مس مارگریٹ نعت پڑھتیں تو لگتا پکی مسلمان ہیں


نوشابہ کی ڈائری

بڑی خالہ کراچی چلی گئیں۔ انھیں جانا ہی تھا۔ خالو کے ریلوے سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ لوگ اور کتنے دن سرکاری مکان میں رہتے۔ پھر شہاب بھائی کی ملازمت بھی تو کراچی میں ہے۔ خالہ کتنے دکھ کے ساتھ کہہ رہی تھیں ”دلی چھٹنے کے بعد یہاں آئے، کس مشکل سے دل لگا، اور اب یہ شہر اپنا ہوگیا تو کراچی جانا پڑ رہا ہے۔“ بڑی خالہ امی سے یہ بھی کہہ رہی تھیں کہ ”کیا کریں! لڑکیوں کے رشتے اور لڑکوں کی نوکری سب کراچی میں ہیں۔

یہاں نہ اچھے خاندان نہ ڈھنگ کی نوکری۔“ شہاب بھائی کی نوکری تو کراچی می ہوگئی اب اللہ کرے شاہانہ باجی کی شادی بھی وہاں جاکر ہو جائے، وہ تو باجی سے بھی بڑی ہیں۔ کراچی تو ہمیں بھی چلے جانا ہے۔ امی ابو یہی کہتے ہیں کہ سارے رشتے دار وہاں پر ہیں۔ شہاب بھائی تو چلتے چلتے بھی کہہ گئے، ”خالوجان! مہاجروں کے لیے کراچی ہی محفوظ ہے یہاں تو پتا نہیں کب کیا ہو جائے۔“ ابو نے جواب دیا تھا، ”بیٹا! دعا ہے کہ کم ازکم کراچی میں مہاجر حفاظت سے رہیں۔

مجھے تو وہ منظر اب تک یاد ہے جب ایوب خان کا بیٹا جلوس کے ساتھ کراچی والوں کو سزا دینے نکلا تھا، فاطمہ جناح کو ووٹ دینے کی سزا۔“ آپ اس دن وہیں تھے؟ ”،“ کیا ہوا تھا ابو ”شہاب بھائی اور میں نے ایک سات سوال کیے تھے۔ ابو بتانے لگے“ میں لالوکھیت میں ماموں کے گھر بیٹھا تھا۔ فاطمہ جناح کی ایوب خان سے شکست پر ہم سب افسردہ تھے۔ دروازہ کھلا ہوا تھا، فراٹے دار ہوا آ رہی تھی۔ اچانک شور ہوا، گلی میں لوگ بدحواسی کی حالت میں بھاگ رہے تھے۔

ماموں نے پوچھا کیا ہوا ہے تو ایک شخص نے بھاگتے بھاگتے چلا کر کہا حملہ ہوگیا ہے، دروازے بند کرلو۔ ماموں نے فوراً دروازہ بند کرکے کنڈی چڑھادی۔ ممانی ایک ہاتھ سینے پر ہاتھ رکھے دوسرے سے اپنے ڈر کر روتے ہوئے دونوں بچوں کو لپٹائے زورزور سے آیت الکرسی پڑھنے لگیں۔ ہم سب ڈرے سہمے بیٹھے تھے۔ گولیوں کی آواز سے دل بیٹھا جا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد سناٹا ہوگیا، باہر نکل کر دیکھا تو دور کہیں آگ بھڑکتی نظر آ رہی تھی کہیں دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا تھا۔

مجھے یاد ہے دوتین دن بعد انڈیا سے بڑے چچا کا خط آیا تھا، لکھا تھا رام پور میں دنگا ہوا ہے جس میں ہندوؤں نے ان کے سالے کو مار دیا۔ خط کے آخری الفاظ تھے میاں ہمیں قائداعظم اور مسلم لیگ کو ووٹ دینے کی سزا مل رہی ہے اور ملتی رہے گی۔ اور یہاں ہم نے فاطمہ جناح کی حمایت کی سزا پالی۔ ”شہاب بھائی کہنے لگے“ اب حالات بدل گئے ہیں خالو! مہاجر ایک ہوگئے ہیں، اب جیسے کو تیسا والا معاملہ ہوگا۔ اب کراچی میں کسی کو مہاجروں کے ساتھ کچھ کرنے کی ہمت نہیں ہوگی۔

جتنی جلدی ممکن ہو یہ شہر چھوڑ کر کراچی میں بس جائیں۔ ”وہ پہلے تو یہ سب نہیں کہتے تھے۔ کراچی کا کوئی رشتے دار میرپورخاص چھوڑ کر کراچی آکر رہنے کو کہتا تو شہاب بھائی جواب دیتے، نہیں بھائی ہم لوگ یہیں ٹھیک ہیں۔ وہ تو واقعی یہاں بہت ٹھیک تھے۔ اتنے دوست اتنے تعلقات۔ سارا دن دوستوں میں رہتے، کبھی اپنے بلوچ دوستوں کے ساتھ مکرانی پاڑے میں فٹبال کھیل رہے ہیں تو کبھی گھر سے کہہ کر نکلے“ امی جمال کے گوٹھ جا رہا ہوں ابھی آتا ہوں ”، اور خالہ رات تک راہ دیکھتی رہتیں۔

جمال آریسر سے پرائمری میں دوستی ہوئی تو اب تک قائم ہے۔ اس کے ساتھ سن بھی گئے تھے جی ایم سید کی سال گرہ میں۔ ان کے دوست دھنی بخش بلوچ نے الیکشن لڑا تھا تو شہاب بھائی نے اس کی پوری مہم چلائی تھی۔ لیکن جب سے انھیں سندھ یونی ورسٹی میں مارا پیٹا گیا تب سے بہت بددل ہوگئے ہیں۔ انھوں نے بتایا تھا،“ کہتا رہا کہ میں پنجابی نہیں ہوں مگر جیے سندھ کے لڑکے مجھے پنجابی کہہ کر مارتے رہے۔ ”

وہ تو شہاب بھائی اکیلے تھے اور وہ لوگ دس پندرہ، اس لیے شہاب بھائی پٹ گئے، ورنہ وہ تو خود ایک ہتھ چھوڑ ہیں۔ دو سال پہلے چودہ اگست کو جب بھائی جان کا گلی میں پچھلی گلی کے لڑکوں سے جھگڑا ہوا تھا تو انھوں نے مارمار کر ان لڑکوں کی حالت خراب کردی تھی۔ ابو اور دیگر لوگوں نے بیچ بچاؤ کرادیا ورنہ پتا نہیں کیا ہوتا۔ بھائی جان ٹھنڈی طبیعت کے ہیں، مگر ان لڑکوں نے حرکت ہی ایسی کی تھی۔ چودہ اگست کو پورا شہر ہی سجتا ہے، ہر گھر پر جھنڈا لگا ہے، گلیاں جھنڈیوں سے سجی ہیں، پورا شہر قومی نغموں سے گونج رہا ہے، مگر جو سجاوٹ ہماری گلی کی ہوتی ہے اسے لوگ دوردور سے دیکھنے آتے ہیں۔

یہ ساری محنت بھائی جان، شہاب بھائی اور محلے کے دوسرے لڑکے کرتے ہیں، مینارپاکستان کا ماڈل، قائداعظم کے مزار اور درۂ خیبر کا ماڈل، پھر رات کو زبردست لائٹنگ جیسے کسی کی شادی ہو رہی ہو۔ شہاب بھائی تیرہ اگست کی رات ہمارے ہاں آکر رک جاتے تھے، سجاوٹ کے لیے، ان کی ریلوے کالونی تو سنسان پڑی رہتی ہے، وہاں یہ سب نہیں ہوتا۔ اس رات بھی ان لوگوں نے گلی سجائی اور کوئی تین چار بجے آکر سوگئے، ان کے آنے کے بعد پچھلی گلی کے جل ککڑے لڑکوں نے سجاوٹ خراب کردی، کسی نے دیکھ لیا اور بھائی جان کو بتا دیا، بس پھر کیا تھا، دونوں پہنچ گئے لڑنے۔ خوب مارکٹائی ہاتھا پائی ہوئی۔

ارے بھٹو کی بیٹی بے نظیر آ رہی ہے۔ جگہ جگہ نعرے لکھے ہیں ”جیے بھٹو، بھٹو کی تصویر بے نظیر، چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر۔“ کل میں اسکول سے آ رہی تھی تو جلوس نعرے لگاتا ہوا جا رہا تھا ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ․․․جو خون بہا تھا بھٹو کا، جو قتل ہوا تھا بھٹو کا، ہم بدلہ لیں گے بھٹو کا۔“ ہمارے تانگے کے پیچھے جو تانگہ آ رہا تھا اس میں ایک بوڑھے سندھی بابا بیٹھے تھے، نعرے سن کر وہ بھی جوش میں آگئے، پہلے اپنا جھریوں بھرا کم زور سا ہاتھ اٹھاکر نعروں کا جواب دیتے رہے پھر رو پڑے اور اپنی میلی کچیلی پگڑی کے پٹے سے آنسو پوچھنے لگے۔

جگہ جگہ پیپلزپارٹی کے پرچم نظر آرہے ہیں۔ گدھا گاڑیوں اور تانگوں پر بھی۔ حیرت ہے یہ غریب لوگ بھٹو اور پیپلزپارٹی سے اتنی محبت کیوں کرتے ہیں؟

کچھ دنوں پہلے مس مارگریٹ ملیں شاہی بازار میں۔ میں نے انھیں دیکھتے ہی ”السلام علیکم مس“ کہا تو ”وعلیکم السلام“ کہہ کر گلے لگالیا۔ کتنا اچھا لگتا ہے پرائمری اسکول کی کسی مس سے مل کر۔ مجھے یاد ہے جب اسکول میں میلاد ہوتا اور مس مارگریٹ کا نام نعت پڑھنے کے لیے پکارا جاتا تو سب حیران رہ جاتے۔ وہ سر دوپٹے سے ڈھانپ کر اتنی عقیدت سے نعت پڑھتیں لگتا کہ پکی مسلمان ہیں۔ مس مارگریٹ کے والد کا انتقال ہوا تو ہم ان کے گھر گئے تھے تعزیت کے لیے، گھر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور بی بی مریم ؓ کی بڑی بڑی تصویریں اور صلیب کا نشان لگا تھا۔ مس مارگریٹ کیا، ہمارے اسکول میں تو گیتا کماری اور راجیشوری بھی نعت پڑھتی تھیں، وہ تو محرم میں جب یوم حسینؓ کا جلسہ ہوتا تو نوحے بھی پڑھتی تھیں۔

کل بڑا برا دن گزرا۔ امی نے کہا تھا سالن چھوٹی پتیلی میں کرکے چھینکے میں رکھ دینا، باورچی خانے میں رکھا رہا تو خراب ہو جائے گا، مگر میں بھول گئی اور سالن خراب ہوگیا، امی سے بہت ڈانٹ پڑی۔ چھینکے میں نہیں نعمت خانے ہی میں رکھ دیتی تو سالن بچ جاتا۔ کاش ہمارے ہاں بھی فریج آ جائے جیسے سامنے والی بینا کے گھر آ گیا ہے۔ اس کا بھائی تو سعودی عرب میں ہے نا، تو مزے ہیں، رنگین ٹی وی، فریج۔ شکر ہے ہمارے ہاں ٹی وی آ گیا، ورنہ امی، باجی اور میں ٹی وی دیکھنے الیاس صاحب کے گھر جاتی تھیں، محلے کی اور بھی بہت سی عورتیں اور بچے آتے تھے، ان کا ٹی وی والا کمرہ پورا بھر جاتا تھا، ہم نے پورا ڈراما ”وارث“ وہیں دیکھا۔

اب تک یاد ہے جس دن ہمارے گھر ٹی وی آیا اس روز ”آنگن ٹیڑھا“ کی پہلی قسط آئی تھی۔ اس رات ہمارے گھر کے پاس جماعت اسلامی والوں کا جلسہ بھی ہوا تھا۔ تقریر کی آواز گھر تک آ رہی تھی۔ جہاد کی بات ہو رہی تھی۔ نظم بھی پڑھی گئی تھی ”انسان ہی کے ہاتھوں انسان جل رہا ہے، افغان جل رہا ہے۔“ افغانستان پر روس کے قبضے کے بعد بہت سے افغانی پاکستان آگئے ہیں۔ اس روز برکت بھائی، جو دو گھر چھوڑ کر رہتے ہیں، ان کا ذکر نکلا تھا۔

یہ لمبے چوڑے، گورے چٹے، سب انھیں غنڈا کہتے ہیں، لیکن محلے میں ہمیشہ آنکھیں جھکاکر گزرتے ہیں۔ بس لڑائی جھگڑوں میں آگے آگے رہے ہیں اور دوچار لوگوں کو چاقو بھی مارچکے ہیں، اس لیے سب انھیں غنڈا کہتے ہیں، مگر یہ تو پرانی بات ہوگئی، اب تو سوکھ کر کانٹا ہوگئے ہیں، چلا بھی نہیں جاتا، شکل بگڑ گئی ہے۔ ہیروئن پینے لگے ہیں نا۔ ابو کہہ رہے تھے ہیروئن افغانی لے کر آئے ہیں۔

سعید تو اب نہ خط بھیجتا ہے نہ نظر آتا ہے۔ میں نے بھی سوچ لیا ہے، اب اس نے خط بھیجا بھی تو جواب نہیں دوں گی۔ پتا نہیں کیا سمجھتا ہے خود کو۔

اس سیریز کے دیگر حصےہماری منیا کو دیکھے ہو؟نوشابہ کی ڈائری: مشرقی پاکستان اور کنفیڈریشن کا ذکر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments