آصف حسین کو تاخیر کیوں ہوئی؟


آصف حسین کا تعلق یوں تو اس بالادست طبقے سے ہے جن کے بارے میں گمان یہ ہے کہ انتظامی ارتقاء میں ان کے سینے میں سنگ سرد اور گردن میں عمود آہنی مستحکم ہو جاتا ہے پر آصف نے نمک کی کان میں بھی مصری کی ڈلی کی تاثیر نہیں کھوئی۔ شیریں سخن اور خندہ جبیں ہیں۔ زندگی کرنے کا ہنر بھی جدا رکھتے ہیں کہ ہونٹوں سے ہنسی کو روٹھنے نہیں دیتے اور آنکھوں میں ریت کو ٹھہرنے نہیں دیتے۔

پچھلے ہفتے آصف سے ملاقات طے تھی۔ ان کا شہر دور ہے، آنے میں وقت لگتا ہے پر شام کے بعد شب بھی بیت گئی اور آصف کی کوئی خبر نہ ملی۔ اگلے روز پیغام بھیجا تو جواب میں انہوں نے کچھ بولتی، چیختی، کرلاتی تصویریں بھیج دیں۔

سدراہ تھی کیا، ایک ننھی سی جان، شاید چار پانچ پاؤنڈ کا وزن ہو گا پر اس سے جڑے دکھ، بیچارگی اور بے بسی کو کس ترازو میں تولیے۔

آصف گھر سے نکلے تو سڑک کنارے یہ بچی مل گئی۔ پیدائش کو شاید چند گھنٹے گزرے ہوں گے۔ ابھی اس پر زندگی کے معنی کھلے نہیں تھے کہ موت کا پرچم کھلنے لگا تھا۔ آصف نے منزل کو ترک کیا، بچی کو اٹھایا اور مسیحائی کی تلاش میں ہسپتال جا پہنچے۔

اس بیچ آصف کی آواز پر کچھ اور دل رکھنے والے بھی چلے آئے تھے۔ بچی کو گود لینے کے لیے کچھ بازو پھیلے تھے، کچھ آنکھیں منتظر تھیں۔ آصف کے ساتھ ساتھ اور بھی لوگ تھے جو اپنا نام اس معصوم کے کاغذات میں درج کرانے کے متمنی تھے۔ نفرت، تعصب اور بے رحمی کی دنیا میں ایدھی صاحب کے بھگت اب بھی جیتے تھے۔

پر کہانی اس سے پہلے ہی سمٹ گئی۔ بس ایک رات کی بات تھی۔ مسیحاؤں کے جھکے کندھوں نے شکست کا اعلان کیا تو اگلی منزل بھی آصف کو ہی طے کرنی پڑی۔ دو گز زمین کی ضرورت نہیں پڑی، نصف گز سے ہی کام چل گیا۔ ”میرے نزار بدن میں لہو ہی کتنا ہے“

اب آصف اخلاقی قدروں کا مرثیہ پڑھیں یا میں شقی القلبی کی روایت سناتا پھروں، کیا فرق پڑتا ہے۔

یہ روز کا معمول ہے، ہسپتالوں کے کوڑے دانوں میں کتنی ہی نامکمل، کٹی پھٹی لاشیں ملتی ہیں جو ایک ہاتھ پر اٹھائی جا سکتی ہیں۔ جانور گلیوں میں پھینکے جانے والے نوزائیدہ بھنبھوڑتے ہیں۔ کچھ خوش قسمت ایدھی صاحب کے جھولوں میں جگہ پاتے ہیں مگر جھولے بہت کم ہیں اور پامال ہوتی زندگی کی وسعت اس میں سماتی نہیں ہے۔

پاپولیشن کونسل کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں سالانہ پچیس لاکھ اسقاط حمل ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر مشکوک حالات میں ہوتے ہیں۔ ہزاروں بچوں کی لاشیں ہر سال کچرا کنڈیوں، گندے نالوں اور سنسان سڑکوں پر ملتی ہیں جنہیں جانور اس حد تک نوچ چکے ہوتے ہیں کہ ان کی شناخت ممکن نہیں رہتی۔

یہ سب کیا ہے، کیوں ہے؟ پوچھیے لیکن پوچھنے سے پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ اس کا سرا فحاشی، بے حیائی، مغرب، دین سے دوری، شادی میں تاخیر اور میڈیا میں نہیں ملے گا۔ ملنا ہوتا تو یہی پاٹھ ستر سال سے دہرانے کا نتیجہ بدتری کی صورت نہ نکلتا۔

ہم وہ کم مایہ ہیں جو adultery، fornication اور rape، سب کے لیے ایک ہی لفظ قانونی اور معاشرتی لغت میں استعمال کرتے ہیں اور وہ لفظ ہے زنا۔ ہم اب بھی بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ ہم ان قوانین کی ترویج کرتے ہیں جن کا انسانی حقوق سے کوئی تعلق ہو یا نہ ہو، وحشت اور پسماندگی کی ہزاروں سال پرانی روایت سے ان کا ناتہ ضرور نکل آتا ہے۔ ہم سیکس ایجوکیشن کے نام سے بدکنے والی وہ قوم ہیں جو حیاتیات کی کتاب میں وہ سبق بھی حذف کر دیتے ہیں جس میں افزائش نسل کا ذکر ہوتا ہے۔ ہماری آنکھوں کے گرد پچھلی نسل کے چڑھائے ہوئے کھوپے ہیں اور ہم اپنی اگلی نسل کی آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھنے میں مصروف ہیں۔

لیکن چھوڑیے، یہ لمبی بحث ہے۔ آپ اتنی مشکل میں کیا پڑیں گے۔ آئیے بس ایک سادہ سی رمز کھولتے ہیں کہ آصف حسین کی راہ کھوٹی کرنے والی بچی کہاں سے آئی تھی؟

ہو سکتا ہے کہ یہ کسی شادی شدہ جوڑے کے گھر میں پیدا ہونے والی ہے در پے چوتھی، پانچویں یا چھٹی بیٹی ہو۔ ایک بیٹے کی آس اور امید میں ماں کو بچے پیدا کرنے کا کارخانہ بنانے والا معاشرہ یہ نہیں بتاتا کہ اتنے بچے کیسے پالے جائیں گے۔ ہاں، مسجد کا مولوی یہ ضرور کان میں ڈال دے گا کہ رزق تو آسمان سے اترتا ہے اس لیے بچے پیدا کرنے اور کرتے ہی چلے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

اس صورت میں بچی کا قاتل کون ہے؟ وہ باپ جو بیٹے کو بیٹی پر مقدم خیال کرتا ہے، وہ مذہبی روایت جو خدا کی رزاقیت پر یقین دلاتی ہے لیکن خاندانی منصوبہ بندی سے متنفر کرتی ہے۔ وہ معاشرہ جہاں بہبود آبادی کا کوئی تصور پنپ نہیں پاتا، وہ معاشی نظام جہاں غربت اور امارت کے بیچ خلیج کم نہیں ہوتی یا وہ ریاست جو کسی بچے کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔

لیکن زیادہ امکان یہ ہے کہ یہ بچی کسی ”ناجائز“ جنسی تعلق کی نشانی ہو۔ لیکن ناجائز کی تعریف کیا ہو گی۔ منبر سے روز یہ بتایا جاتا ہے کہ مغرب کے زوال کی سب سے بڑی نشانی وہاں کی بن بیاہی مائیں ہیں۔ سوچیے ہمارے یہاں بن بیاہی مائیں کیوں نہیں ہوتیں۔ خطیب بتائے گا، اس لیے کہ ہماری اخلاقی قدریں زمین میں گڑی ہوئی ہیں، ہمارا خاندانی نظام پائیدار ہے اور ہماری تہذیب کی پاکیزگی سے وضو کیا جا سکتا ہے۔ پر سچ یہ ہے کہ ہماری بن بیاہی مائیں اس لیے نہیں ہیں کہ ان کے بچے کچرا کنڈیوں اور گندے نالوں کی قربان گاہوں پر مذہب، روایت، سماج اور قانون کی کند چھری سے ذبح کر دیے جاتے ہیں۔ ماں ہونے کے لیے بچہ ہونا ضروری ہے۔ چونکہ مغرب کے معاشرے میں بچوں کی قربانی ناجائز ہے اس لیے وہاں ناجائز مائیں مل جاتی ہیں، ناجائز بچے پل جاتے ہیں۔

اب اس موت کا ذمہ دار کون ہے۔ وہ سماج جو یہ جانتا ہے کہ شادی کے بندھن سے باہر کے بہ رضا جنسی تعلقات پانچ ہزار سال پہلے بھی حقیقت تھے اور آج بھی حقیقت ہیں لیکن وہ اسے ایسا گناہ قرار دینے پر بضد ہے جو کسی کے ریپ کے برابر ہے۔ حدود کا وہ قانون جو اس تعلق کا ثبوت ملنے پر سنگ سار کرنے کا حکم لگاتا ہے ورنہ تعزیر کی صورت میں عمر بھر کی قید تجویز کرتا ہے۔ وہ تعلیمی نظام جو سیکس ایجوکیشن دینے کو تباہی سمجھتا ہے۔ منبر کا وہ امین جو ایدھی کے جھولوں میں ہمکتی زندگی کو حرام کی اولاد کہتے ہوئے ایک لمحہ توقف کرنے کا بھی روادار نہیں۔ یا وہ ماں اور باپ جو اپنی اولاد کو اس لیے پھینک دینے پر مجبور ہیں کہ دوسری صورت میں موت ان کی منتظر ہے۔

اخلاقیات، تہذیب اور روایت کی ہماری خوشنما دکھائی دینے والی عمارت کی بنیاد میں لاکھوں بچوں کا لہو ہے۔ ہم ہر اس ننھی جان کے قاتل ہیں جو قانون کی رو سے جرم کا ثبوت بنتی ہے یا گناہ کا تازیانہ۔ ہم اکیلی ماں کا تصور قبول نہیں کر سکتے۔ بن بیاہی ماں کو اس کا بچہ پالنے کا حق نہیں دے سکتے۔ بیٹی کو بیٹے کے برابر نہیں سمجھ سکتے، پر اس ضد کے نتیجے میں ہر برس ہزاروں فرشتوں کو اذیت ناک موت دے سکتے ہیں کہ اس کے سوا ان کو جنم دینے والوں کے پاس کوئی راستہ نہیں رہتا۔

میں ان حرام کے نطفوں کو فرشتہ لکھ گیا، اس پر معافی چاہتا ہوں۔ تحفظ بنیاد اسلام بل کی کسی شق کو کھینچ تان کر اگر کسی نے اسے فرشتوں کی توہین گن لیا تو پانچ سال کی قید تو مقدر ہے۔ امید ہے آپ یہ غلطی درگزر کریں گے نہیں تو میں اور اعتراف کیے لیتا ہوں۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ ایدھی صاحب غلط تھے، مفتی زر ولی اور خادم رضوی درست ہیں۔ سیکس کی بنیادی تعلیم غلط ہے، سائنس میں مذہب پڑھانا درست ہے۔ مہذب ملکوں کے بہ رضا تعلقات سے تعرض نہ کرنے والے قوانین غلط ہیں، حدود آرڈیننس درست ہے۔ بن بیاہی مائیں غلط ہیں، نوزائیدہ لاشیں درست ہیں۔ مسیحا غلط ہے، قاتل درست ہے۔

سو آصف حسین، اگلی دفعہ گھر سے نکلو تو نظر منزل پر رکھنا۔ سڑک کنارے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وقت پر پہنچو، کچھ گپ لگاتے ہیں، کسی اچھی جگہ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے، کوئی عمدہ فلم دیکھیں گے اور اس کے بعد تم مجھے قرارداد مقاصد کے فائدے بتانا، میں تمہیں تحفظ بنیاد اسلام بل کی برکتیں سناؤں گا۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments