جب چین کے بند دروازے کھلے


ایک طویل عرصے تک دنیا سے الگ تھلگ رہنے کے بعد بالآخر 1978۔ 79 میں چین نے ”بند دروازے“ کی پالیسی ترک کر دی تو چین میں سیاحوں کی بھر مار ہو گئی لیکن بیرونی دنیا پر چین کے دروازے کھولنے کا مقصد محض سیاحوں کو خوش آمدید کہنا نہیں تھابلکہ اس پالیسی کے تحت چین میں اقتصادی لحاظ سے انتہائی دور رس تبدیلیاں عمل میں لائی جا رہی تھیں۔ چینی ان تبدیلیوں کو ’اقتصادی اصلاحات‘ کا نام دیتے تھے۔ ان میں یہ احساس شدت سے پایا جاتا تھا کہ وہ ٹیکنالوجی کی دوڑ میں ترقی یافتہ ملکوں سے پیچھے رہ گئے تھے اور وہ اس کا ذمہ دار ”ثقافتی انقلاب“ کو قرار دیتے تھے۔ ثقافتی انقلاب کے دس سالوں کے دوران تعلیمی ادارے بند رہے اورپوری قوم نظریاتی اور سیاسی دھینگا مشتی میں مصروف رہی۔ چینی عوام اپنے اس نقصان کی تلافی کی فکر میں تھے۔

1978 ء سے چینی حکومت نے جو نئی پالیسی اپنائی تھی، اس کا اہم پہلو اقتصادی طور پر ملک کے دروازے بیرونی دنیا کے لئے کھولنا تھاتاکہ بین الاقوامی تعاون کے ذریعے چین اور ترقی یافتہ ممالک کے درمیان پائے جانے والے خلا کو پاٹا جا سکے۔ اگلے چھ سالوں میں چینی حکومت نے اس ضمن میں مسلسل اقدامات کیے جن میں کواندونگ اور فوجیان صوبوں میں خصوصی اقتصادی زون قائم کرنا، ساحلی شہروں کو بیرونی دنیا کے لئے کھولنا، غیر ملکی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کو استعمال میں لانا اور درامدات میں اضافہ کرنا تھا۔

اس پالیسی کے تحت کسی حد تک نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی گئی اور جگہ جگہ فری مارکیٹیں قائم کی گئیں جن کا سبزی، انڈوں اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی پر اچھا اثر پڑا۔ اس آزادانہ پالیسی کے نتیجے میں چین کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 1986 ء جنوری میں بڑے پیمانے پربین الاقوامی دفاعی نمائش کا انعقاد کیا گیا۔ اس نمائش کا مقصد ایڈوانس ٹیکنالوجی کو متعارف کرانا اور چینی اور غیر ملکی فرموں کے درمیان تعاون کے مواقع فراہم کرنا تھا۔

چین اس وقت ایک عبوری دور سے گزر رہا تھا۔ چینی عوام نئی پالیسیوں کا خیر مقدم کرنے کے ساتھ اپنے ذہنوں میں کچھ خدشات بھی رکھتے تھے۔ اور اس ضمن میں پیدا ہونے والے مسائل کی نشاندہی بھی کرتے رہتے تھے۔ مجھے یاد ہے ان دنوں پیپلز ڈیلی میں ایک مضمون شائع ہوا تھاجس میں درامدات کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ اعتراف بھی کیا گیا تھا کہ اشیائے صرف کی درامد پر بہت زیادہ زرمبادلہ صرف کیا گیا ہے یعنی کاروں، رنگین ٹی وی سیٹس اور ریفریجریٹرز وغیرہ پرجس کا ملکی صنعت پر برا اثر پڑا۔ جب اس طرح کے مسائل کی نشاندہی کی جاتی تھی تو حکومت ان کے سد باب کی کوشش کرتی تھی۔

آزادانہ پالیسی کے نتیجے میں سرکاری شعبے کی گرفت ڈھیلی کر دی گئی تھی اور ہر انٹر پرائز کو ایک خود مختار کاروباری اکائی بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی تا کہ باہمی مقابلے کے نتیجے میں ان کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔ اس آزاد پالیسی کا ایک دلچسپ پہلو بھی سامنے آیا تھا یعنی چینیوں میں غیر ملکیوں یا اوورسیز چینیوں کے ساتھ شادی کرنے کے رحجان میں اضافہ ہو گیا تھا۔

سرکاری گرفت ڈھیلی ہونے کے جہاں حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے وہاں کچھ لوگوں نے اس ڈھیل سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی بھی کی تھی۔ جب حکومت کے آڈیٹروں نے مختلف محکموں کے حسابات کی جانچ پڑتال کی تو اربوں کی ہیرا پھیری منظر عام پر آئی۔ اسی طرح کچھ شہروں سے اسمگلنگ کی خبریں بھی موصول ہونے لگیں لیکن یہ سب مسائل حکومت کے علم میں تھے اور ان کے تدارک کی کوششیں بھی کی جا رہی تھیں۔

چینی عوام کا کہنا تھا کہ وہ ”لیفٹ ازم“ کا جوا گلے سے اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی لئے جو اصلاحات کی جا رہی تھیں، ان میں زیادہ توجہ مختلف کنٹرول اور پابندیوں کو نرم کرنے پر دی جا رہی تھی۔ اس کے اچھے اقتصادی نتائج سامنے آئے لیکن کچھ لوگوں کے ذہنوں میں یہ تاثر پیدا ہو گیا کہ ان اصلاحات کا مقصد کسی بھی قسم کا کنٹرول نہ ہونا تھا۔ ”اکنامک انفارمیشن“ کا کہنا تھا کہ نرمی کے ساتھ ساتھ ان اصلاحات کے لئے مناسب کنٹرول کا ہونا بھی ضروری ہے۔ بیرونی دنیا پر اپنے دروازے کھولنے کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی شکل میں کنٹرول کے ضوابط کا ہونا بھی ضروری ہے۔

1978 ء کے بعد سے ملک میں ملکیت کے واحد سرکاری ڈھانچے میں کئی طرح کی تبدیلیاں آئیں۔ ان اصلاحات پر بحث کے لئے پروگرام بھی منعقد کیے جاتے تھے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ کچھ شعبوں کو سرکاری ملکیت میں ہی رہنا چاہیے اور حکومت کو براہ راست ان کا نظم و نسق سنبھالنا چاہیے۔ جب کہ کچھ شعبوں کو سرکاری ملکیت میں رہنے کے باوجود اپنا انتظام خود سنبھالنا چاہیے جب کہ حکومت کا کنٹرول بالواسطہ ہو اور دیگر شعبوں کو حکومت کے بالواسطہ یا بلا واسطہ کنٹرول میں رہتے ہوئے مینجیریل سسٹم اپنانا چاہیے۔

ان مباحث میں تجرباتی طور پر لمیٹڈ کمپنیاں کھولنے کی تجویزدی جاتی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ چین کو مغربی لمیٹڈ کمپنیوں کے ماڈلز کی آنکھیں بند کر کے تقلید نہیں کرنی چاہیے۔ ان کمپنیوں کے لئے سرمایہ سرکاری ملکیت والے کاروباروں اور انفرادی کارکنوں سے جمع کیا جائے۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا تھا کہ چین میں مختلف طرح کے اقتصادی عناصر اور انتظامی طریقے ایک طویل عرصے تک ساتھ ساتھ چلتے رہیں گے۔ صحیح پالیسیوں کی تشکیل کے لئے مسلسل اور باقاعدہ تحقیق ضروری ہے۔

مجھے یہ بات بہت اچھی لگتی تھی کہ چینی حکومت جب کوئی پالیسی بناتی تھی تو مختلف تنظیمیں یعنی خواتین کی تنظیم، نوجوانوں کی تنظیم، محلہ کمیٹیاں اور دیگر کمیٹیاں اس بارے میں سروے کرتی تھیں۔ عوام کی رائے اور مسائل معلوم کرتی تھیں اور یوں مختصر مدت میں حکومت کو اندازہ ہو جاتا تھا کہ کسی پالیسی کے بارے میں عوام کی رائے کیا ہے۔ اس کے مثبت یا منفی پہلو کیا ہیں۔ اور پھر اس کے مطابق اس پالیسی میں مناسب تبدیلیاں کی جاتی تھیں یا بعض صورتوں میں اسے واپس لے لیا جاتا تھا۔ ویسے بھی دروازے کھولنے کی پالیسی کے نتیجے میں چینی حکومت اظہار خیال کی آزادی کی حوصلہ افزائی کرنے لگی تھی۔ اس لئے اخبارات میں عوام کے تنقیدی مراسلے وغیرہ شائع ہوتے رہتے تھے اور یوں حکومت کو عوام کے مسائل حل کرنے میں آسانی رہتی تھی۔

2019 ء میں وکی پیڈیا کے مطابق مرکزی منصوبہ بند نظام کے تحت چلنے والی چین کی معیشت جو اب منڈی کی قوتوں پر انحصار کرنے والی معیشت بن چکی ہے کو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کا درجہ مل چکا ہے۔ اسے دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت کہا جاتا ہے۔ چین کا بینکاری کا شعبہ دنیا میں سب سے بڑا ہے۔ ارب پتیوں کی تعداد کے لحاظ سے چین دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اشیا کی مینو فیکچرنگ اور برامدات کے لحاظ سے چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن چکاہے۔ یہ دنیا کی سب سے تیزی سے نمو پانے والی صارفین کی منڈی ہے۔ چین دنیا کی سب سے بڑی تجارتی قوم بن چکا ہے۔ اس کو بین الاقوامی تجارت میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ شنگھائی اسٹاک ایکسچینج اور شین زن اسٹاک ایکسچینج کا شمار دنیا کی سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینجز میں ہوتا ہے۔

چینی حکومت اور کمیونسٹ پارٹی 2020 ء کو کامرانیوں کے سال کے طور پر دیکھ رہی تھی، چین ”معتدل طور پر خوشحال ملک“ کا درجہ حاصل کرنے والا تھا کہ کرونا نازل ہو گیا۔ اس وبا نے تین مہینے کے لئے چینی معیشت کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ بہرحال چین نے جس طرح سے کووڈ 19 کا مقابلہ کیا، اس کی اب دنیا میں مثالیں دی جا رہی ہیں اور عوام دوست مارین کا کہنا ہے کہ عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے دنیا بھر کی حکومتوں کو کم از کم تعلیم اور صحت کے شعبوں کو اپنے پاس رکھنا چاہیے اور ان شعبوں کی کسی صورت نجکاری نہیں کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments