کورونا وائرس: آکسفورڈ کی کووڈ 19 کی ویکسین کے آزمائشی تجربے سے میں نے کیا سیکھا؟


آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کی گئی کووِڈ 19 کی ویکیسن نے اب تک بہت ہی زبردست اور حوصلہ افزا نتائج ظاہر کیے ہیں۔ رچرڈ فِشر بتاتے ہیں کہ اُن کا اس ویکسین کے آزمائشی تجربات میں بطور رضاکار شرکت کرنا کیسا تجربہ تھا۔

میں ایک ہسپتال کے استقبالیے پر بیٹھا ہوا ہوں اور میرے سانس لینے کی وجہ سے میری عینک کے شیشے دُھندلا رہے ہیں۔ چند منٹ پہلے میں گلیوں کی مرطوب گرمی سے گزر رہا تھا۔ مجھے ڈاکٹر کے پاس اپنے طے شدہ وقت پر پہنچنے میں تاخیر ہو رہی تھی۔

اس وقت میرے پاس سے ڈاکٹر اور نرسیں اُسی ہسپتال کی جانب آرام سے پیدل جا رہے تھے، مجھے معلوم تھا کہ میری صحت بہتر دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ اس سے پہلے آخری مرتبہ مجھے جنوبی لندن کے ہسپتال سینٹ جارجز میں جانے کا اتفاق اُس وقت ہوا تھا جب میری بیٹی پیدا ہوئی تھی۔

لیکن آج مجھے کافی تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔

میں اپنے ماسک میں سے ہسپتال کے فرش کی صفائی والے بلیچ کی بُو محسوس کر رہا تھا۔ اور میرے ساتھ والی نشست پر ایک ٹیپ لگی ہوئی تھی جس کا مطلب تھا کہ میرے ساتھ کوئی اور نہیں بیٹھ سکتا۔

ہسپتال کے عملے کے دو افراد اپنے مخصوص حفاظتی لباس اور ماسک پہنے ہوئے میرے پاس آئے، ان میں سے ایک نے ایئرپورٹ کے مسافروں کی آمد والے حصے میں کھڑے کسی ٹیکسی ڈرائیور کی طرح ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا ہے جس پر درج ہے ’ویکسین ٹرائل‘ یعنی ویکسین کا آزمائشی تجربہ۔

یہ پلے کارڈ میرے لیے ہے۔ میں دو میٹر کے فاصلے کے اصول کو اپناتے ہوئے اُن کے ہمراہ ہو لیا، یہ دونوں اپنی گپ شپ میں مصروف ہیں۔

میں سینٹ جارجز میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی کووِڈ-19 کی ویکسین بنانے کے تجرباتی مراحل کے لیے سکریننگ کے ابتدائی مرحلے سے گزر رہا تھا۔ آئندہ آنے والے ہفتوں میں مجھے یہ معلوم ہو سکے گا دنیا کی وبا سے نبرد آزما ہونے کی کوششوں میں شرکت کرنے کا تجربہ کیسا لگتا ہے؟

دنیا بھر میں اس ویکسین کی تیاری کی دوڑ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کو کوششوں کو اگلی صفوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کورونا وائرس: آکسفورڈ ویکسین ٹرائل کے نتائج حوصلہ افزا

کیا چین کورونا ویکسین کی تیاری کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے؟

کورونا وائرس: سواب ٹیسٹ کے بارے میں بے بنیاد دعوؤں کی حقیقت

کیا جنوبی ایشیا میں کم ٹیسٹنگ سے وبا کی شدت پر پردہ ڈالا جا رہا ہے؟

چند ہفتوں کے بعد 20 جولائی کو آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے 1077 رضاکاروں پر کیے گئے تجربات کے نتائج کا بہت اہم اعلان کیا۔ اس اعلان میں بتایا گیا تھا کہ ان کی آزمائشی ویکسین محفوظ ہے اور قوتِ مدافعت کو تیزی سے متحرک کرتی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی سارا گِلبرٹ نے ایک بیان میں بتایا کہ ’ابھی بہت کام کرنا باقی ہے، لیکن ابتدائی نتائج بہت حوصلہ افزا رہے ہیں۔‘

اگلا قدم یہ ہو گا کہ اب اسی آزمائشی ویکسین کا تجربہ ان ہزاروں افراد پر کیا جائے گا جو برطانیہ کے مختلف علاقوں، برازیل اور جنوبی افریقہ سے رضا کارانہ طور پر اس تجربے میں شامل ہوں گے۔ کورونا کی ویکسین کی تیاری کے آزمائشی تجربے کے اس مرحلے کے لیے جس میں اس ویکسین کے موثر ہونے موثریت کا ایک وسیع سطح پر تجربہ کیا جائے گا جس میں، میں بھی ایک رضاکار کے طور پر شامل ہوں۔

سکریننگ کا عمل

میرے اس تجرے میں شمولیت کا سفر مئی کی ایک شب سے شروع ہوا تھا جب میں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک فلسفی کی ویکسین پر تحقیق کے بارے میں ایک ٹویٹ اتفاقاً دیکھی، اور جس کے بارے میں مجھے علم تھا کہ اس پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔

اس فلسفی نے اپنے آپ کو اس ویکسین کے تجربے کے لیے ایک رضاکار کے طور پر پیش کیا تھا۔ اس شب جب میری اہلیہ میرے ساتھ آرام کر رہی تھیں تو میں نے اس وقت اس ٹرائل کی ویب سائٹ پر جا کر اپنے آپ کو رجسٹر کرا لیا اور پھر بعد میں اس بات کو بھول گیا۔

کورونا ویکسین

PA Media
آکسفورڈ میں چرچل ہسپتال میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک سائنسدان اپنے کام میں مصروف ہیں

چند ہفتوں کے بعد میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے اس آزمائشی تجربے کے لیے نیورولوجی وارڈ میں ہوں جہاں میں اس تجربے کے ایک کلیدی سائنس دان میتھیو سنیپ کو ایک بڑی سے سکرین پر دیکھ رہا ہوں جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ ایک رضاکار کو کن کن باتوں سے آگاہ ہونا چاہیے، ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں کر سکتے ہیں، ویکسین کی سائنس کس طرح کام کرتی ہے، اور اس تجربے کے دوران ویکسین کے استعمال سے پیدا ہونے والے کن کن غیر متوقع رد عمل پر نظر رکھنی چاہیے۔

سنیپ نے بتایا کہ ویکسین کی تیاری کے ان ٹرائل میں دس ہزار افراد شریک ہوں گے اور ہم رضاکاروں کے ایک بے ترتیبی انداز میں دو گروپس تشکیل دیں گے۔ ایک گروپ والوں کو وہ ویکسین دی جائے گی جو کورونا وائرس سے محفوظ نہیں بنائے گی اور دوسرے گروپ کو کووڈ 19 کے لیے تیار کردہ (ChAdOx1) ویکسین دی جائے گی۔

یہ وائرس عام قسم کی سردی یا زکام کے کمزور سی شکل کے وائرس کو مدنظر رکھ کر تیار کی گئی ہے جس کا عموماً چمپینزی شکار ہوتے ہیں۔ یہ وہ تیکنیک ہے جس پر یہ ریسرچ گروپ مارس اور ایبولا جیسے وائرس کی وجہ سے اس وبا کے پھوٹنے سے پہلے ہی سے اس پر کام کر رہا تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہ گروپ اس نئے وائرس، کووِڈ-19 کی ویکسین بنانے کے لیے تیزی سے کام کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

اس برس کے اوائل میں جب دنیا کو اس بات کا احساس ہونے لگا تھا کہ یہ وبا جلد ختم ہونے والی نہیں ہے، آکسفورڈ یونیورسٹی کے اس گروپ نے اس پر تیزی سے کام کرنا شروع کر دیا۔

سنیب نے یہ ویڈیو جو کہ میں دیکھ رہا ہوں، تیار کرنے کی وجہ بھی بتائی۔ سب سے پہلے انھوں نے چمپینزی والا سردی کا وائرس حاصل کیا اور پھر اسے جینیاتی طور پر تبدیل کیا تا کہ وہ انسانوں میں پھیل نہ سکے۔ اگلے دن انھوں نے اس میں وہ جین پیوست کیا جو کوِڈ-19 میں پروٹین بناتا ہے اور ’سپائیک گلائسوپروٹین‘ کہلاتا ہے۔

اگر انسانی جسم ’سپائیک گلائسوپروٹین کی شناخت کرنے لگے اور اس کے خلاف مدافعتی نظام تیار کر لے تو امید ہے کہ یہ کووِڈ-19 کو انسانی خلیوں میں پیوست ہونے سے روکنے میں مدد دے گا۔‘

سنیپ نے بتایا کہ نصف کے قریب رضاکاروں کو ویکسین دی جائے گی۔ باقی نصف کو موجودہ لائسنس شدہ ویکسین جس کا نام ’مین اے سی ڈبلی وائی‘ ہے دی جائے گی، (نمنرکس یا مین وویو کی صورت میں)، جو میننجائیٹس (گردن توڑ بخار) یا سیپسس (پوتتا) کے اسباب کو روکنے کے لیے دی جاتی ہے۔

یہ ویکسین ایک موازنے کے لحاظ سے ایک قسم کا ایک ’کنٹرول‘ ہے، اور اس کا انتخاب اس لیے کیا گیا تھا کیونکہ یہ ایک بے ضرر سا مادہ ہے جو دوائی کے طور پر دیا جاتا ہے۔

اس بے ضرر مادے کو اصلی ویکسین کی جگہ دیا گیا تھا تاکہ اس کے اثرات اور اس کے ساتھ ہونے والے ردعمل کا ایک حقیقی ویکسین سمجھ کر مشاہدہ کیا جا سکے، اور انھیں اس گروپ کے ساتھ کام نہ کر سکے جس گروپ میں اصل ویکسین استعمال کی گئی تھی۔

سنہ 2015 سے ’مین اے سی ڈبلیں وائی‘ کی برطانیہ کو بچوں کو معمول کے تحت دی جاتی رہی ہے۔ اور افریقہ کے صحارا سمیت دنیا کے خطرناک علاقوں میں جانے سے پہلے ایک سفری ویکیسن کے طور پر دی جاتی رہی ہے۔ سعودی عرب ملک میں داخلے کے وقت عازمینِ حج پہلے ہی سے مین اے سی ڈبلیو وائی والی ویکسین کی تصدیق مانگتا چلا آ رہا ہے۔

اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد مجھ سے میری میڈیکل ہسٹری پوچھی گئی اور یہ کہ آیا مجھ میں کبھی کورونا وائرس کی علامات ظاپر ہوئیں تھیں۔ میرا خون ٹیسٹ تجزیے کے لیے لیا گیا اور مجھ سے اس تحقیق کے مختلف مراحل میں شامل رہنے کے لیے میری رضامندی لی گئی۔

مجھ سے انجیکشن لگنے والی جگہ کی تصویریں بنانے کی اجازت لی گئی، میں خون کا عطیہ نہیں دوں گا، اگر میں بچہ پیدا کرنے کی عمر والی عورت ہوتا تو میں مانع حمل طریقے استعمال کروں گا، وغیرہ وغیرہ۔

ایک ہدایت نے مجھے ایک لمحے کے لیے روک لیا ’میں اس بات پر اپنی رضا مندی کا اظہار کرتا ہوں کہ ان نمونوں کو آکسفورڈ یونیورسٹی کے لیے ایک عطیہ سمجھا جائے گا۔‘ میں مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا جب معلوم ہوا کہ کچھ شرکا سے اپنے فضلاتی نمونے جمع کرانے کے لیے کہا جائے گا۔

میں واپس گھر جاتے ہوئے اپنے آپ کو زیادہ سمجھدار محسوس کر رہا تھا جو اس موضوع کے بارے میں تفصیل سے جانتا ہے۔ لیکن میں ساتھ ساتھ یہ شک بھی زیادہ کر رہا تھا کہ کسی بھی ایک کلینیکل ٹرائل کی طرح یہ ضروری ہوتا ہے اس میں شرکت کرنے والے افراد اس کے اس کے دوارن اضافی ردعمل سے آگاہ ہوں، مثلاً معمولی مسائل (متلی، سردرد، وغیرہ) سے لے کر شدید قسم کی تکلیفیں (گلین-برے سِنڈروم، جس کی وجہ سے جسم میں شدید کمزوری پیدا ہوتی ہے اور موت بھی واقع ہو سکتی ہے)۔

میں جانتا تھا کہ اس ٹرائل کے نقصانات کے امکانات کم ہیں، لیکن ان تمام تفصیلات کو ایک ہی موقع پر جاننا ایک جرات والا کام ہے۔

ابتدائی سطح پر کی جانے والی سکریننگ (چھانٹی) کے موقع پر رضاکاروں کو ویکسین کے بارے میں ’تھیوریٹیکل‘ سطح کی تشویش کے بارے میں آگاہ کیا گیا کہ شاید اس سے کورونا وائرس کی علامتیں بدتر ہو جائیں۔

جن جانوروں پر ’سارس‘ سے حفاظت کے لیے جب ویکسین کے تجربات کیے گئے تھے تو ان کے مطالعے سے پتہ چلا کہ جب انھیں سارس کا وائرس لگا تھا تو ان کے پھیپھڑوں میں سوزش بڑھ گئی تھی۔ ایک اور رپورٹ سے پتا چلا کہ ایک ٹرائل کے دوران ایک ایسا چوہا جیسے ویکسین دی گئی تھی اسے اُسے جب مرز کا وائرس لگا تو اُس کے پھیپھڑوں میں سوزش بڑھ گئی تھی۔ تاہم کسی بھی جانوروں پر تجربے کے دوران اس قسم کا کوئی ردعمل کووِڈ-19 کی ویکسین کے لیے ہونے والے تجربات میں دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔

کورونا ویکسین

آکسفورڈ یونیورسٹی کے اس ٹرائل کے اگلے مرحلے میں برازیل کے رضاکار حصہ لے رہے ہیں جہاں اس وقت کورونا وائرس نے شدید تباہی مچائی ہوئی ہے

ویکیسن لگانے کا دن

ایک ہفتے کے بعد یعنی تین جولائی کو میں سینٹ جارجز کے اسی بغیر شیشوں والے کمرے میں آیا جہاں میری سکریننگ کے عملے سے ملاقات کا وقت طے ہوا تھا۔ یہ ایک لحاظ سے ویکسینیشن کا دن تھا، لیکن اب مجھے پریشانی ہونے لگی کہ مجھے تو اس ٹیسٹ سے فارغ کر دیا جائے گا۔

ڈاکٹر ایوا گلیزا کمرے سے باہر گئیں ہیں، اور وہ دس منٹ گزرنے کے بعد بھی واپس نہیں آئیں۔ کچھ دیر پہلے ہی انھوں نے بتایا تھا کہ سینٹ جارجز ہسپتال میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے اس تجربے کا آج آخری دن ہے، اور اب ان کے پاس نمونے ختم ہونے کو ہیں۔

انھوں نے میری میڈیکل ہسٹری پر دوبارہ سے بات کی، ٹیسٹ کے لیے مزید خون لیا، لیکن ڈاکٹر گلیزا، جو کے بچوں میں ویکسین کی محقق ہیں اور جنھیں اس پراجیکٹ کے لیے بھرتی کیا گیا ہے ،انھیں فارمیسی تک پہنچنے سے پہلے کوئی خیال نہیں تھا کہ آیا میں اس ٹرائل میں حصہ لے بھی سکتا ہوں۔

اب مجھ میں تجسس پیدا ہوتا ہے کہ میں یہ جانوں کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے جس سے ہم لاعلم ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ویکسین کے تجرنے کے نتائج بالکل درست ہوں، اس تجربے کے شرکا اور اس کے ڈاکٹرز جنھوں نے ویکسین دینی تھی، انھیں یہ نہ معلوم ہو کہ آیا یہ ٹرائل ہو رہا ہے یا اس سِرِنج میں میننجائیٹس پر قابو پانے والی ویکسین موجود ہے۔

جب وہ گئی ہوئی تھیں میں اپنے ذہن میں مختلف باتیں سوچنے لگا۔ ان باتوں پر سوچتے ہوئے میں باہر کی دنیا کے بارے میں سوچنے لگا۔ انگلینڈ میں جہاں میں رہتا ہوں، یہ وہ دن ہے جب لاک ڈاؤن میں نرمی کی جا رہی ہے اور شراب خانوں سے لے کر حجام کی دکانوں سمیت کئی ایک کاروبار بالآخر اب کھل سکتے ہیں۔

انگلینڈ کے لیے سماجی فاصلے کی پالیسی میں تبدیلی آ رہی ہے، اب دو اشخاص کے درمیان فاصلہ دو میٹرز کے بجائے ایک میٹر رکھنا ہو گا۔ ان تبدیلیوں کے متعارف ہونے کی وجہ سے جہاں ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہو رہی تھی وہیں ایک بے چینی بھی پیدا ہو رہی تھی۔

میرا ذہن دنیا کے مختلف حصوں میں رہنے والوں دوستوں اور رشتہ داروں کے بارے میں سوچ رہا تھا، ہر ایک اس وبا کے مختلف تجربے سے گزر رہا تھا۔ کچھ تو وائرس سے نجات پانے والا دن سمجھ کر جشن منا رہے تھے، جبکہ کچھ اموات کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان تھے۔

گذشتہ برس کے بیشتر اوقات میں، میں میساچیوسٹ میں رہا تھا۔ جس دن میرا اس ہسپتال میں وقت طے تھا، امریکہ میں جن لوگوں کو میں جانتا تھا ان کے لیے حالات بہت سنگین تھے، اس دن امریکہ میں ایک ہفتے کے دوران چار مختلف دنوں میں چالیس ہزار کیس فی دن ریکارڈ ہوئے تھے اور پورے ملک میں متاثرین کی تعداد کا رجحان بہت خوفناک تھا۔

جب میں گاڑی چلا کر آ رہا تھا تو میں نے برازیل میں بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں بھی سنا تھا۔ ایک دوست اور اس کی بیوی حال ہی میں وہاں لوٹے تھے۔ اس دن برازیل میں متاثرین کی تعداد پندرہ لاکھ ہوگئی تھی۔ برازیل میں اس وبا کا اتنا زیادہ پھیل جانا آکسفورڈ یونیورسٹی کے اس تجربے کو ریو ڈی جینیریو، ساؤ پالو اور برازایل کے ایک شمالی علاقے تک لے جانے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اب یہ ایسا ہی جنوبی افریقہ میں بھی کر رہے ہیں۔

سچی بات تو یہ ہے کہ برطانیہ میں میرے جیسا رضاکار سائنس دانوں کو شاید ہی بتائیں کہ آیا یہ ویکسین موثر ثابت ہو رہی ہے، کیونکہ کم از کم فی الحال، بنسبت ان علاقوں کے جہاں وائرس پورے سماج میں پھیل رہا ہے، میرے اس وائرس سے متاثر ہونے کے کم امکانات ہیں۔ ایک بڑے مقصد کے لیے اس سطح پر جس میں، میں شامل ہوں دس ہزار رضاکاروں کو اس مہلک بیماری کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جب ڈاکٹر گلیزا واپس آتی ہیں تو ان کے ہاتھ میں ایک شیشی ہے۔ میں ماسک میں چھپا ان کا چہرہ دیکھ نہیں سکتا تھا، لیکن ان کی آنکھیں مسکرا رہی تھیں۔ کئی ہفتوں کے انتظار کے بعد، سرنج کی سوئی میرے بازو میں داخل ہوئی اور چند سیکنڈز کے لیے ایک انجکیشن سے ویکسین میرے خون میں شامل ہو جاتی ہے۔ اور اب یہ 50-50 امکان ہے کہ میں ٹرائل کے کس گروپ میں ہوں۔ جب تک یہ ٹرائل ختم نہیں ہو جاتا ہے مجھے یہ معلوم نہیں ہو سکے گا۔

کورونا ویکسین

جنوبی افریقہ کے رضاکار جہاں آکسفورڈ یونیورسٹی کا گروپ ٹرائل کر رہا ہے

روئی کا پھایا اور انتظار

اگلا مرحلہ ایک طویل انتظار کا ہے۔ اس آزمائشی تجربے کے شرکا کو دو گروپوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے، ہر ایک کو ان کی ویکسین کے اثرات اور علامتیں بتانے، ٹیسٹوں اور خون کے نمونے دینے اور رپورٹ کے مختلف اوقات دیے گئے ہیں۔ میرے لیے ویکسین دیے جانے کے سات دنوں کے بعد اگلی سطح آتی ہے اور میں اس وقت کے آنے کا کوئی خاص انتظار نہیں کر رہا ہوں۔

مجھے اپنے گلے کے غدود بغیر دانتوں اور زبان کو چھوئے روئی کے ایک پھائے سے دس سیکنڈوں کے لیے صاف کرنے ہیں، یہ کوئی آسان کام نہیں ہے، پھر اُس پھائے کو جتنا بھی اندر جا سکے نتھنوں میں داخل کرنا ہے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اگر نتھنوں میں پھایا مناسب طریقے سے صفائی کرے تو ایسا لگے گا کہ آپ اپنے ‘دماغ میں گدگدی کر رہے ہیں۔’ یہ اتنا برا نہیں تھا، تاہم یہ آرام دہ بھی نہیں تھا۔

اس کے بعد میں روئی کے پھائے کو ایک سربمہر پلاسٹک کے لفافے میں رکھ کر اسے ایک ڈبے میں جس پر لکھا ہے ‘بائیولوجیکل سبسٹینس بی کٹیگری‘ میں ڈال دیتا ہوں، اور پھر اُسے پوسٹ باکس میں ایک خصوصی نظام ‘ترجیحی پوسٹ باکس’ کے ذریعے بھیج دیتا ہوں۔ یہ خصوصی نظام رائل میل نے گھروں سے اس طرح کے ٹیسٹوں کے نمونے بھیجنے کے لیے متعارف کرایا ہے۔

کچھ دنوں کے بعد مجھے میرے موبائل فون پر ایک پیغام ملے گا جو مجھے بتائے گا کہ میرا کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا یا نہیں۔

جب روئی کے پھائے سے گلے اور ناک کے لعاب کے نمونے لیے جاتے ہیں میں اس دوران ایک سوالنامہ بھی بھرتا ہوں جو میرے پچھلے ہفتے بھر کی کیفیت اور سرگرمیوں کے بارے میں ہوتا ہے۔ ‘کیا میں نے کسی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کیا تھا؟’ ‘میں نے اپنے گھر والوں کے علاوہ کتنے افراد کے ساتھ پانچ گھنٹوں سے زیادہ وقت صرف کیا؟’

میں ان چار ہفتوں تک ہر ہفتے اس عمل کو دہراؤں گا، اور اگلے پورے ایک برس تک ہسپتال جا کر باقاعدگی کے ساتھ اپنے خون کا ٹیسٹ کراتا رہوں گا۔

اس کے لیے اتنا طویل وقت درکار ہوتا ہے جس کی وجہ سے کچھ لوگ، جن میں بیشتر سیاستدان ہیں کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کے تجربات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ آپ صرف رقم خرچ کر کے یہ توقع نہیں کر سکتے ہیں ہیں کہ اب نتائج بھی فوراً ہی سامنے آجائیں۔

اب جبکہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے اس تجربے کے پہلے ہی مرحلے میں اس کے ویکسین کے محفوظ ہونے کے حوصلہ افزا نتائج آئے ہیں اور بہت ہی زبردست نتائج کہ اس سے حفاظتی مدافعات نظام کے مضبوط ہونے کے کافی امکانات ہیں، ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ صرف ایک ہزار افراد پر کیا گیا ایک ٹرائل تھا۔

لاکھوں افراد کے لیے (یا دنیا بھر کے لیے) ایک نئی ویکسین جاری کرنے کے لیے آپ کو اس کی موثریت پر اعلیٰ درجے کا اعتماد ہونا چاہئیے جو کے ان ٹیسٹوں اور مریضوں کے زیادہ سے زیادہ اعداد و شمار حاصل کرنے سے آتا ہے۔

صحت عامہ کے محکمے کے اہلکاران کو وہ واقعات اچھی طرح یاد ہوں گے جب جاری کی جانے والی ویکسین غلط نکلی۔

سنہ 1976 میں ‘سوائین فلو’ کی وبا پھوٹنے کا خوف پیدا ہونے کی وجہ سے امریکی حکومت نے ویکسین بنانے کا کام تیز رفتاری سے کیا اور لاکھوں لوگوں کو وہ ویسکسین لگا دی گئی۔ جس وبا کے پھوٹنے کا خوف تھا وہ وبا نہیں آئی لیکن کچھ اندازوں کے مطابق، تیس کے قریب لوگ اس ویکسین کے ردعمل سے ہلاک ہو گئے۔

اس قسم کے واقعات کی وجہ سے صحت عامہ کے محکمے کی ہدایات پر لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس لگتی ہے اور ان سے ویکسین مخالف جذبات بھی پیدا ہوتے ہے، اور کسی بھی وبا کے دوران اس قسم کا ردعمل آپ بالکل نہیں چاہیں گے۔

دنیا بھر میں ادویات کی توثیق کرنے والے اداروں کے فیصلے کرنے کے اختیارت کے ساتھ ان پر بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر آف میڈیسن، سر جان بیل نے بی بی سی کو 21 جولائی کو بتایا تھا کہ ہمارے پاس انتظار جیسی سہولت نہیں ہے کہ ہم کلینیکل ٹرائیلز کے ذریعے حتمی نتائج حاصل کر لیں۔

‘کسی بھی ریگیولیٹر (انتظامی ادارے) کا سب سے مشکل مرحلہ وہ ہوتا ہے جب اُسے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ فلاں فلاں دوا یا ویکسین محفوظ اور موثر ہے، اور اس کے اجرا کی اجازت دی جاتی ہے۔ میں ایسی ذمہ داری نہیں لینا چاہوں گا۔ تاہم یہ بہت ہی کٹھِن کام ہے۔ اگر ان کا جواب مثبت ہوتا ہے تو اس ویکسین کو حاصل کرنے والے ساڑھے تین ارب افراد کی اچانک قطار لگ جائے گی۔’

ایک اور حقیقت یہ ہے کہ ابتدائی سطح پر منظور ہونے والی ویکسین تمام دکھوں کا مداوا نہ ہو جیسا کہ لوگ تصور کر رہے ہیں، اس سے شاید وائرس پر مکمل قابو پایا نہ جا سکے۔ دوسرے لفظوں میں یہ اس وائرس کو مکمل طور پر ختم نہ کر پائیں تاہم اس کے بجائے اس کی شدت کو کم کر دیں۔

لوگوں میں یہ وائرس موجود رہ سکتا ہے چاہے وہ کوئی بھی علامت ظاہر نہ کریں، مثال کے طور پر وہ ایسے شخص کو وائرس لگا دیں جسے ویکسینیشن نہ ملی ہوئی ہو۔ ویکسین کی بہت اہمیت ہو گی اور اس کی وجہ سے کافی تحفظ مل سکے گا، لیکن جو کچھ بھی ہو، ہمیں ایک لمبے عرصے کے انتظار کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔ شاید یہ وائرس ہمیشہ کے لیے ہمارے ساتھ رہے۔

جہاں تک میرا معاملہ ہے، یہ جانتے ہوئے کہ مجھے ویکسین کی خوراک لگنے کہ 50-50 امکانات ہیں مجھے ایک سکون ہے کہ مجھے اس وائرس کے لگنے کے امکانات کم ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی میرے رویے یا میری عادتوں میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکے گا۔

اور نہ ان میں کوئی تبدیلی آنا چاہیے، ریسرچ کرنے والے اس بارے میں بالکل واضح ہیں۔ جب مجھے یقین نہ ہو جائے کہ کوئی ایسی ویکسین بن گئی ہے جو موثر ہے اور جو میری بیوی کو، بیٹی کو، دوستوں کو، رشتہ داروں کو اور ان اجنبیوں کو جو روز میری گلی سے گزرتے ہیں کو اس وبا کے خلا تحفظ فراہم کرے، میں سماجی فاصلے کے اصولوں پر عمل پیرا رہوں گا۔

بنیادی طور پر میں دیگر دس ہزار افراد کے ہمراہ اس بڑے آزمائشی تجربے میں ایک چھوٹا سا مگر اہم کردار ادا کرنے پر خوشی محسوس کرتا ہوں جس پر اس وقت ساری دنیا کی نگاہ ہے۔ جس سرعت کے ساتھ آکسفورڈ یونیورسٹی کے اس گروپ نے اس وبا سے نبرد آزما ہونے کا کام شروع کیا، اور جس طرح کی منظم محنت اور جانفشانی کا مظاہرہ کیا گیا ہے یہ بہت ہی زیادہ قابلِ تحسین ہے۔

اس وبا سے پہلے اس ریسرچ میں شامل ماہرین ویکیسن کے تحقیقی کاموں کے مراکز میں ملک کے کونے کونے میں اپنے اپنے کام میں مصروف تھے، جہاں یہ سائنسی تجسس لیے یا ایک انفرادی احساسِ ذمہ داری لیے برسرِ پیکار تھے۔ انھیں کبھی یہ امید نہیں تھی کہ وہ کبھی اربوں افراد کی امیدوں یا توقعات کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے کام کر رہے ہوں گے۔

ممکن ہے کہ آکسفورڈ ینویورسٹی کے ویکسین ٹرائل میں سائنسدانوں کو کامیابی نہ مل سکے جس کی اب ہر شخص آس لگائے بیٹھا ہے۔ شاید یہ ویکسین اتنی موثر نہ ہو اور اتنی محفوظ ثابت نہ ہو سکے جس سے یہ ہمیں مشکلات سے نجات دلا سکے، لیکن سائنس کی پیش رفت اسی انداز میں ہوتی ہے۔ یہ طویل المدتی ہوتی ہے، اجتماعی کاوش سے ہوتی ہے اور غلطیوں سے بھری ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp