ارطغرل: کیا ترکی کے صدر طیب اردوغان کی اسلامی قوم پرستی کا ہدف سلطنتِ عثمانیہ کی بحالی ہے؟


ترکی

ترکی کے شہر استنبول کے جس میوزیم، آیا صوفیہ، کو حال ہی میں ملک کے صدر نے مسجد میں تبدیل کر دیا ہے اس کے عین سامنے سنہ 1818 میں سعودی عرب کے شاہ عبداللہ بن سعود کا سر قلم کیا گیا تھا۔

سلطنت عثمانیہ کے فوجی شاہ عبداللہ بن سعود اور وہابی امام کو ایک زنجیر میں جکڑ کر استنبول لائے تھے۔ جب عبداللہ کا سر قلم کیا جا رہا تھا تو ایک بڑا ہجوم آیا صوفیہ کے باہر جشن منا رہا تھا۔ آیا صوفیہ کے باہر عبداللہ کی سربریدہ لاش کو تین دن تک رکھا گیا تھا۔

اس دوران سلطنتِ عثمانیہ کے فوجیوں نے اس وقت کے سعودی دارالحکومت دیریہ اور ریاض کے مضافات میں حملہ کیا تھا۔سنہ 1924 میں عثمانیہ سلطنت سمٹ کر جدید ترکی تک رہ گئی تھی اور جدید ترکی عثمانیہ سلطنت کو اپنی شاندار تاریخ سمجھتا ہے۔

سعودی عرب ترکی کے ساتھ اپنی یہ ہولناک تاریخ کو شاید ہی بھولے گا۔ جے این یو میں مشرق وسطی کے امور کے پروفیسر اے کے پاشا کا کہنا ہے کہ جب سعودی عرب اپنی تاریخ پر نگاہ ڈالتا ہے تو اسے سلطنت عثمانیہ کا دور سب سے پہلے یاد آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سلطنت عثمانیہ: جب نئے سلطان نے ’روتے روتے اپنے 19 بھائی مروا دیے‘

سلطنت عثمانیہ کا توپ خانہ جس نے اسے سُپر پاور بنا دیا

اصل ڈریکولا کون تھا اور اس کا سلطنت عثمانیہ سے کیا جھگڑا تھا؟

وہ کہتے ہیں کہ ’عثمانی ہمیشہ سعودیوں کو ایک بدتمیز قبیلہ سمجھتے تھے۔ اگرچہ سعودی عرب میں مکہ اور مدینہ ہیں اور یہ دونوں عثمانیوں کے ماتحت بھی رہے ہیں لیکن کوئی ترک سلطان کبھی حج پر نہیں گیا۔‘

سعودی عرب کے موجودہ حکمران 84 سالہ شاہ سلمان اور 34 سالہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، عبداللہ بن سعود کے ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن کا آیا صوفیہ کے سامنے سر قلم کیا گیا تھا۔

شہزادہ محمد بن سلمان

سعودی عرب اور ترکی دونوں ہی سنی مسلم ممالک ہیں لیکن دونوں کی تاریخ خوں ریزی سے بھری ہے

سنہ 1932 سے پہلے دو مرتبہ سعودی عرب کو ایک ملک بنانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن دونوں مرتبہ سلطنت عثمانیہ نے اسے تباہ کر دیا۔

پہلی بار سنہ 1818 میں اور دوسری بار 1871 میں اسے تباہ کیا گیا۔ سعودی عرب کی تیسری کوشش اس وقت کامیاب ہوئی جب انھوں نے پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ کی حمایت کی اور سلطنت عثمانیہ کو اس کا سامنا کرنا پڑا۔

اب ایک بار پھر ترک صدر اردوغان سلطنتِ عثمانیہ کے ماضی کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی تازہ مثال آیا صوفیہ ہے۔

سعودی عرب اور ترکی دونوں ہی سنی اکثریتی مسلم ممالک ہیں لیکن دونوں کی تاریخ بہت ہی خوں ریز ہے۔

1500 سالہ قدیم یونیسکو کا عالمی ثقافتی ورثہ آیا صوفیہ مسجد سے پہلے اصل میں چرچ تھا۔ جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال پاشا نے 1930 کی دہائی میں اسے ایک میوزیم بنایا تھا۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے گذشتہ سال اسے ایک مسجد بنانے کا وعدہ کیا تھا۔

ادب میں ترکی کے پہلے نوبل انعام یافتہ ارہان پاموک نے آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے بارے میں کہا تھا کہ ترکی کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔

ان کا کہنا تھا ’میں ناراض ہوں مجھے اس بات پر بہت فخر تھا کہ ترکی واحد مسلمان ملک ہے جو سیکولر ہے لیکن اب یہاں سیکولر ازم ختم کیا جا رہا ہے۔ جدید ترکی کے بانی کمال اتا ترک نے آیا صوفیہ کو مسجد سے ایک میوزیم بنانے کا اہم فیصلہ کیا تھا۔ انھوں ایسا کر کے پوری دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ ہم سیکولر ہیں اور باقی مسلم ممالک سے الگ ہیں۔ ہم یورپی قوموں کی طرح ہیں اور ماڈرن ہیں لہذا ہمیں بھی قبول کریں۔‘

پاموک نے کہا ’آیا صوفیہ کو مسجد بنانے کا فیصلہ ایک غلط اقدام ہے۔ اگر 10 فیصد قدامت پسند لوگوں کو چھوڑ دیں تو سیکولرازم تمام ترکوں کے لیے فخر کی بات ہے۔ یہاں تک کہ اردوغان کی پارٹی کے ووٹرز کے لیے بھی سیکولرازم فخر کی بات ہے۔‘

آیا صوفیہ

ترکی میں استنبول کے جس میوزیم آیا صوفیہ کو حال ہی میں ملک کے صدر نے مسجد میں تبدیل کر دیا ہے اس کے ٹھیک سامنے سنہ 1818 میں سعودی عرب کے شاہ عبداللہ بن سعود کا سر قلم کیا گیا تھا

دنیائے اسلام میں قیادت کی جنگ

صدر اردوغان نے کئی بار کہا ہے کہ ترکی واحد ملک ہے جو عالم اسلام کی قیادت کر سکتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ جب اردوغان یہ کہتے ہیں تو ان کے ذہن میں سلطنت عثمانیہ کی میراث ہو گی۔

سلطنت عثمانیہ جو سوویت یونین سے بڑی تھی۔ یہ 22 ملین مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی تھی۔ سلطنت عثمانیہ مصر، یونان، بلغاریہ، رومانیہ میسوڈونیا، ہنگری، فلسطین، اردن، لبنان، شام، عرب کے بیشتر علاقوں اور شمالی افریقہ کے بیشتر ساحلی علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔

یہ سلطنت مسلم حکمرانوں کو اہمیت دیتی تھی۔ اردوغان کو لگتا ہے کہ عالم اسلام کی قیادت کرنا ترکی کا تاریخی حق ہے لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ اب وہ سلطنت عثمانیہ کے 22 ملین مربع کلومیٹر کے سلطان نہیں بلکہ ترکی کے صدر ہیں جو اب گھٹ کر سات لاکھ 83 ہزار مربع کلومیٹر میں سمٹ چکا ہے۔

سلطنت عثمانیہ جو سنہ 1399 میں قائم ہوئی تھی، پہلی جنگ عظیم کے ساتھ سنہ 1923 میں ختم ہوئی اور جدید ترکی بن گیا۔

دوسری جانب سعودی عرب کو لگتا ہے کہ اسلامی مقدس مقامات مکہ اور مدینہ منورہ اس کے پاس ہیں جو ایوان سعود کے ماتحت ہیں اور ہر سال پوری دنیا سے 20 لاکھ سے زیادہ مسلمان وہاں آتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں صرف وہی عالم اسلام کی قیادت کر سکتا ہے۔

تیسرا کھلاڑی ایران ہے جہاں شیعہ مسلمان ہیں۔ ایران یہ بھی جانتا ہے کہ وہ سنی اکثریتی اسلامی دنیا کی رہنمائی نہیں کر سکتا لیکن ایران کو یہ دیکھ کر بالکل برا نہیں لگتا کہ دو اہم علاقائی حریف ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب اور ترکی کے مابین تصادم پر مغربی ممالک کا ردِ عمل ایران کے لیے دلچسپ ہوتا ہے۔

پروفیسر اے کے پاشا کا کہنا ہے کہ اگرچہ سعودی عرب سنہ 1932 میں برطانیہ کی مدد سے تیسری بار ایک ملک بننے میں کامیاب ہوا لیکن اس کی مشکلات ابھی بھی کم نہیں ہیں۔

ان کا کہنا ہے ’عالم اسلام میں سعودی عرب اور ترکی کے درمیان قیادت کی جنگ جاری ہے لیکن سعودی عرب امریکہ کے دم پر یہ جنگ نہیں جیت سکتا۔ سعودی عرب کا تیل زیادہ دنوں تک کام نہیں آنے والا اور اب تیل کی ضروریات بدل رہی ہیں اور توانائی کے متبادل ذرائع بڑھ رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں امریکہ کے ساتھ اس کی مطابقت زیادہ دن قائم نہیں رہ سکتی۔‘

صدر رجب طیب اردوغان

عراق پر امریکی حملے کے دوران اردوغان امریکہ کے ساتھ تھے

سعودی عرب کے لیے ترکی خطرہ ہے؟

اردوغان کی اسلامی قوم پرستی اور سعودی عرب کو روکنے کی حکمت عملی بیک وقت چل رہی ہے۔ اردوغان نے متعدد بار سعودی عرب کو روکنے کی کوشش کی۔ انھوں نے سعودیوں کے خلاف قطر کی حفاظت کے لیے اپنی فوجیں بھیجیں، صومالیہ سے سعودی اتحادیوں کو بھگایا اور بحرِ احمر میں ایک فوجی اڈہ بنانے کے لیے ایک جزیرے کو لیز پر لینے کا معاہدہ کیا۔

اس کے ساتھ ہی اردوغان فلسطین اور روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں بھی آواز بلند کرتے ہیں۔ استنبول عرب دنیا کے باغیوں کا پسندیدہ گڑھ بن گیا۔

واشنگٹن انسٹیٹیوٹ کے سکالر سونر کوگاپتے نے ’دی نیو سلطان‘ کے نام سے اردوغان کی سوانح عمری لکھی ہے۔

اس سوانح حیات میں انھوں نے لکھا ’ترک صدر کی خارجہ امور کی حکمت عملی کا ہدف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہونے کے احساس تفاخر کو واپس لائیں۔ وہ سلطنتِ عثمانیہ کی ایک جدید شکل لانا چاہتے ہیں تاکہ ترکی اسلامی عظمت کا قائد بن سکے۔‘

اردوغان کی خواہش کے پیچھے ایک طویل ماضی ہے۔ ترکی کا سلطان چار صدیوں سے پوری اسلامی دنیا کا خلیفہ تھا۔ ان کی مذہبی قیادت کو سلطنت عثمانیہ سے باہرکی اسلامی طاقتیں بھی مانتی تھی۔ پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ کی مدد سے عرب میں سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت ہوئی جس کے بعد مکہ مدینہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ چھ سال بعد سنہ 1924 میں خلافت کا نظام ختم ہو گیا۔

لندن سکول آف اکنامکس میں سعودی عرب کے پروفیسر اور سعودی عرب کی تاریخ لکھنے والے مداوی الرشید نے وال سٹریٹ جرنل کو بتایا کہ اردوغان کا نیا ترکی سعودی عرب کے لیے ایک چیلنج ہے کیونکہ یہ متبادل اسلامی نمونہ پیش کررہا ہے۔

’اس سے سعودی عرب کے وجود کو خطرہ ہے کیونکہ ترکی اسلامی اور جمہوری دونوں ہی ہے۔ اس سب کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ اردوغان ایک جمہوریہ پر حکمرانی کر رہے ہیں جہاں پارلیمان ہے، اپوزیشن بھی ہے اور سول سوسائٹی بھی ہے جبکہ سعودی عرب میں ایسا کچھ نہیں۔‘

گذشتہ سال سعودی دبدبے والی اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کو چیلنج کرتے ہوئے کوالالمپور میں ایک اجلاس ہوا جس میں ایران، ترکی اور ملائیشیا نے پر زور شرکت کی لیکن سعودی اتحادی ممالک نے پاکستان کو اس میں شرکت کرنے سے روک دیا تھا۔

اردوغان چاہتے ہیں کہ وہ سعودی دبدبے کو چیلنج کر کے اپنا سکہ جمائیں۔ انھیں لگتا ہے کہ او آئی سی اسلامی ممالک کی آواز نہیں بلکہ سعودی صوابدیدی کو پورا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اردوغان او آئی سی کے متوازی ایک تنظیم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

صدر اردوغان اور صدر پوتن

اتاترک کے ترکی میں اردوغان

اردوغان سنہ 1994 میں استنبول کے پہلے اسلامی قدامت پسند میئر بنے۔ اس کے بعد سے اکثر جلسوں میں اردوغان کی تقاریر پر تبادلہ خیال ہوتا رہا تھا۔ اپنے جلسوں میں وہ اکثر ترک قوم پرست مفکر ضیا گوکئی کے اس بیان کو دہراتے تھے کہ ’مساجد ہماری چھاؤنیاں ہیں، گنبد ہماری حفاظتی ڈھالیں ہیں، مینار ہماری تلواریں ہیں اور اسلام کے پیروکار ہمارے فوجی ہیں۔‘

لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ عراق پر امریکہ کے حملے سے اسلام کے ہزاروں پیروکار ہلاک ہوئے، مساجد منہدم ہوئیں، مینار ٹوٹ گئے اور اس جنگ میں اردوغان امریکہ کے ساتھ تھے۔

اسلامی سیاست نے ترک سیاست میں اردوغان کے عروج میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کی تقاریر سے مسلمان یہ سوچ سکتے ہیں کہ وہ مذہب کی حفاظت اور اسلام کے مفاد کی بات کر رہے ہیں لیکن اسی کے ساتھ ساتھ بہت سارے تضادات بھی موجود ہیں۔

سنہ 2003 میں جب اردوغان ترکی کے وزیراعظم بنے تو امریکہ عراق پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔ اردوغان کے صدام حسین سے اچھے تعلقات نہیں تھے۔ یہاں تک کہ انھوں نے عراق کے خلاف جنگ میں امریکہ کو ترکی کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دینے کا ذہن بنا لیا تھا۔ تاہم اردوغان کا یہ ارادہ پورا نہیں ہوا کیونکہ پارلیمنٹ میں یہ تجویز تین ووٹوں سے مسترد کر دی گئی تھی۔

یہ اس وقت ہوا جب ان کی پارٹی کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔ امریکہ کی اس وقت کی انتظامیہ اس پر سخت ناراض تھی تاہم اس کے باوجود اردوغان نے امریکہ کو ترک فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔

اردوغان کی جانب سے ایک طرف اسلامی فخر کی بات کرنا اور دوسری طرف عراق میں امریکی حملے کی حمایت کرنا، دونوں متضاد ہیں۔

اردوغان

اردوغان کی اہلیہ حجاب کی وجہ سے کسی عوامی تقریب میں نہیں جاتیں

اردوغان اسلامی علامتوں سے واقف ہیں۔ ان کی اہلیہ حجاب پہنتی ہیں۔ ترکی میں حجاب ممنوع تھا۔ لڑکیاں حجاب کے ساتھ یونیورسٹی نہیں جا سکتی تھیں۔ اردوغان کی اہلیہ حجاب کی وجہ سے کسی عوامی تقریب میں نہیں گئیں۔

سنہ 2003 میں پہلی مرتبہ ترکی کے وزیراعظم بننے کے بعد اردوغان نے نیو یارک ٹائمز کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا ’میں کچھ بھی ہونے سے پہلے مسلمان ہوں اور بحیثیت مسلمان، میں اپنے مذہب پر عمل کرتا ہوں اور یہ میرا فرض ہے اور میں اپنے اس فرض اور ذمہ داری کو پورا کرنے کی کوشش کرتا رہوں۔‘

اردوغان نے اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے لیے انڈیانا یونیورسٹی بھیجا کیونکہ وہاں وہ حجاب پہن سکتی تھیں۔

کمال اتاترک جنھوں نے سلطنت عثمانیہ کی جگہ لی اورجدید ترکی کی بنیاد ڈالی، انھوں نے روایتی اسلام کو مسترد کر دیا تھا۔

ان کا مقصد ترکی کوایک جدید یورپی ملک بنانا تھا۔ اتاترک نے اسلامی خلیفوں کو برخاست کیا، دینی عدالتیں ختم کیں اور سکولوں کو سیکولر بنایا۔ اتاترک نے عربی رسم الخط کو ترک کر دیا اور ترکی کے لیے رومن رسم الخط کو اپنایا۔ اتاترک نے جمہوریہ ترکی میں سوئس سول کوڈ کو نافذ کیا اور خواتین کو ووٹ ڈالنے کے حقوق دیے۔

یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ اتاترک کے ملک کا کوئی صدر یہ کہے گا کہ مسلمان خاندانی منصوبہ بندی کو مسترد کریں۔

سنہ 2016 میں استنبول میں ایک تقریر کے دوران اردوغان نے کہا ’یہ خواتین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ترک آبادی کو فٹ رکھیں۔ ہمیں اپنی اولادوں کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔ لوگ آبادی میں کمی اور خاندانی منصوبہ بندی کی بات کرتے ہیں لیکن مسلمان اسے قبول نہیں کر سکتا۔ ہمارے اللہ اور نبی نے یہی کہا اور ہم اس راستے پر چلیں گے۔‘

اس وقت ترکی کی مجموعی آبادی 82 ملین ہے۔

ترکی کا ٹی وی ڈرامہ ’دریلِس ارطغرل‘

سلطنت عثمانیہ کے قیام پر مبنی یہ ٹی وی سیریز ترکی کے سرکاری ٹی وی ٹی آر ٹی ون پر نشر کی گئی تھی۔ اس کے پانچ سیزن آ چکے ہیں اور کل 448 اقساط ہیں۔

پہلے سیزن میں اناطولیہ میں صلیبیوں کے خلاف مہم ہے۔ دوسرے میں منگولوں کے خلاف مقابلہ، تیسرے میں مسیحی بازنطینیوں کے خلاف مقابلہ ہے۔ چوتھے سیریز میں سلجوق کی باہمی لڑائی اور پھر عثمانیہ کی تشکیل ہے۔

پوری سیریز تاریخی حقائق سے زیادہ اسلامی قوم پرستی اور اردوغان کی سیاست کے ساتھ موجودہ سیاسی مزاج سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے۔

مغربی میڈیا میں کہا جاتا ہے کہ ترکی کے قومی مزاج کو اس وقت کے مشہور ٹی وی شو سے سمجھا جا سکتا ہے۔

کچھ سال پہلے ترکی میں سلطان سلیمان کی زندگی پر’دی میگنیفیسنٹ سینچری‘ کے نام سے ایک ٹی وی ڈرامہ بنایا گیا تھا۔ سولہویں صدی میں سلطان سلیمان کی سربراہی میں سلطنت عثمانیہ اپنے عروج پر تھی اور اس ڈرامے میں یہی دکھایا گیا ہے۔ یہ ڈرامہ ترکی میں زبردست کامیاب رہا۔

سنہ 2002 میں جب سے اردوغان کی پارٹی برسر اقتدار آئی ہے ترکی میں ٹیلی ویژن سیریل بیرون ملک سے آمدنی کا بہترین ذریعہ بن چکے ہیں۔ سنہ 2017 میں 100 سے زیادہ ترک ڈرامے 150 سے زیادہ ممالک میں فروخت ہوئے۔

سنہ 2016 میں ترکی کے ٹی وی ڈراموں کی سالانہ برآمد 300 ملین ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ ترکی کی عالمی ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2017 میں یہ 350 ملین ڈالر تک جا پہنچی۔

کہا جاتا ہے کہ سنہ 2023 تک یہ ایک ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ ترکی کے ٹی وی ڈراموں کی مقبولیت نے وہاں غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا۔

ٹی وی ڈرامہ ارطغرل

سنہ 2002 میں جب سے اردوغان کی پارٹی برسر اقتدار آئی ہے ترکی میں ٹیلی ویژن سیریل بیرون ملک سے آمدنی کا بہترین ذریعہ بن چکے ہیں

ایسا نہیں کہ ترکی میں اتاترک کی سیکولر روایت کی جڑیں کمزور ہو چکی ہیں۔ دلی یونیورسٹی میں ہندی کے پروفیسر ونود تیواری جو چھ ماہ تک انقرہ یونیورسٹی میں ایک منصوبے پر کام کرنے گئے تھے، کہتے ہیں کہ ترکی میں سیکولر ذہن کے لوگ بھی بہت بااثر ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ بھی ہے کہ اردوغان کی آمد کے بعد سے سیاسی اور نظریاتی تقسیم میں اضافہ ہوا ہے اور اتاترک کے مزاج والا ترکی کمزور پڑا ہے۔

ترکی میں ارطغرل کے حوالے سے بھی ثقافتی تحریک دیکھنے میں آئی۔ مذہبی قدامت پسندوں نے اس کی بھر پور حمایت کی جبکہ سیکولر طبقے نے اس کی دھجیاں اڑائیں۔

نومبر 2016 میں ہونے والی ایک ایوارڈ کی تقریب میں تقریب کے پیش کرنے والے نے اس سیریز کا مذاق اڑایا اور ایوارڈ ملنے کے بعد اس کے کرداروں کو بولنے نہیں دیا۔ جس کے بعد اس کے سکرپٹ رائٹر نے ایوارڈ واپس کرتے ہوئے اسے توہین قرار دیا ہے۔ اس معاملے میں صدر اردوغان بھی شامل ہو گئے اور اس ڈرامے کی جم کر تعریف کی۔

اردوغان نے کہا ’جب تک شیر خود اپنی تاریخ لکھنا شروع نہیں کرے گا تب تک اس کے شکاری ہیرو بنائے جاتے رہیں گے۔‘

اس ڈرامے کے مصنف مہمت بزداخ اردوغان کی پارٹی کے رکن ہیں۔

اس ٹی وی ڈرامہ کے بارے میں ترک سکالر سیماہی سنانوئیلو نے کلچرل جرنل بیریکم میں لکھا ہے کہ اس طرح کی ٹی وی سیریز موجودہ سیاسی حکومت کے لیے ایک سیاسی ہتھیار کا کام کرتی ہیں۔

انھوں نے لکھا ’سیریز کے مطابق شاید ترک دشمنوں کے نام بدل گئے ہوں لیکن وہ ذہینیت آج بھی موجود ہے اور یہ عثمانیہ سلطنت کے قیام سے پہلے سے ہی موجود ہے۔ ان دشمنوں کا مقصد ملک کو تقسیم کرنا ہے۔ اس کے تحت کہانیوں سے ایک طرح کی سازش پھیلائی جاتی ہے اور اسے سیاسی فوائد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘

’اس طرح کے ٹی وی ڈراموں کی مقبولیت سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ سامعین ترکی کی موجودہ صورتحال کا سامنا کرنے کے بجائے تصوراتی دنیا میں جانے کا انتخاب کر رہے ہیں۔ اس طرح کے ٹی وی ڈرامے ترکی کی بگڑتی ہوئی معاشی حالت اور شام کے بحران سے توجہ ہٹانے کے لیے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر کام کرتے ہیں۔‘

کئی اسلامی ممالک نے اس ٹی وی ڈرامہ پر پابندی لگا رکھی ہے۔ ارطغرل پر سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات میں پابندی عائد ہے۔ ان ممالک کو ترکی کا حریف سمجھا جاتا ہے بلکہ سعودی عرب ارطغرل کے جواب میں ایک بڑے بجٹ کا ٹی وی ڈرامہ بنانے جا رہا ہے۔

ارطغرل پر تنقید کیوں کی جاتی ہے؟

اس ڈرامے کے ڈائریکٹر اور مصنف مہمت بوزداخ نے کہا ہے کہ حقائق اہم نہیں ہیں۔

یہ ڈرامہ تاریخ کی کسوٹی پر کتنا کھرا اترا ہے اس بارے میں مہمت بزداخ نے کہا تھا کہ ‘اناطولیہ کے جس دور کو اس ڈرامے میں دکھایا گیا ہے اس کے بارے میں بہت کم معلومات موجود ہیں مکمل معلومات چار سے پانچ صفحات سے زیادہ نہیں۔ یہاں تک کہ الگ الگ ذرائع میں سب کے نام بھی مختلف ہیں۔ ہم تاریخی حقائق سے مقابلہ کرنے کا دعویٰ نہیں کرسکتے ہیں۔ ہم نے ایک خیالی کہانی دکھائی ہے۔‘

ارطغرل: اگر آپ تین الفاظ میں بتائیں تو یہ تین لفظ اسلام، گھوڑے کی ٹاپ اور تلوار ہو سکتے ہیں۔

ڈرامہ ارطغرل

ترکی میں ارطغرل کے حوالے سے بھی ثقافتی تحریک دیکھنے میں آئی۔ مذہبی قدامت پسندوں نے اس کی بھر پور حمایت کی جبکہ سیکولر طبقے نے اس کی دھجیاں اڑائیں

اس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ارطغرل اللہ کی راہ پر گامزن ہے اور اس پر عمل پیرا ہونا اللہ کے حکم پر عمل پیرا ہونا ہے۔

اس میں خوفناک تشدد ہے۔ اور کئی بار سر قلم ہوتے منظر کو دیکھ کر نام نہاد دولت اسلامیہ کے انتہا پسندوں کی جانب سے سر قلم کرنے کے مناظر کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ پورے ڈرامے میں اسلامی برتری کا احساس موجود ہے۔

پاکستان کے سیاسی مبصر پرویز ہود بھائی کا کہنا ہے کہ ’اگر اس ٹی وی ڈرامے میں اسلام کو امن پسند مذہب بنانے یا اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو اس کا نتیجہ بالکل الٹ ہو گا۔‘

’پہلے سیزن کی پہلی قسط کا افتتاحی منظر یہ ہے کہ عثمانی قبائل کے خیموں میں لوگ تلواریں بنا رہے ہیں اور ان تلواروں کو تیز کر رہے ہیں۔ عثمانی قبائل کی عیسائیوں اور بازنطینیوں سے دشمنی ہے۔ ہر جنگ میں عیسائیوں کی لاشیں خون سے لت پت پڑی ہوتی ہیں۔‘

’ڈرامے کا ہیرو ارطغرل غازی نہ صرف معمولی فوجیوں بلکہ اپنے قبیلے کے لوگوں کے سر کو بھی قلم کرتا ہے۔ اگر دولت اسلامیہ اس سے متاثر ہونا شروع کر دے تو ہمیں اس سے تعجب نہیں پونا چاہیے؟ کیا تلوار کی تسبیح اسلام کی عظمت کا اظہار ہے؟ قبائلی معاشرے میں طاقت کی جدوجہد کے مقابلے میں اسلام کو مثبت طور پر دکھایا جا سکتا ہے۔‘

جس عثمانیہ سلطنت پر اردوغان کو فخر ہے اس کے وارث کیا کہتے ہیں؟

ارطغرل عثمان، سلطنت عثمانیہ کے 45ویں سربراہ اور عبدالحمید دوم کے پوتے تھے، جو سنہ 1876 سے سنہ 1909 تک سلطنت کے حکمران تھے۔ اگر سنہ 1923 میں سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ نہ ہوتا یا اس کی از سر نو تشکیل ہوتی تو ارطغرل عثمان اس سلطنت کے نئے سلطان ہوتے۔

لیکن سلطان بننا تو دور کی بات ہے ارطغرل عثمان نے اپنی زندگی کے 64 سال امریکی شہر نیو یارک کے مین ہیٹن میں دو بیڈروم کے ایک فلیٹ میں گزارے۔ یہ فلیٹ بھی کرائے کا تھا۔

2006 میں نیویارک ٹائمز نے ارطغرل عثمان سے پوچھا کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ عثمانی سلطنت بحال ہو؟ اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا ’میں ایک بہت ہی پریکٹیکل انسان ہوں۔‘

الجزیرہ کو سنہ 2008 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ترکی میں جمہوریت بہت اچھی طرح چل رہی ہے۔

ارطغرل عثمان نے سلطنت عثمانیہ کے آخری حکمران کو اقتدار سے بے دخل کرنے والے مصطفی کمال پاشا اتاترک کے خلاف کچھ بھی بولنے سے انکار کر دیا تھا۔

جب سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا اس وقت ارطغرل عثمان 12 سال کے تھے۔ سنہ 1924 میں شاہی خاندان کو اتاترک نے جلاوطن کر دیا تھا۔ عثمان نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ اس خاندان کے مردوں کو ملک بدری کے لیے ایک دن اور خواتین کو دو ہفتوں کا وقت دیا گیا تھا۔

ارطغرل عثمان کی سکول کی تعلیم ویانا میں ہوئی اور سنہ 1939 میں وہ امریکہ چلے گئے۔ وہ 53 سال بعد اگست 1992 میں وزیر اعظم کی دعوت پر ترکی آئے تھے۔

اس دورے کے دوران انھوں نے ڈولمباچے پیلس کا بھی دورہ کیا تھا۔ یہ 285 کمروں کا ایک محل ہے جو ان کے دادا کا گھر ہوا کرتا تھا۔ 23 ستمبر 2009 کو ارطغرل عثمان 97 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

ارطغرل عثمان کی اہلیہ زینب افغانستان کے شاہ امان اللہ کی بھانجی تھیں۔ زینب عثمان سے 30 سال چھوٹی تھی۔ زینب نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ ارطغرل عثمان بہت لبرل تھے۔

ترک صحافی دیدم یلماز نے سنہ 2003 میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد اس خاندان پر ’دستاویزات سلطان‘ کے عنوان سے ایک دستاویزی فلم بنائی تھی۔ یلماز نے اپنے انٹرویو میں ارطغرل عثمان اور ان کی اہلیہ زینب عثمان کے مابین گفتگو کے بارے میں کچھ دلچسپ باتیں بتائیں ہیں۔

یلماز نے اس انٹرویو کے بارے میں کہا ’میں نے ارطغرل عثمان کی اہلیہ زینب کو فون کیا اور ان سے بات کرنے کو کہا۔ زینب نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہا کہ مجھے تاریخ کے ظالمانہ حقائق میں کوئی دلچسپی نہیں مجھے کہانی کے انسانی پہلو میں بہت دلچسپی ہے۔‘

یلماز نے کہا کہ اگر سلطنت عثمانیہ زندہ ہوتی تو ارطغرل عثمان اس سلطنت کے سلطان ہوتے لیکن یہ شخص آج غربت میں زندگی گزار رہا ہے۔ اس کے باوجود اس کے دماغ میں کوئی تلخی نہیں۔ اس کے ذھن میں شفقت ہے اور یہ انسان کھلے ذہن کا ہے۔ میں نے انھیں ملک و دنیا کے بارے میں اچھی سمجھ رکھنے اور ماضی کے غرور سے پاک پایا۔‘

اسی سلطنت پر ایک ٹی وی ڈرامہ ارطغرل کے ذریعہ مسلم دنیا میں ہلچل کیوں مچی ہوئی ہے؟ سلطنتِ عثمانیہ کے وارثوں کو اپنی تاریخ پر گھمنڈ نہیں اور نہ ہی اسے دوبارہ زندہ کرنے کی خواہش ہے۔

اتاترک کی وجہ سے اس کنبے کو جلاوطنی اختیار کرنی پڑی پھر بھی اس کنبے نے کمال پاشا کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا لیکن اردوغان کی قیادت اس تاریخ کو زندہ کرنے اور ترکی کو بدلنے کی کوشش کر رہی ہے۔

تلمیز احمد جو مشرق وسطی کی سیاست کو قریب سے سمجھتے ہیں اور متعدد خلیجی ممالک میں انڈیا کے سفیر رہ چکے ہیں، کہتے ہیں ’جس طرح نہرو کے انڈیا کو موجودہ حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اسی طرح اتاترک کا سیکولر ترکی اردوغان کے اسلامی ترکی میں بدلنے کی کوششیں جاری ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جس انڈیا کی بنیاد نہرو نے رکھی تھی اب اسکی بنیادیں ہل چکی ہیں۔ اسی طرح سیکولر اور جدید جمہوریہ ترکی جس کی بنیاد اتاترک نے رکھی تھی وہ بھی زوال کا شکار ہے۔

تلمیز احمد کہتے ہیں کہ یہ معاملہ کسی ٹی وی ڈرامے کا نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں ’ایک وقت تھا جب دنیا کے بڑے حصوں پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔ انڈیا میں مغل سلطنت اور دنیا کے ایک بڑے علاقے میں سلطنت عثمانیہ۔ مغلوں اور عثمانیوں نے ایک بہت بڑے علاقے پر حکمرانی کی اور دونوں کی طاقت بے مثال تھی۔ مغلوں نے 19ویں صدی میں اور عثمانیہ کا 20ویں صدی میں زوال ہوا۔

وہ کہتے ہیں ’ان سلطنتوں کو اسلامی فخر اور کامیابی کے قریب دیکھا جاتا تھا۔ بیسوی صدی میں عثمانیہ سلطنت ختم ہونے کے بعد سے عالم اسلام کی شکست ختم نہیں ہوئی۔ یہ اب تک جاری ہے۔ ترکی کے اس ٹی وی ڈرامہ میں عثمانیہ سلطنت کو اسلامی فخر اور کامیابی کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ ایسے معاشرے میں جو اس وقت مایوس کن ہے،موجودہ سیاسی مزاج کے مطابق تاریخ کی پیکنگ بہت مؤثر ثابت ہوتی ہے۔اس ٹی وی ڈرامہ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔‘

تلمیز احد کہتے ہیں کہ عالم اسلام میں ویرانی ہے اور کامیابی کا سلسلہ ختم ہو گیا۔

’یہ مایوسی وہاں کے رہنما اپنے سیاسی فوائد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اپنی ناکامی کو چھپانے کا بہترین فارمولا یہ ہے کہ لوگوں کو تاریخ کے احساس میں چھوڑ دیا جائے، جہاں سے آگے نہیں پیچھے جانے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ لیکن ترکی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اتاترک سے بھی پیچھے جاسکتا ہے لیکن کبھی بھی اتنا پیچھے نہیں جا پائے گا کہ وہ دوبارہ سلطنت عثمانیہ کا قیام کرے سکے۔‘

تلمیز احمد کا کہنا ہے کہ عالم اسلام میں ابھی بھی ’ڈفیٹ نریٹیو‘ یعنی شکست خوردگی کا احساس ہے وہ کہتے ہیں کہ اس کا آغاز 20ویں صدی میں ہوتا ہے۔

’سنہ 1948 میں عرب مسلمانوں کی ناک کے نیچے اسرائیل کی تخلیق ذلت آمیز تھی۔ عالم اسلام میں ایسی کوئی چیز نہیں جس پر مسلمان فخر کر سکیں۔ مغربی ممالک کا تسلط بڑھتا گیا اور دوسری طرف مسلمانوں کو دہشتگردی سے جوڑ دیا گیا اور پوری دنیا میں اسلامو فوبیا مضبوطی سے ابھرا۔‘

’اردوغان ترکی کو جس راستے پر لے جا رہے ہیں اس سے مسئلے کا حل نہیں نکالا جا سکتا۔‘

اسلام میں ترکی کی ثقافتی دراندازی؟

پاکستان میں ٹی وی ڈرامہ ’ارطغرل‘ نے ناظرین کے لحاظ سے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ پی ٹی وی نے اس سال 18 اپریل کو اس ڈرامے کو اردو میں ڈب کر کے ایک یوٹیوب چینل بنایا جس کے 62 لاکھ سے زیادہ سبسکرائبر ہیں۔ خود عمران خان نے لوگوں سے یہ ڈرامہ دیکھنے کی اپیل کی۔

لوگوں نے اس ڈرامے میں شامل اداکاروں کو سلطنت عثمانیہ کے حقیقی کرداروں کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا۔ ڈرامے کی خواتین فنکاروں کی پرانی حقیقی تصاویر دیکھ کر پاکستان کے لوگ بھڑک اٹھے اور اصل زندگی میں ان کے لباس اور انداز پر سوشل میڈیا پر اعتراض کیے جانے لگے۔

صدر اردوغان اور وزیرِاعظم عمران خان

رواں برس فروری میں جب ترک صدر اردوغان پاکستان کے دورے پر آئے تو وزیراعظم عمران خان نے مشترکہ پریس کانفرنس میں بڑے فخر سے کہا کہ ترکوں نے کئی سو سال تک ہندوستان پر حکومت کی تھی

پروفیسر پرویز ہودبھائی کہتے ہیں کہ اردوغان نہ صرف اسلامی دنیا کی رہنمائی کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسلام بہترین مذہب ہے۔

ان کا کہنا تھا ’میں آپ سے بات کرنے سے پہلے گاڑی چلاتے ہوئے لتا منگیشکر کے گانے سن رہا تھا۔آپ غلام علی کو سنتے ہوں گے لیکن اپنی اپنی مذہبی برتری کے جذبے کی وجہ سے اگر ہم دونوں ایک دوسرے کے فنکاروں کو نہ سنیں تو کیا یہ کسی بھی مذہب کو اعلیٰ بنائے گا۔‘

ہودبھائی کہتے ہیں ’ہم اپنی مٹی، مشترکہ ثقافت اور تاریخ سے دور جائیں گے۔ اردوغان کا جو اسلامک پراجیکٹ ہے اس میں مسلمانوں کے لیے عثمانیہ سلطنت، اپنے اعلیٰ ہونے کا جھپ، تلوار، تشدد اور قدامت پسندی ہے۔ سائنس، فن، اور مشترکہ ثقافت کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ پاکستانیوں کو یہ خوب راس آ رہا ہے۔‘

اسی سال فروری میں جب ترک صدر اردوغان پاکستان کے دورے پر آئے تو وزیر اعظم عمران خان نے مشترکہ پریس کانفرنس میں بڑے فخر سے کہا کہ ترکوں نے کئی سو سال تک ہندوستان پر حکومت کی تھی۔

عمران خان نے کہا ’آپ کے آنے سے ہم سب کو اس لیے بھی خوشی ہوئی کہ قوم سمجھتی ہے کہ ترکی سے ہمارے رشتے صدیوں پرانے ہیں۔ ترکوں نے تو چھ سو سال تک ہندوستان پر حکومت کی تھی۔‘

معروف پاکستانی تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں ’ایک تو عمران خان کو تاریخ کا علم نہیں اور جب وہ تاریخ کا حوالہ دیتے ہیں تو اسے مذہب کے آئینے سے دیکھتے ہیں۔‘

مبارک علی کہتے ہیں کہ کوئی کسی بھی سامراجی نظام کی آج کی تاریخ میں اتنی تعریف کیسے کر سکتا ہے؟ کیا عمران خان ایسا اس لیے نہیں کر رہے کہ وہ حکمران مسلمان تھے؟‘

اسی کی دہائی میں پاکستان پر حکومت کرنے والے فوجی آمر ضیا الحق نے کہا تھا ’پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے۔ اگر آپ پاکستان سے اسلام کو نکال کر اسے سیکیولر سٹیٹ بنا دیں تو یہ بکھر جائے گا۔‘

پاکستان غیر ملکی مسلم شخصیات سے اپنی پہچان جوڑنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔

عمران خان کی طرف سے عثمانیہ سلطنت کے بارے میں بننے والے ٹی وی ڈرامہ کو دیکھنے کی اپیل پاکستانی حکمرانوں کی اپنی پہچان تلاش کرنے کی کوشش کا ہی حصہ ہے۔

لیکن یہ سوال اٹھنا لازم تھا کہ وزیر اعظم ایسے ڈرامے کی تعریف کیوں کر رہے ہیں جس میں دوسرے مذہب کو دشمن کے طور پر دکھایا گیا ہے۔

’پاکستان انڈر سیج: ایکسٹریمزم، سوسائٹی اینڈ سٹیٹ‘ کی مصنفہ مدیحہ افضل نے ریڈیو فری یورپ سے بات کرتے ہوئے کہا ’پاکستان اپنی قوم پرستی کو اسلام اور انڈیا سے دشمنی کے حوالے سے وضع کرتا ہے۔ ایسے میں ارطغرل دیکھنے کی اپیل حیران کن نہیں۔‘

معروف پاکستانی اداکار جمال شاہ کہتے ہیں کہ یہ ڈرامہ خطرناک ہے کیونکہ اس کا استعمال پاکستانی رہنما نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ یہ ڈرامہ پوری طرح سے پروپیگینڈا ہے۔

ترک رہنما اسلام کے شاندار ماضی کے ذریعے اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ اس ڈرامے کے ذریعے چاہے اپنے حامیوں کو متحرک کر لیں لیکن وہ عثمانیہ سلطنت کو پھر سے زندہ نہیں کر سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp