دف مارنا: تحریک لبیک سے مطیع اللہ جان صاحب تک



” دف مارنا“ ایک محاورہ ہے جس کا مطلب ہے کسی چیز کی تیزی یا جوش کو زائل کرنا۔

مشتاق یوسفی صاحب کے ایک دوست انہیں گولے کے کباب کھانے کے اسرار و رموز سمجھا رہے تھے تو آپس میں یہ گفتگو ہوئی یوسفی صاحب بیان فرماتے ہیں کہ معلوم ہوا کہ گولے کے کباب میں ایک حصہ قیمہ، ایک حصہ مرچیں اور ایک حصہ دھاگے پڑتے ہیں۔ سیخ سے اتار کے کڑاکڑاتے گھی کا بگھار دیتے ہیں۔

”سیخ کباب میں بھگار؟ یہ کس خوشی میں؟“ ہم نے پوچھا۔

”اس سے مرچوں کا دف مرجاتا ہے۔ پھر کبابوں میں بکری کا بھیجا اور الھڑ بچھڑے کی نلیوں کا گودا علیحدہ سے ڈالتے ہیں۔“

یہ کیوں؟

”اس سے گرم مصالحہ اور جائفل جاوتری کا دف مرجاتا ہے۔ پھر بڑی پیاز کے لچھے اور ادرک کی ہوائیاں۔ اور ان پر ہری مرچیں کترکے ڈالتے ہیں۔ یہ میسر نہ ہوں تو محض سی سی کرنے سے بھی لذت بڑھتی ہے۔ خمیری نان کے ساتھ کھاتے وقت برف کا پانی خوب پینا چاہیے۔“

کیوں؟

”برف سے خمیری روٹی اور ہری مرچوں کا دف مرتا ہے۔ مصلح ہے۔ بعض نفاست پسند تو کبابوں پر تتیا مرچ کی چٹنی چھڑک کر کھاتے ہیں۔ پھر حسب حیثیت دہی بڑے یا قلفی فالودے کی ڈاٹ لگاتے ہیں۔“

کیوں؟
”اس سے چٹنی کا دف مرتا ہے۔“

یوسفی صاحب نے تنگ آکر فرمایا کہ۔ اگر یہ سارے چونچلے فقط کسی نہ کسی کا دف مارنے کے لئے ہیں تو چٹوروں کی سمجھ میں اتنی بات کیوں نہیں آتی کہ یکے بعد دیگرے دف مارنے کے بجائے، شروع میں ہی کم مرچیں ڈالیں یا پھر زبان پر ربر کا دستانہ چڑھا کر کھائیں۔

وطن عزیز میں واقعات کا سلسلہ کچھ یونہی جاری رہتا ہے۔ پہلے ایک واقعہ ہوتا ہے۔ اس کا دف مارنے کے لئے دوسرا واقعہ کرایا جاتا ہے۔ پھر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔

جب نومبر 2017 میں تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان نے فیض آباد کے مقام پر دھرنا دے کر اسلام آباد اور راولپنڈی کے لوگوں کا جینا دو بھر کیا تو پاکستان کی سپریم کورٹ نے اس معاملہ کا از خود نوٹس لیا۔ اس کارروائی کی سماعت پاکستان کی سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم صاحب اور جسٹس فائز عیسیٰ صاحب کر رہے تھے۔ طویل تحقیقات کے بعد 6 فروری 2019 کو سپریم کورٹ نے اس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔

یہ فیصلہ جسٹس فائز عیسی ٰ صاحب نے تحریر کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ میں تحریک لبیک اور اس دھرنے کے بارے میں بہت سے اہم امور کی نشاندہی کی گئی۔ اس فیصلہ میں لکھا ہے کہ قانون کے بارے میں اس پارٹی کا رویہ ایسا تھا کہ جب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے انہیں خط لکھا تو انہوں اس کے خط کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ [عدالتی فیصلہ صفحہ 20 ] اور اس سیاسی جماعت کا رویہ ایسا تھا کہ جو بھی ایسا رویہ اپنائے گا وہ بغاوت کا مرتکب ہوگا۔ جس کی سزا عمر قید ہے۔ [عدالتی فیصلہ صفحہ 22 ]

اس فیصلہ میں یہ تشویشناک انکشاف کیا گیا ہے کہ جب اس پارٹی کو الیکشن کمیشن کے روبرو رجسٹر کرایا گیا تو اس کام کے لئے متحدہ عرب امارات میں رہائشی ایک پاکستانی نے جس کے پاس سمندر پار مقیم پاکستانیوں کا کارڈ نائیکوپ تھا، اس نے پاکستان آکر اس کی رجسٹریشن کرائی تھی۔ یہ پہلو درج کرنے کے بعد سپریم کورٹ کے اس فیصلہ میں یہ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ پاکستان کے انتخابی قوانین کی رو سے پاکستان میں کسی ایسی سیاسی پارٹی کی اجازت نہیں ہے جو کہ بیرون ملک سے مالی مدد وصول کرتی ہو۔ [عدالتی فیصلہ صفحہ 24 ]۔ اور پاکستان کے انتخابی قوانین کی رو سے پاکستان کی ہر سیاسی جماعت پر لازم ہے کہ وہ اپنے فنڈز کا حساب الیکشن کمیشن کو مہیا کرے۔ لیکن تحریک لبیک نے یہ تفصیل الیکشن کمیشن کو مہیا نہیں کی تھی کہ اس کے مالی وسائل کہاں سے آ رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اس جماعت کو بار بار اس کی یاددہانی کرائی لیکن اس پارٹی نے پھر بھی یہ حساب جمع نہیں کریا۔ اور الیکشن کمیشن نے بھی اس پر کوئی قانونی کارروائی نہیں کی۔ [عدالتی فیصلہ صفحہ 25 اور 26]

جب فیض آباد کے مقام پر دھرنا دے کر لوگوں کی زندگیاں اجیرن کی جا رہی تھیں اور طوفان بد تمیزی برپا کیا جا رہا تھا تو اس گروہ کو ان دنوں میں کھانا کہاں سے مہیا کیا جا رہا تھا؟ ادارے آئی ایس آئی کی رپورٹ ہے کہ ایک ٹی وی چینل کی طرف سے ان لوگوں کو کھانا مہیا کیا جا رہا تھا۔ اس کے باوجود ان چینلز کی نگرانی کرنے والے ادارے نے اس چینل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ [عدالتی فیصلہ صفحہ 27 ]

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس فیصلے کے بعد فوری طور پر تحریک لبیک کے مالی امور اور ان کے دھرنے کی تفصیلی چھان بین کی جاتی۔ یہ جائزہ لیا جاتا کہ اس جماعت یا کسی اور جماعت کو بیرون ملک سے کوئی مالی مدد مل رہی ہے کہ نہیں۔ یہ حساب لیا جاتا کہ اس سیاسی جماعت نے دھرنے کے اخراجات کس طرح برداشت کیے تھے؟ اس چینل کی تحقیقات کی جاتیں جس نے اس دھرنے کی اعانت کی تھی۔ ان سوالات کے جواب تو نہیں ملے مگر دو ماہ پہلے وفاقی وزیر فواد چوہدری صاحب نے یہ اعتراف کیا کہ تمام فرقہ وارانہ جماعتوں کو بیرون ملک سے مالی مدد مل رہی ہے۔ اگر مل رہی تو حکومت ان خلاف قدم کیوں نہیں ا ٹھاتی؟

بہر حال سپریم کورٹ کا فیصلہ تو آ چکا تھا چنانچہ اس فیصلے کا دف اس طرح مارا گیا کہ اس کے دو تین ماہ بعد جسٹس فائز عیسیٰ صاحب کے خلاف ریفرنس دائر کر کے ان کی اہلیہ کی جائیداد کی تحقیقات شروع ہو گئیں۔ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا۔ گزشتہ ماہ خود سپریم کورٹ کے جج فائز عیسیٰ صاحب اپنی اہلیہ کا پیغام لے کر سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوئے۔ ان کی اہلیہ نے ویڈیو لنک پر اپنی جائیداد اور آمد کی تفصیلات پیش کردیں۔ ریفرنس کالعدم قرار دے دیا گیا۔ عدالت میں کیا ہو رہا تھا، اس کی سب سے زیادہ تفصیلات یو ٹیوب چینلز پر نشر ہو رہی تھیں جن میں مطیع اللہ جان صاحب اور عبد القیوم صدیقی صاحب کے چینل پیش پیش تھے۔

اس فیصلے کا دف مارنے کے لئے جسٹس فائز عیسیٰ صاحب کو قتل کی دھمکی پر مشتمل ایک ویڈیو سامنے آ گئی۔ اس ویڈیو میں افتخارالدین صاحب نام کے ایک باریش بزرگ کچھ وعظ و نصیحت فرما ہے تھے۔ ان صاحب کو تو سرکاری مہمان خانے بھجوایا گیا لیکن آخر نوبت یہ آئی کہ فائز عیسیٰ صاحب کی بیگم صاحبہ نے سپریم کورٹ کو چوبیس سوالات بھجوائے۔ اب پورا ملک ان سوالات کے بارے میں باتیں کر رہا تھا کہ ان سوالات کا دف مارنے کے لئے نا معلوم افراد نے مطیع اللہ جان صاحب کو اغوا کر لیا۔

اس اغوا کے بارے میں بنیادی حقائق سامنے آنے کے بعد ہی کوئی رائے قائم کرنی چاہیے۔ لیکن کم از کم خاکسار تو اغوا کنندگان کی طبیعت کی بے نیازی سے بہت متاثر ہوا۔ یہ جرم کرنے کے لئے انہوں عین اس جگہ کا انتخاب کیا جہاں کیمرہ لگا نظر آ رہا تھا۔ مزید تسلی کے لئے کہ تمام دنیا ”رخ روشن“ کی زیارت کر لے، ان میں سے ایک نے سکول کے گیٹ کے اوپر سے منہ نکال کر مطیع اللہ جان صاحب کا موبائل بھی مانگا۔ پھر بارہ گھنٹے کے بعد انہیں چھوڑ بھی دیا۔

اب قانون نافذ کرنے والے ادارے اور مطیع اللہ جان صاحب دونوں خاموش ہیں۔ مگر پوری دنیا میں شور مچ گیا۔ دیکھتے ہیں کہ اس کا دف مارنے کے لئے کیا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ویسے اتنی مرتبہ دف مارنے سے بہتر تھا کہ دھرنے میں۔ معاف کیجیے گا میرا مطلب ہے کبابوں میں مرچیں کم ڈالتے۔ اب سی سی کرنے سے کیا فائدہ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments