٹس کی بنیاد پر ایک خلاصہ امریکی صدر کو سمجھانے کے لیے ہوتا ہے۔ اسے وہاں President’s Daily Brief (PDB)  کہتے ہیں۔ صدر کے ساتھ وہ بھی وہائٹ ہائوس میں جاگنگ کرتے کرتے یہ خلاصہ شئیر کرتے ہیں۔ صدر کلنٹن، بش، اوبامہ سب ہی دوڑا کرتے تھے۔ کونڈا لیزا رائس جو ان کی وزیر خارجہ تھیں وہ تو دنیا میں کہیں بھی ہوں۔ جس ملک کے دورے پر بھی ہوں قیام امریکی سفارت خانے میں کرتی تھیں۔ اٹھتی صبح چار بجے تھیں۔ پچاس منٹ کا ورک آئوٹ اور پچاس منٹ کا پیانو سیشن معمول تھا۔ کنسرٹ لیول کی پیناسٹ تھیں۔ اسی ورزش کا کمال تھا کہ ان کی سڈول ٹانگوں کو دیکھ کر پاکستان کے ایک لیڈی کلر وزیر اعظم کا دل ہوم ہوم کر اٹھا تھا۔ ایک اعلی سطحی سرکاری میٹنگ میں تعلیم پر وفاقی بجٹ جتنے چھوٹے سے اسکرٹ سے جلوے لٹاتی سڈول آبنوسی ٹانگوں کی تعریف کی تو کونڈی جی تائو کھا کر وہاں موجود شرکاء سے کہنے لگیں Can somebody stop this blithering idiot ? (کوئی ہے جو اس الو کے پٹھے کو روک دے؟) یہ واقعہ مارکس موربی کی کتاب Twice as good میں درج ہے۔ کوئی یہ نہ کہے کہ اس نے سنا، یا پڑھا نہیں۔ اس کا نہ سننا یا نہ پڑھنا اس کی اپنی محرومی اور لاعلمی ہے، دنیا کا نقصان نہیں۔

 بھور بھئے وہ شبھ گھڑی ہوتی ہے جب امریکہ بشمول اپنے صدر کے جاگ گیا ہوتا ہے۔ دوسری طرف یہاں ہمارے جوانیاں مان وزیر اعظم اور صدر کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ الٹی برمودا نیکر پہن کر ایک پانچ سو گز کے بنگلے جتنے بدذوق فرنیچر اور بدنما قالین والے لاہور کے بیڈ روم میں پڑے ہیں یا کسی پہاڑی کے دامن میں ڈیپ اسٹیٹ کی گالیاں کھا کر خواب میں نیا آرمی چیف ڈھونڈ رہے ہیں۔ یوں بھی امریکہ میں رات جلدی سونے اور تہجد کے وقت اٹھ جانے کا رواج عام ہے۔ یاد رکھیئے امریکی معاشرہ ایک بے حد پریکٹکل معاشرہ ہے۔ اس میں سہولت، ذہانت اور محنت کے ذریعے دولت کا حصول ہر کارروائی میں ملحوظ نظر رکھا جاتا ہے۔

 نرس عفافہ کی رپورٹ کے حوالے سے چوتھا نتیجہ محمد بلال کی صورت میں برآمد ہوا ڈاکٹر لیزلی کو گئے ہوئے پون گھنٹہ گزرا ہوگا کہ ان کے جانے بعد افریقہ کے کسی ملک کے روایتی لباس Agbada  میں ملبوس محمد ہلال آ گئے۔ سیاہ رنگت مگر چہرہ پرنور اور شانت۔ تمکنت اور اعتماد کمال کا۔ آواز کا کھرج جگجیت سنگھ اور امانت علی خان کی یاد دلاتا تھا۔ (ایسی پرلطف تحریر چل رہی تھی۔ یہاں پہنچ کر مکرمی اقبال دیوان نے غیرضروری چرکا لگایا۔ استاد امانت علی خان اور جگجیت سنگھ کو ایک روشن دان میں رکھ کے ایسی اذیت دی جو ٹیلی ویژن چینل پر کسی دفاعی تجزیہ کار کی سمع خراشی سے پہنچتی ہے ۔ مدیر) انگریزی کی کھنک پی ٹی وی کے پہلے باکمال ایم ڈی اسلم اظہر کی (ویسے وہ دوسرے تھے۔ پہلے زیڈ اے بخاری تھے۔ شنید ہے کہ انہیں اس لیے ہٹادیا تھا کہ جب فیلڈ مارشل ایوب خان کراچی میں ٹی وی اسٹیشن کے افتتاح پر آئے تھے تو تقریر کے لیے کھڑے ہوئے اس اثنا میں ان کی پتلون سے وارنش لگ گئی تھی۔ کچھ لوگ برطرفی کی اس وجہ کو ناکافی مان کر رد کرتے ہیں)۔  نیویارک کے یہودیوں کے ہسپتال میں ایک مسجد کے امام۔ اس پر بڑی حیرت ہوئی۔ کہنے لگے ہسپتال والوں نے خاصا بڑا رقبہ مسجد کے لیے مختص کیا ہے۔

ان کی امامت میں پانچ وقت کی صلوۃ کے علاوہ صلوۃ الجمعہ اور عیدین بھی ہوتی ہیں۔ رمضان میں گاہے بہ گاہے افطار کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ پاس پڑوس کے مسلمان اپنی افطاری لے کر آجاتے ہیں۔ ہسپتال کی جانب سے بھی افطار کے چند لوازمات ہوتے ہیں۔ بڑی  (Bon homie) شغل میلہ رہتا ہے۔

ان کے سینے سے لگا صدہا عقیدت اور احترام  قرآن العظیم کا نسخہ تھا۔ ہم نے اس جانب اشارہ کرکے پوچھا تو۔ کہنے لگے کہ مسلمان مریض کے سرہانے قرآن الکریم کا ورد کرنا ہسپتال کی جانب سے میرے فراض میں شامل ہے۔ کئی دفعہ دوسرے مریض بھی یاد کرلیتے ہیں۔

مجھے بتایا گیا کہ کوئی نوجوان مسلمان مریض بہت دل شکستہ اور مایوس ہے۔ اس نوجوان کے دل پر بوجھ ہے۔ میں اس لیے آیا ہوں کہ وسوسوں اور اداسی دور کرنے کے لیے کچھ ورد کروں۔ ہم نے سورۃ یونس کی آیت نمبر 81 اور 82 کی اضافی تلاوت کی درخواست کی تو حیر ت زدہ ہوئے کہ یہ تو جادو کے توڑ کے طور پر پڑھی جانے والی آیات ہیں۔ ورد کے مطالبے سے پوچھنے لگے کہ یہ آیات کیوں۔ ہم نے کہا یہاں نیویارک میں ایک پیر صاحب ہیں ان کا خیال تھا کہ مریض پر جادو کیا گیا ہے۔ یہ جادو خاندان کی کسی لڑکی نے شادی کے لیے کرایا ہے۔ اس کے پاس اس کا علاج بھی ہے۔ جب لڑکا اس پر دھیان دے کر ہاں کہنے پر رضامند ہوجائے گا تو وہ یہ توڑ پڑھ کر جادو اتار دے گی۔

ہم نے پیر صاحب کو فون پر جتایا کہ سیدنا یہ مریض نوجوان ضرور ہے مگر رو کر روٹی مانگتا ہے۔ اس کے شیونگ لوشن کا خرچہ بھی سرکاری پنشن سے نانی اٹھاتی ہے۔ پرانی سوزوکی میں ٹائر پنکچر ہوجائے تو ماموں کے ڈرائیور کو کہہ کر معاملات نمٹاتا ہے۔ اس لڑکے پر خاندان کی ویگو اور پراڈو کی تمنا رکھنے والی لڑکی کیوں اپنی پھول جیسی جوانی لٹائے گی۔ آپ پاکستان سے پیری مریدی کی دکان سمیٹ کر یہاں نیویارک میں کیا نیا روحانی ڈھابہ کھول کر بیٹھے ہیں۔ ناراض ہوگئے۔ آئندہ فون سے منع کر دیا جو ویسے بھی ہم نے ان کے ایک چپڑ قناتی مرید کے اصرار پر کیا تھا جسے اپنے پیر میں بہت دھرم وشواش تھا۔ ان پیر صاحب نے یہ آیات تجویز کی تھیں۔

محمد بلال مسکرادیے کہنے لگے، پیر صاحب نے مریض کی حالت خود دیکھی تھی یا ساری کیفیت ان پر فون سے ظاہر ہوگئی۔ وہ جو ایم۔ آر۔ آئی، بلڈ رپورٹ، PET Scan انہیں وہ کیسے جھٹلا تے ہیں۔ میرے لیے حیرت کی بات ہے کہ قرآن کا علم رکھنے والے جادو کو درمیان میں کیوں کر لے آئے۔۔ علاج سنت ہے۔ دعا حکم الہی۔ دونوں کو ٹالا نہیں جا سکتا مگر یہ جادو جن وغیرہ- So unfair to recommend this.

کہہ رہے تھے اکثر پیر صاحبان اور عاملین کے ہاں یہ رقیہ (عربی میں وظائف کا عمل) کا یہ مخصوص حربہ ہے۔ عاملین اور بزرگ سائل پر یا تو جن کا سایہ یا جادو کا عمل ظاہر کریں گے۔ اس سے ان کی اپنی اہمیت اور پریشان شخص کے خوف میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یوں اس پریشان شخص کا جھکائو اور انحصار ان پیروں اور عاملین کی طرف اور زیادہ ہوجاتا ہے۔

محترم بلال کا کہنا تھا کہ سیدنا محمد مصطفے ﷺ کی پوری حیات طیبہ میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں بتایا جاتا کہ جس میں کسی مسلمان یا غیر مسلم کا جادو یا اس کا جن آپ نے اتارا ہو۔ یہ عجیب بات ہے کہ سارے جن اور جادو کے واقعات آپ کے بعد کے ادوار کے ہی سننے کو ملتے ہیں۔ آپ کا کسی جن سے ملاقات کا بھی کسی حدیث میں حوالہ نہیں۔ قْرآن العظیم میں جو جنوں کا تذکرہ ہے وہ بھی ہمارے پیارے نبیﷺ کو سورۃ الجن کے آغاز میں جبرئیل امیں کی زبانی معلوم ہوا کہ جنوں نے آپ کے ذریعے قرآن سنا اور سب نے یک زبان ہوکر اعلان کیا کہ انہوں نے ایک عجب قرآن سنا ہے۔ یہ حوالہ براہ راست ملاقات کا نہیں۔ جن انہیں خود دکھائی نہیں دیے تھے بلکہ ان کی موجودگی کی تصدیق سیدنا جبریئل نے کی تھی۔

یہ انکشاف ہمارے لیے حیراں کن ضرور تھا ہم نے سیرت طیبہ کے حوالے سے اپنی پسندیدہ کتاب ال رحیق ال مختوم جو صفی الرحمن مبارک پوری کی تحریر ہے چھان ماری کہیں ایسا حوالہ نہ تھا۔ ممکن ہے احادیث مبارکہ میں مذکور ہو مگر ہمارے علم میں نہیں۔

اقبال دیوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 96 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments