کنوارے افسر کا ون پوائنٹ ایجنڈا


ایک کنوارے کا بار بار تیار ہو کر برد کھوا کے لئے متوقع سسرال کے سامنے پیش ہونا ایک جانگسل مرحلہ ہے۔ شادیوں کی تمام رسمیں ایک بار منائی جاتی ہیں لیکن یہ چلتی ہی جا رہی تھی۔ آج شاید پینتیسویں بار اسے گالیں رگڑا کر ان کے سامنے پیش ہونا تھا۔ پہلے حجام کے سامنے صم بکم ہو کر ایک گھنٹے تک بیٹھا رہا۔ چھوٹی بہن نے کہا تھا کہ جس مرد کو اپنی مردانگی پر شک ہوتا ہے وہی مونچھوں کو تاؤ دے کر دھاک جمانے کی کوشش کرتا ہے۔ ویسے بھی کلین شیو میں بندہ کم عمر لگتا ہے۔ اس کواپنی خشخشی سی داڑھی بہت پسند تھی۔ پہلے اس پر استرا پھرا۔ اب نشانہ مونچھیں بنیں تو اس نے دل کو حوصلہ دیا کہ جب ریش ہی گئی تو بروت کا کیا کرنا ہے۔ مونچھیں منڈوا کر اس نے خود کو آئینے میں دیکھا تو یوں لگا کہ اچھا بھلا منہ طباق سا ہو کر رہ گیا ہے۔

سر کے بال بھی جھڑنا شروع ہو چکے تھے۔ لیکن نیچے سے ابھی پچ نظر آنا شروع نہیں ہوئی تھی۔ غسل خانے سے نہا کر نکلا تو بال سیدھے کرتے وقت قینچی پکڑ کر خود نظرثانی کی کہ مبادہ کوئی میخ حجام کی دست برد سے محفوظ نہ رہ گئی ہو۔ کہیں کوئی پونچھڑی سارے دن کی محنت خاک میں نہ ملا دے۔

اس کا سوئمنگ پول میں جانا بھی بند تھا کہ پانی میں رہ رہ کر جلد پر مچھلیوں کی طرح فلوس آ جاتے ہیں اور سانولی جلد کی رنگت کالے رہو جیسی ہو جاتی ہے۔ اس سال گرمیوں میں وہ بارش سے بھی ہی دور رہا تھا جیسے گرگ کا بچہ بارش کی پہلی پھوار پڑتے ہی کھچار میں دبک کر بیٹھ جاتا ہے۔

جب متوقع سسرال کی تشریف آوری ہوتی ہے تو ان کے سامنے حضوری کا مرحلہ دل دہلانے والا ہو تا۔ وہ ’جل تو جلال تو‘ پڑھتے ہوئے اندر داخل ہوتا ہے لیکن ہر بار ’آئی بلا کو ٹال تو‘ کہتے رک جاتا ہے اور ورد شروع کر دیتا ہے کہ اے صاحب جلال! اس نازل بلا کو ہی میرے ساتھ گرفتار بلا کر دے۔ ہر بار ایک صاحب کمال مہمانوں میں ضرور ہوتا ہے، کبھی چڑھی ہوئی داڑھی والا، کبھی بڑا سا پگڑ سر پر باندھے ہوئے اور کبھی موٹے سے پیٹ والا۔

اس کے سوالات کی بوچھاڑ منہ موڑنے والی ہوتی ہے۔ مہمانوں میں موجود عورتیں پلکوں کی چلمن گرا کر دیکھتی ہیں اور کبھی نظر گھما کر۔ ان کے کیمرہ کی آنکھ بھی ہاتھ بدلتی رہتی ہے۔ بھلا سیل فون کا کیمرہ دور سے چوری چھپے تصویر بنائے گا تو کیا اچھا بھلا انسان گوریلا دکھائی نہیں دے گا؟ سامنے ٹیبل پر پڑے لذیذ لوازمات دیکھ کر منہ میں پانی بھر آتا ہے۔ وہ ان کو کھانے کی بجائے تکلف سے ٹھونگتا جاتا ہے۔ چائے کا کپ پکڑنے کو جو ہاتھ بڑھایا تو نشانہ چوک گیا اور نیا جگ ایک زمزے کے ساتھ فرش سے ٹکرا کر ریزہ ریزہ ہو گیا۔ وہ اور فرشی قالین پانی پانی ہو گئے۔

دس سال گزر چکے جب وہ کالج میں داخل ہوا۔ وہ ایک پر وجاہت لڑکا تھا۔ اس وقت اس کے سر پر گھنے بال تھے۔ کالج اور پھر یونیورسٹی میں اس کی چال ڈھال اور بول چال کی سبھی لڑکیاں اور لڑکے قائل تھے۔ تمام قسم کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں وہ پیش پیش رہتا تھا۔ بہت سی لڑکیاں اس کے قریب رہنے کو باعث فخر جانتی تھیں۔ کئی لڑکیوں سے آنکھوں ہی آنکھوں میں آنا کانی بھی ہوتی رہی۔ ایک دو گھن چکر بھی ہو گئیں لیکن کوئی مرے یا جئیے اسے اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔ اسے تو اپنی ماں کی بات نبھانی تھی ”دیکھ بیٹا کوئی عشق پیچا لڑا کر میرے سر میں خاک نہ ڈال دینا۔ میں تیری شادی اپنی پسند سے کروں گی۔ میرا یہ حق چھین نہ لینا۔“

جب اس نے جاب شروع کی تو ماں نے رشتہ ڈھونڈنا۔ وہ کسی بڑے گھر کی تلاش میں تھی۔ بہو خوبصورت بھی ہونی چاہیے اور امیر بھی۔ بیٹا افسر ہے، وہ بھی ڈاکٹر ہوتو بہت اچھا، نہیں تو لیکچرار لازمی ہو۔ معاشرہ میں تضاد بہت زیادہ ہے۔ ہر طرف افراتفری اور آپا دھاپی پڑی ہوئی ہے۔ انسان مذہب اور سماجی پابندیوں سے آزادی چاہتا ہے۔ وہ صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے۔ جنسی تسکین اور ذاتی آرام و سکون کے معاملہ میں انسان اور بھی خود غرض ہو جاتا ہے۔

ان حالات میں مناسب جوڑ ملنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ خوبصورت لڑکی کی کڑمائی تو پالنے میں ہی ہو جاتی ہے۔ امیر گھرانوں کو چاہنے والوں کی کمی نہیں ہوتی۔ باقی رہ جانے والی لڑکیاں میک اپ اور نازوانداز کے سہارے چلتی ہوئی یونیورسٹی میں داخل ہوتی ہیں اور انہیں اچھے لڑکے لے کر رفو چکر ہو جاتے ہیں۔ اس کا سوشیالوجی کا پرو فیسر کہا کرتا تھا کہ یونیورسٹیاں صرف اعلیٰ تعلیم کے حصول کے ادارے ہی نہیں، ادھر ذہن اور کردار کی تعمیر بھی ہوتی ہے۔

طالب علم آزادانہ فیصلے کرنا سیکھتے ہیں۔ ایسی دوستیاں بناتے ہیں جو عمر بھر ساتھ چلتی ہیں اور محبتیں ملتی ہیں جو بعد میں شادی کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ یہ شادیاں کامیاب ترین ہوتی ہیں کیونکہ ان جوڑوں میں ذہنی ہم آہنگی بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ وہ یہ وقت کھو چکا تھا اب وہ اور ماں خاک چھان رہے تھے۔ پنتیس چالیس میں سے اکثر کو ماں نے انکار کر دیا اور جو کوئی پسند آیا انہوں نے جواب دینا بھی مناسب نہ سمجھا۔ اس بار جو مہمان ہو کر گئے ان کا رویہ بھی ایسا ہی تھا۔

کہتے ہیں ”موچھ نیں تے کچھ نیں۔“ وہ بھی نہ بچی تھی۔ اب اسے سر کے بالوں کی فکر کھاے جارہی تھی۔ اس سے پہلے کہ ٹھوڑی سے لے کر چوٹی تک سب چٹیل میدان بن جائے، اس نے افسری کو ٹانگ ماری اور یونیورسٹی میں دوبارہ داخلہ لے لیا۔ شادی اس کا ون پوائنٹ ایجنڈا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments