’ڈیرہ کا ٹائیٹینک‘ اور ’انڈس کوئین‘: یہ کشتیاں دریائے سندھ میں کب اور کیسے پہنچے اور اب وہ کہاں ہیں؟


یہ کہانی ہے کشتیوں کی۔ جی ہاں، دریائی کشتیوں کی، جو ایک طویل عرصے تک دریائے سندھ کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک چلا کرتی تھیں۔

کبھی یہ انگریز مہمانوں کو تو کبھی زائرین اور مقامی افراد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لیے استعمال میں آتی تھیں۔

ان میں سے ایک کشتی طوفان کے بعد پانی میں ڈوب گئی اور دوسری دریا کے کنارے خشکی پر بےیار و مددگار کھڑی ہے۔

کُل تین کشتیاں تقسیم ہند سے پہلے دریائے سندھ میں لائی گئی تھیں لیکن دو کشتیوں کو زیادہ اہمیت حاصل ہوئی۔ ان میں سے ایک ڈیرہ غازی خان کے مقام پر اور دوسری کو ڈیرہ اسماعیل خان کے مقام پر لنگر انداز کیا گیا تھا۔

ڈیرہ غازی خان میں کوٹ مٹھن میں موجود کشتی کا نام ’انڈس کوئین‘ جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں دریا بُرد ہوئی کشتی کا نام ’ایس ایس جہلم‘ تھا۔ اگرچہ یہ دونوں کشتیاں ہیں تاہم دونوں شہروں کے مقامی افراد انھیں ’بحری جہاز‘ کہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پُراسرار ’آسیب زدہ‘ بحری جہاز کا معمہ حل ہوگیا

چین میں ٹائٹینک جہاز کی ہوبہو نقل کی تعمیر شروع

واسا: 17ویں صدی کا جدید بحری جہاز جو 20 منٹ ہی تیر پایا

ایس ایس جہلم سنہ 1999 میں طوفان کے بعد دریا میں ڈوب گئی تھی اور ہالی ووڈ کی فلم ’ٹائیٹینک‘ کی ریلز کے بعد اسے بھی مقامی سطح پر ’ڈیرہ کا ٹائیٹینک‘ کہہ کر پکارا جانے لگا۔

اس کے علاوہ پاکستانی فلم ’دلہن ایک رات کی‘ کا آخری حصہ اس جگہ فلمایا گیا تھا جب ہیرو اپنی ہیروئن کی عزت بچانے کے لیے ولن کو مارتا ہے تو ان کا سامنا لانچ میں ہوتا ہے اور وہ لانچ پھر اس ڈیرہ کے ٹائیٹینک کے سامنے سے گزرتی ہے۔

ماضی میں جب ذرائع آمد و رفت محدود اور پختہ سٹرکیں نایاب تھیں تب یہ دونوں کشتیاں دریا کے دونوں کناروں کے درمیان رابطے کا واحد ذریعہ ہوتی تھیں۔ کہیں یہ زائرین کو کوٹ مٹھن میں خواجہ فرید کی زیارت پر پہنچانے کے کام آتیں تو کہیں یہ گوالوں کو شہروں تک پہنچانے کا کام کرتی تھیں۔ ان پر سفر کرنے والے لوگوں کے اپنی اپنی ضروریات ہوتی تھیں۔

ان کشتیوں میں لوگ گاڑیاں، مال مویشی لاد کر لاتے لے جاتے تھے اور ان کی ایک خصوصیت بڑے شہروں سے چھوٹے شہروں تک جہیز کا سامان بھی لانا ہوتی تھی۔

ان کشتیوں کی اپنی تاریخ اور اپنی کہانیاں ہیں اور ان سے جڑی متعدد یادیں ہیں جو اکثر مقامی لوگ بیان کرتے ہیں۔

’ٹائیٹینک‘ ڈیرہ اسماعیل خان کیسے پہنچا؟

یہ تین منزلہ بھاپ سے چلنے والی کشتی کوئی پانچ دہائیوں تک دریائے سندھ میں اُس وقت کے صوبہ سرحد اور صوبہ پنجاب کے درمیان رابطے کا ذریعہ تھی۔ اس کشتی میں 500 مسافروں کی گنجائش تھی اور اس کے علاوہ اس میں مویشی، گاڑیاں اور دیگر بھاری سامان بھی ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک لائے جاتے تھے۔

سرکاری ریکارڈ کے مطابق یہ کشتی کب بنائی گئی تھی اس کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہیں لیکن اس کشتی کی سنہ 1917 میں تزین و آرائش اور مکمل مرمت کی گئی تھی۔ ریکارڈ کے مطابق یہ کشتی سنہ 1935 تک صوبہ پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان میں دریائے سندھ کے کنارے تھی اور پھر سنہ 1935 میں اسے خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان لایا گیا تھا۔

برطانوی دور میں یہ کشتی مال برداری کے لیے استعمال ہوتے تھے اور چونکہ اس وقت دریائے سندھ پر ڈیرہ اسماعیل خان اور اس کے قریب کوئی پل نہیں تھا تو صوبہ پنجاب جانے کے لیے دریا کو عبور کرنے کے لیے کشتیوں اور لانچوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔

اس بڑی کشتی کے ساتھ چھوٹی کشتیاں اور لانچیں بھی تھیں اور سردیوں میں جب دریائے سندھ میں پانی کی سطح کم ہو جاتی تھی تو اس بڑی کشتیوں پر موجود چھوٹی کشتیوں سے ایک کچا پل تعمیر کر دیا جاتا تھا۔

اس کچے پل پر جب گاڑیاں پہنچ جایا کرتی تھیں تو سواریوں کو اتار دیا جاتا، لوگ پیدل پل عبور کرتے اور خالی گاڑی دوسرے کنارے پر پہنچ جاتی اور پھر مسافر اس میں بیٹھ جاتا کرتے۔

پنجاب جانے کا یہ سفر انتہائی تکلیف دہ ہوا کرتا تھا چند کلومیٹر کا فیصلہ طے کرنے کے لیے گھنٹے لگ جایا کرتے تھے لیکن لوگ کشتی کے سفر کے مزے ضرور لیتے تھے۔ پنجاب کے کچے کے علاقے سے واپسی پر گوالے دودھ بھی اسی کشتی پر لاتے اور اگر کہیں کشتی میں جگہ نہ ہوتی تو پھر دودھ کے بڑے برتنوں جسے مقامی زبان میں ’ولٹوئی‘ کہا جاتا ہے پر تیر کر آ جاتے تھے۔

ڈیرہ اسماعیل خان اور پنجاب کے شہر بھکر کے درمیان آر سی سی یعنی پکا پُل سنہ 1985 میں تعمیر ہوا تو اس مشہور کشتی کی افادیت ختم ہو کر رہ گئی تھی اور پھر اسے دریا کے کنارے مستقل طور پر لنگر انداز کر دیا گیا۔

ڈیرہ کا ٹائیٹینک کیسے ڈوبا؟

یہ 25 جولائی 1999 کی بات ہے جب طوفان نے علاقے میں تباہی مچا دی تھی۔ درخت اور بجلی کے کھمبے گر گئے تھے اور اس طوفان میں کشتی بھی محفوظ نہ رہ سکی۔

سرکاری فائلوں کے مطابق کشتی کا پیندہ زنگ آلود ہو چکا تھا اور ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار۔ طوفان کی وجہ سے دریا میں بننے والی بڑی لہروں نے کشتی کو نقصان پہنچایا اور پیندے میں سوراخ کی وجہ سے یہ ڈوبنے لگی۔

حکام کے مطابق عملے نے اسے بچانے اور سوراخ بند کرنے کی کوششیں کیں لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے اور آخر کافی تگ و دو کے بعد انھوں نے بحالی کا کام چھوڑ دیا اور یہ بڑی کشتی بالکل ٹائیٹینک کی طرح آہستہ آہستہ زیر آب جانے لگی۔

کافی عرسے تک کشتی کا بالائی حصہ پانی کے اوپر نظر آتا رہا جبکہ باقی ماندہ حصہ پانی کے اندر چلا گیا تھا اور بلاآخر یہ ہمیشہ کے لیے دریا برد ہو گئی۔

صوبائی کابینہ نے یکم دسمبر 1985 کو یہ فیصلہ بھی کیا تھا کہ چونکہ کشتی کی حالت اب کافی کمزور ہو چکی ہے تو اسے کسی محفوظ مقام پر لنگر انداز کر دیا جائے اور اسے کو ماضی کی ایک یادگار کے طور پر محفوظ کر دیا جائے۔

ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ دریا میں کھڑے کھڑے اس کشتی کا سامان غائب بھی ہو گیا تھا جس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ نیوی کی ٹیم کو بھی طلب کیا گیا تھا تاکہ اس کشتی کو دریا سے باہر نکالا جا سکے لیکن اس وقت اسے نکلانے پر جتنا خرچے آ رہا تھا اسے دیکھ کر یہ منصوبہ ترک کر دیا گیا تھا۔

اب اس کشتی کی کچھ تصاویر ایک اردو فلم ’دلہن ایک رات کی‘ کے ایک سین میں قید ہیں اور کچھ پرانے لوگوں کے ذہنوں میں اس کی یادیں باقی ہیں۔

جہاز پر جانو کپتان کا دیسی ٹیلیفون

اس کشتی کے عملے میں جانو کپتان، کالو کپتان اور خدا بخش سٹیئرنگ ڈرائیور ہوا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ عملے کے دیگر افراد بھی موجود ہوتے تھے۔

ملک خدا بخش ماہڑہ زمیندار اور سماجی کاموں میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ان کے والد اس کشتی پر کام کرتے تھے۔

ملک خدا بحش ماہڑہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ اکثر اس کشتی پر جایا کرتے تھے اس لیے ان کی یادیں آج بھی اس سے وابستہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کشتی کے سب سے اوپر والے عرشے پر جانو کپتان ہوتا تھا اور بالکل نیچے دیگر عملہ ہوتا تھا جو سٹیمر یعنی بھاپ بنانے اور کشتی کے وہیل کی سمت کا تعین کرتے تھے اور ان کا رابطہ پیتل کے لمبے پائپ جیسے ایک دیسی ساختہ فون سے ہوتا تھا۔

جانو کپتان نے اگر نیچے عملے کو کچھ بتانا ہوتا تھا تو وہ اس پائپ میں پھونک مارتے تو اس سے سیٹی بجتی تھی تو نیچے عملہ جان لیتا کہ کپتان کچھ کہنا چاہتا ہے، اس پر وہ پھونک مارتے تو جانو کپتان کو معلوم ہو جاتا کہ وہ اب اس کی بات سننے کے لیے تیار ہیں اور یوں وہ ایک دوسرے کو پیغامات دیا کرتے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ دریائے سندھ میں جب پانی زیادہ ہوتا تھا تو کشتی گھوم گھوم کر پنجاب کے علاقے دریا خان تک جاتی اور اسے واپس اپنے راستے پر لانے میں چار سے پانچ گھنٹے لگ جاتے تھے۔ کشتی صبح جاتی اور شام کو واپس ڈیرہ اسماعیل حان پہنچ جاتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ کشتی پر سواری کا کرایہ نیچے بیٹھنے کے دو آنے اور اوپر عرشے پر بیٹھنے کے چار آنے ہوتا تھا۔

ملک خدا بخش ماہڑہ نے بتایا کہ کشتی پر چنے کی دال پکتی تھی جو بہت لذید ہوتی تھی اور مسافر اور عملے کے ارکان وہ دال شوق سے کھاتے۔

ان کی یادوں کے مطابق اکثر ایسا بھی ہوتا کہ دریا میں اگر کہیں پانی کم گہرا ہوتا تھا تو کشتی اُدھر پھنس جاتی اور اسے نکالنے میں پورا پورا دن یا دو دن بھی لگ جاتے۔ کشتی ایسی حالت میں مخصوص ہارن بجاتا جو شاید آپ نے فلموں میں سنا ہو گا۔

ٹائیٹینک فلم میں بھی مدد کے لیے ویسا ہی ہارن بجایا گیا تھا۔

ہارن کی آواز سن کر لانچیں ادھر پہنچ جاتیں اور وہ سواریوں کو اپنی منزل پر پہنچا دیتی تھیں۔ کشتی روانگی سے پہلے تین مرتبہ ہارن دیتی، ایک تیاری کا، دوسرا سواریوں کے بیٹھنے کا اور تیسرا لنگر اٹھانے کا، جس کے بعد یہ منزل کی جانب روانہ ہو جاتی تھی۔

ستلج کوئین سے انڈس کوئین تک کا سفر

لگ بھگ ڈیڑھ سو سال پہلے دریائے سندھ کے بڑے معاون دریا ستلُج میں بھی ایک بڑی کشتی دریا پر راج کرتی تھی۔ یہ کشتی ریاست بہاولپور کے نواب صادق پنجم کی ملکیت تھی اور اس کا نام ’ستلج کوئین‘ رکھا گیا تھا۔ یہ کشتی سنہ 1867 میں بنائی گئی تھی۔

کشتی ستلج کوئین نواب بہاولپور کے ذاتی استعمال میں رہتی اور اس وقت جب انگریز افسران اپنی بیگمات کے ساتھ اس علاقے میں آتے یا نواب بہاولپور کے دیگر مہمان آتے تو یہ انھیں دریا عبور کرنے میں مدد فراہم کرتی تھی۔

قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیے گئے جس کے تحت تین دریا ستلج، بیاس اور راوی انڈیا کے حوالے کر دیے گئے۔ اس کے بعد دریائے ستلج ویران ہو گیا اور کشتی دریائے سندھ میں منتقل کر دی گئی جہاں اس کا نام انڈس کوئین رکھ دیا گیا تھا۔

انڈس کوئین

Alamy Stock Photo

ایسی اطلاعات ہیں کہ ستلج کی خشکی کے بعد نواب بہاولپور نے یہ کشتی حکومت پاکستان کو دے دی تھی۔ یہ کچھ عرصہ ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے درمیان دریائے سندھ میں چلتی رہی اور پھر اس کے بعد سنہ 1996 میں راجن پور کی تحصیل کوٹ مٹھن منتقل کر دیا گیا۔

ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ یہ کشتی نواب بہاولپور نے خواجہ غلام فرید کی درگاہ کو تحفے میں دے دی تھی جہاں یہ چاچڑان اور کوٹ مٹھن کے درمیان دریائے سندھ میں چلتی تھی۔ یہاں زیادہ تر خواجہ غلام فرید کے عقیدت مند اور دیگر مسافر اس پر سفر کرتے رہے۔ خواجہ غلام فرید کے عرس کے موقع پر زائرین کی بڑی تعداد کوٹ مٹھن جانے کے لیے اسی پر سفر کرتے تھے۔

انڈس کوئین کو سنہ 1996 میں کوٹ مٹھن منتقل کر دیا گیا جہاں یہ مِٹھن کوٹ سے چاچڑاں کے درمیان پوری شان و شوکت سے چلتی رہی حتیٰ کہ سنہ 1996 میں ہائی وے ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب کی عدم توجہی کا شکار ہو کر چلنے کے قابل نہ رہی اور تب سے لے کر اب تک دریائے سندھ کے کناروں سے بھی دور میدانوں میں پڑی ہے۔

اس کشتی کے تین حصے تھے۔ نیچے والے حصے میں انجن، جنریٹر اور اوپر ملازمین کے کمرے تھے۔ درمیانی حصہ مسافروں کے بیٹھنے کے لیے تھا، ایک حصہ عورتوں اور ایک مردوں کے لیے مختص تھا۔ اس میں ایک چھوٹی سی مسجد بھی تھی اس کے علاوہ ایک ریستوران بھی تھا جس سے بیک وقت 400 مسافروں کو کھانا پیش کیا جاتا تھا۔

ڈرائیور خان محمد کی یادیں

انڈس کوئین پر ایک طویل عرصے تک مقامی خان محمد بطور ڈرائیور کا کام کرتے رہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس علاقے میں کل تین بڑی کشتیاں تھیں۔ ایک کشتی ڈیرہ اسماعیل خان بھیج دی گئی جبکہ دو اسی علاقے میں رہے۔ دریائے ستلج خشک ہو جانے کے بعد کشتی دریائے سندھ میں لائے گئے۔ انڈس کوئین اور سٹیمر اس علاقے میں دریا عبور کرنے کا بڑا زریعہ تھے اور یہ دن میں تین سے چار چکر لگاتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ قریباً 45 سال پہلے سٹیمر میں آگ لگنے کے باعث یہ سہولت ختم کر دی گئی جبکہ انڈس کوئین سنہ 1992 تک دریا میں موجود رہی۔ دریائے سندھ پر پُل کی تعمیر کے بعد انڈس کوئن کو خشکی میں پل کے قریب غیر فعال قرار دے دیا گیا۔

اب اس انڈس کوئین کا ایک ڈھانچہ موجود ہے جو یہاں سے گزرنے والوں کو ماضی کی یاد دلاتا رہتا ہے۔ اس سے کچھ فاصلے پر سٹیمر بھی موجود ہے۔

اکثر یہاں سے گزرنے والے افراد کو ایسا تاثر ملتا ہے جیسے اس علاقے میں بحری جنگ ہوئی ہو اور تباہ شدہ کشتیاں میدان جنگ میں پڑی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp