وادی نیلم کے باسیوں کی شکایات


کہتے ہیں کہ فیصلہ تو حکمرانوں نے کرنا ہے کہ وہ اس وادی کو کیسی معیشت اور کیسی معاشرت دینا چاہتے ہیں، کس طرح امن کی آشا لہرائیں گے، کس طرح عوام کو ریلیف دیں گے، کس طرح بھارتی بربریت سے چھٹکارا دلوائیں گے۔ میں کہتا ہوں کہ اب یہ فیصلہ وادی نیلم کے باسیوں نے کرنا ہے کہ وہ کس طرح کی معیشت و معاشرت چاہتے ہیں، کس طرح امن، ترقی اور بھارتی بربریت سے چھٹکارا پائیں گے۔ وادی ترقی کرے گی، افتادگان خاک کو بھی سانس لینے کے لیے تھوڑی سی کشادہ جگہ مل جائے گی، سیاسی حبس اور دم گھٹا دینے والی وحشت دم توڑ دے گی، لوگ تو امید و نا امیدی کے درمیان کھڑے ہیں۔

ایک طرف کرونا تو دوسری طرف بھارتی رونا اور تیسری طرف وادی میں موجود وادی کے غدار وں کا ڈراؤنا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ اور پھر کہتے ہیں کہ سیٹی تو سیاست دانوں نے بجانی ہے، کھیل تو انھوں نے شروع کرنا ہے، ایسا کھیل جو ہر قسم کے ناجائز ذرائع سے پاک ہو، شفاف اور اصولوں کے مطابق ہو۔ میں کہتا ہوں کہ سیٹی اب عوام نے بجانی ہے۔ کھیل ہم نے شروع کرنا ہے ایسا کھیل جو ہر قسم کے ناجائز ذرائع سے پاک، شفاف اور اصولوں کے مطابق ہو۔ پاکستان میں سیاست دان کی بنیاد ہی کرپشن، ناجائز دولت، دھند، دھونگ، دھاندلی پر ہے تو وہ کیسے سیٹی بجا کر سب کچھ ٹھیک کر لے گا۔

آج سے چار سال پہلے کشمیر میں الیکشن ہوتے ہیں نیلم کے حلقہ LA۔ 23 سے شاہ غلام قادر بھاری اکثریت سے جیت جاتے ہیں اور اسپیکر اسمبلی آزاد کشمیر بن جاتے ہیں۔ اور ہر بڑے عہدے پر اپنا وفادار بٹھا کر نیلم ویلی کو اپنے قبضے میں کر لیتے ہیں۔ چاہے جنگلات کا محکمہ ہو یا ٹورزم کا، بلدیات ہو یا شاہرات ہر بڑے عہدے پر وفادار بٹھا کر اپنی ساکھ جما لیتے ہیں۔ اس دورانیے میں جنگلات کا بہیمانہ کٹاؤ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ یہ لکھتے ہوئے دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے نیلم کے ساتھ ایسا ظلم آخر کیوں۔ ایک مہاجر آ کر ہمارے سادہ لوح لوگوں کو سبز باغ دکھا کر انہی لوگوں کو چونا لگانے میں تو ماہر ہیں لیکن ان کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ سادہ لوح عوام اب سادہ نہیں رہے بلکہ شعور سے لبریز ہو گئے ہیں۔

نیلم گاؤں

یہ شعور کیسے ابھر کر سامنے آیا ایک اس وقت میں کہ جب نیلم ویلی سیاسی دنگل بنا ہوا تھا سب کی توجہ سیاست پر تھی تو اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے سینکڑوں ایکڑ زمین جو ٹورازم کے لحاظ سے انتہائی قیمتی ہے اپنے بیٹے کے نام الاٹ کرواتے پکڑا گیا اور کچھ نڈر صحافیوں نے شاہ کی دم پر پاؤں رکھ دیا۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں بھی اسی نیلم کا باسی ہوں اس نیلم کا جو انتہائی مشکل حالات میں ترقی کی طرف گامزن ہے۔ یہاں کا بچہ بچہ بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لائن آف کنٹرول پر اپنی زندگی بسر کرتا ہے، آئے روز گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے وادی کانپ جاتی ہے لیکن ان کے حوصلے نہیں ٹوٹتے۔

جو خود کو کشمیر اور نیلم کا محافظ کہلاتے تھکتے نہیں جن کی اولادیں اسلام آباد اور پنڈی کے پرامن ماحول میں عیش و عشرت کے ساتھ پروان چڑھیں جن کی اولادیں سہولیات انجوائے کرتے ہوئے ڈاکٹر ز، انجینئرز اور سیاست دان بنیں جن کی اولادوں کو یہ تک نہیں پتا مسئلہ کشمیر کیا ہے تحریک آزادی کشمیر میں جانوں کا نظرانہ کیسے پیش کیا جاتا ہے اور کس کس نے اپنے لہو سے دھرتی ماں کو سینچا ہے

یہ ویلی ہماری ہے اس کی حفاظت ہم کریں گے اس کی خاطر ہم لڑیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments